بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید
سخندانِ فارس مدّت سے پھٹے پرانے کپڑوں میں پڑا سوتا تھا۔ کم فرصتی وقت کو ٹالتی تھی۔ یہاں تک کہ کل سے پرسوں، اور مہینوں سے برسوں ہو گئے۔ جب بندۂ آزاد ایران سے آیا تو ہم زبانی کے جذبوں نے زور کیا۔ مصلحت نے کہا کہ اس وقت اُدھر کے خیالات تازے ہیں، سب سے پہلے اسے پورا کرنا چاہیئے۔ ناچار نظر ثانی شروع کی، فرصت کم، کام بہت، کئی مہینے گزر گئے۔ پھر بھی جس طرح جی چاہتا ہے، سر انجام نہ کر سکا۔ جانتا ہوں کہ حالتِ موجودہ اس کی مشتہر کرنے کے قابل نہیں مگر کیا کروں انتظارِ فرصت میں 15 برس گزر گئے۔ اب اہلِ طلب کے تقاضے غالب اور دل مغلوبِ مروّت ہے۔ خدا کے سپرد کر کے مطبع کے حوالے کرتا ہوں، الٰہی حسنِ قبول روزی کر۔
دعا کا محتاج
بندۂ آزاد محمد حسین عفی عنہ
5 اگست 1887ء