علی سردار جعفری سجاد ظہیر کے نام - علی سردار جعفری

حسان خان

لائبریرین
مجھے یقیں ہے کہ زنداں میں بھی لبوں پہ ترے
وہ موجِ نور وہ ہلکا سا اک تبسم ہے
تری حیات سہی نفرتوں کے گھیرے میں
تری نظر میں محبت بھرا تکلم ہے
مجھے یقیں ہے کہ زنداں میں بھی خیال ترا
بنا رہا ہے نئے آدمی کی تصویریں
نیا سماج، نئی زندگی، نئی تہذیب
پہنائی جاتی ہیں جس کو ہزار زنجیریں
کھڑی ہوئی ہے ترے سر پہ موت یوں آ کر
کہ تو حیات کے پیغمبروں کا رہبر ہے
خزاں کو تیرے گلستانِ زندگی کی تلاش
کہ تیرے سینے میں دل، دل میں اک گلِ تر ہے
اندھیرا تجھ سے خفا ہے کہ اس کے سینے پر
تجھے چراغ جلانے کی آرزو کیوں ہے
بگڑ گئے ہیں لہو کے تمام بیوپاری
کہ تجھ کو امن و محبت کی جستجو کیوں ہے
ہیں قصر چیں بہ جبیں، دانت پیستے ہیں محل
کہ تیرے خواب ہیں بدحال جھونپڑوں کے لیے
ہیں جنگ باز ترے گرم خون کے پیاسے
کہ تو سکون کا پیغام ہے دلوں کے لیے
یزید و شمر کو قتلِ حسین کی ہے فکر
وہ ارضِ پاک کو بھی کربلا بنا دیں گے
ترا یہ عہد کہ انسانیت کی محفل سے
ستمگروں کا رواجِ ستم اٹھا دیں گے
انہیں یہ فکر کہ ماؤں کی جھرّیاں بک جائیں
تجھے یہ فکر کہ بہنوں کے سر پہ چادر ہو
انہیں یہ فکر کہ زخموں سے چور چور ہوں دل
تجھے یہ فکر کہ دنیا گلوں کا منظر ہو
انہیں یہ فکر کہ تیغ و تفنگ کا ہو عروج
تجھے یہ فکر کہ ہو خنجروں کی رسوائی
انہیں یہ فکر کہ بارود کا اندھیرا چھائے
تجھے یہ فکر کہ پھیلے شفق کی رعنائی
انہیں یہ فکر کہ راتیں طویل ہو جائیں
تجھے یہ فکر کہ رنگِ سحر نکھر آئے
انہیں یہ فکر کہ ٹھہر جائے گردشِ ایام
تجھے یہ فکر کہ سیلابِ غم گزر جائے
جکڑ سکی نہ ارادوں کو تیرے جب زنجیر
تو قاتلانِ کہن آ گئے رسن لے کر
ترے لیے ہی نہیں ارضِ پاک کے بھی لیے
وہ آج پلٹے ہیں امریکہ سے کفن لے کر
مگر زمانے کے تیور کچھ اور ہیں، یہ رسن
کہیں انہیں کے گلوں کی رسن نہ بن جائے
وہ عصرِ نو کے لیے لے کے آئے تو ہیں کفن
یہ قاتلوں کا خود اپنا کفن نہ بن جائے
تری بلندئ فکر و نظر کا کیا کہنا
وہ دیکھ پست ہوئی جا رہی ہیں دیواریں
ہم اپنے دل کی محبت سے ڈھانپ لیں گے تجھے
ستم کے ہاتھ سے ہم چھین لیں گے تلواریں
میں پڑھ رہا ہوں لکھا ہے جبینِ وقت پہ کیا
زمانہ تجھ سے ہی انساں کے انتظار میں ہے
ہے تیرے دل میں بہاراں کی آرزو لیکن
تو آرزو کی طرح خود دلِ بہار میں ہے
(علی سردار جعفری)
مئی ۱۹۵۱ء
 
Top