ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے

نوید ناظم

محفلین
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ
ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے

یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے

وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے

جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی
اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے

کہا تو ہے وفا کا اُس کو میں نے
مگر ڈر ہے کہ وہ الٹا نہ کر دے

مجھے یہ شخص مجنوں لگ رہا ہے
کہیں یہ شہر کو صحرا نہ کر دے

دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے

تِرا غم مجھ سے لے جائے نہ کوئی
مجھے کوئی یونہی آدھا نہ کر دے

سبھی دشمن سمجھتے ہیں اُسے پھر
کسی کو بس خدا سچا نہ کر دے

بہت ہنستا ہے شب زادوں پہ وہ بھی
اُسے یہ روشنی اندھا نہ کر دے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں نوید صاحب!
آپ کی غزلیں اچھی ہوتی ہیں ۔ اچھے خیالات ہوتے ہیں لیکن پڑھتے ہوئے چند کمزور لسانی پہلو تواتر سے سامنے آتے ہیں ۔ ان پر توجہ دیجئے گا ۔
ایک بات تو یہ کہ مصرعوں کی گرامر کچھ الجھی ہوئی سی ہوتی ہے ۔ کوشش ہونی چاہئے کہ بیانیہ فطری زبان سے ممکنہ حد تک قریب ہو ۔ دوسرے آپ کچھ الفاظ مستند روش سے ہٹ کر استعمال کرتے ہیں ۔ بطور مثال میں کچھ اشعار کی نشاندہی کرتا ہوں ۔

مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ
ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے

-------- -------------یہاں ’’ورنہ‘‘ کا کوئی محل نہیں ۔

یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
---------------------- شیشہ کرنا کوئی محاورہ نہیں ۔دونوں مصرعوں کا ربط بھی کمزور ہے ۔
وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
--------------------------- محض چشمہ کرنا کوئی محاورہ نہیں ۔ اگر صحرا ’’کو‘‘ چشمہ کرنا یا پتھر کو چشمہ کرنا کہا جائے تو پھر بھی نبھ جاتا ہے ۔
جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی
اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے
------------------------- یہ اچھا شعر ہے ۔ اس شعر میں ردیف پوری طرح نبھ رہی ہے ۔
کہا تو ہے وفا کا اُس کو میں نے
مگر ڈر ہے کہ وہ الٹا نہ کر دے
----------------------’’ کسی کو وفا کا کہنا‘‘ اردو نہیں ہے ۔
مجھے یہ شخص مجنوں لگ رہا ہے
کہیں یہ شہر کو صحرا نہ کر دے
-------------------------- کون شخص؟! ہمیں بھی بتائیے نوید بھائی ۔:):):)
دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے
--------------------------- یہاں عروضی سقم ہے ۔ اردو کے کئی الفاظ ایسے ہیں کہ مختلف معنوں میں ان کا تلفظ بھی مختلف ہوجاتا ہے ۔ ’نہ‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے ۔ جب یہ لفظ بطور اسم بمعنی ’’انکار‘‘ استعمال ہو تو پورا بولا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اسے یک حرفی نہیں باندھ سکتے۔ ایسی ہی ایک مثال لفظ ’’اور ‘‘ کی بھی ہے ۔ چونکہ تقطیع ملفوظی ہوتی ہے مکتوبی نہیں اس لئے جو لفظ جس سیاق و سباق میں جیسا بولا جائے گا ویسا ہی تقطیع بھی ہوگا ۔

تِرا غم مجھ سے لے جائے نہ کوئی
مجھے کوئی یونہی آدھا نہ کر دے
---------------------- اچھا شعر ہے ۔ اگرچہ بیانیہ کہیں بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔
سبھی دشمن سمجھتے ہیں اُسے پھر
کسی کو بس خدا سچا نہ کر دے
------------------------ یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا ۔
بہت ہنستا ہے شب زادوں پہ وہ بھی
اُسے یہ روشنی اندھا نہ کر دے
------------------------- یعنی شب زادوں پر ہنسنا کوئی بری بات ہے؟!
 

الف عین

لائبریرین
ظہیر احمد ظہیر کی بات میں دم ہے، اگرچہ کچھ زیادہ شدت آ گئی ہے۔ کئی اعتراضات مجھے کلی طور پر قبول ہیں۔
یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
÷÷واقعی بات واضح نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ’یہاں ہر ایک‘ زیادہ رواں ہے۔

وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
÷÷ایڑھی لفظ ہی غلط ہے۔ اگر اشارہ زمزم کی طرف ہے تو اسے ’ایڑی‘ ہونا چاہیے۔ چشمہ کرنا واقری بدلنا چاہیے۔
‘نہُ کو یک حرفی باندھنے کے بارے میں میں ظہیر میاں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اسے ہر صورت میں یک حرفی ہی باندھنا چاہیے۔ البتہ مجھے اس شعر میں اعتراض محاورے پر ہو گا۔ ’نہ کرتا ہے اگر اچھا، نہ کرے‘ تو درست ہو گا۔ لیکن ُنہ کر دے‘؟
آخری دو اشعار پر ظہیر کا اعتراض درست ہے۔ نلکہ شب زادوں پر ’وہ بھی‘ ہنستا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اور کون کون؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے

‘نہُ کو یک حرفی باندھنے کے بارے میں میں ظہیر میاں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اسے ہر صورت میں یک حرفی ہی باندھنا چاہیے۔ البتہ مجھے اس شعر میں اعتراض محاورے پر ہو گا۔ ’نہ کرتا ہے اگر اچھا، نہ کرے‘ تو درست ہو گا۔ لیکن ُنہ کر دے‘؟

اعجاز بھائی ، اس شعر میں نوید نے دراصل ’’ نا کرنا‘‘ کا محاورہ باندھا ہے ( نا کرنا اور ہاں کرنا قبول کرنے اور رد کرنے کے معانی میں) ۔ یہ محاورے رشتے ناطے اور ایجاب و قبول کے سیاق و سباق میں عام بولے جاتے ہیں ۔ اس لئے یہاں محاورے کا استعمال تو درست ہے ۔ جیسے کہا جائے : اگر لڑکا ہاں کرتا ہے تو ہاں کردے اور اگر نا کرتا ہے تو ناکردے ، ہماری بلا سے۔ ( اعجاز بھائی آپ سے انتہائی معذرت ۔ چونکہ اصلاحِ سخن کا زمرہ ہے اس لئے صرف استفادۂ عام کی خاطر یہ مثالیں لکھی ہیں ۔ امید ہے اس بے ادبی پر آپ مجھے معاف فرمائیں گے)۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس نا کو بھی اکثر نہ لکھا جاتا ہے اور اور اس دُہرے املا کی دلیل تمام لغات میں ملتی ہے ۔ نا کرنا اور ہاں کرنا چونکہ نسبتاً نئے محاورے ہیں اس لئے نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں درج نہیں ۔ لیکن فیروزاللغات ، مقتدرہ اردو اور دیگر جدید لغات میں شامل ہیں ۔ سو میں نے اسی لئے نوید بھائی سےعرض کیا تھا کہ یہاں ’’نا‘‘ کو پورا پڑھا جائے گا ۔ اگر اسے یک حرفی باندھا جائے تو ’’ نکرتا ہے ۔ اگر اچ چا ۔ نکردے‘‘ تقطیع ہوگا جو ظاہر ہے درست نہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نوید بھائی ! استادِ محترم نے توجہ دلائی ہے کہ آپ کی غزل پر میرا تبصرہ کچھ شدت پسندانہ سا نظر آرہا ہے ۔ اس کے لئے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔ بخدا دل آزاری میرا مسلک نہیں ۔ اسے گناہ سمجھتا ہوں ۔ میں نے تو اپنی طرف سے بہت خلوص اور خدمت کے جذبے سے کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا تھا اور نیت یہی تھی کہ آپ اور دیگر نئے قلمکار مستفید ہوں ۔ آپ کی شاعری میں بہت اچھے امکانات ہیں ۔ اور یہ بات میں نے اوپر لکھی بھی تھی کہ آپ کی غزلیں اچھی ہوتی ہیں ۔ اچھے خیالات ہوتے ہیں ۔ میری ناقص رائے میں تعمیری تنقید و تبصرہ ہر قلمکار کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے ۔ اسے بہتری پر اکساتا ہے ۔ اگر میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں آپ سے دست بستہ معافی کا خواست گار ہوں ۔ امید ہے آپ عفو و درگزر سے کام لیں گے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اعجاز بھائی ، اس شعر میں نوید نے دراصل ’’ نا کرنا‘‘ کا محاورہ باندھا ہے ( نا کرنا اور ہاں کرنا قبول کرنے اور رد کرنے کے معانی میں) ۔ یہ محاورے رشتے ناطے اور ایجاب و قبول کے سیاق و سباق میں عام بولے جاتے ہیں ۔ اس لئے یہاں محاورے کا استعمال تو درست ہے ۔ جیسے کہا جائے : اگر لڑکا ہاں کرتا ہے تو ہاں کردے اور اگر نا کرتا ہے تو ناکردے ، ہماری بلا سے۔ ( اعجاز بھائی آپ سے انتہائی معذرت ۔ چونکہ اصلاحِ سخن کا زمرہ ہے اس لئے صرف استفادۂ عام کی خاطر یہ مثالیں لکھی ہیں ۔ امید ہے اس بے ادبی پر آپ مجھے معاف فرمائیں گے)۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس نا کو بھی اکثر نہ لکھا جاتا ہے اور اور اس دُہرے املا کی دلیل تمام لغات میں ملتی ہے ۔ نا کرنا اور ہاں کرنا چونکہ نسبتاً نئے محاورے ہیں اس لئے نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں درج نہیں ۔ لیکن فیروزاللغات ، مقتدرہ اردو اور دیگر جدید لغات میں شامل ہیں ۔ سو میں نے اسی لئے نوید بھائی سےعرض کیا تھا کہ یہاں ’’نا‘‘ کو پورا پڑھا جائے گا ۔ اگر اسے یک حرفی باندھا جائے تو ’’ نکرتا ہے ۔ اگر اچ چا ۔ نکردے‘‘ تقطیع ہوگا جو ظاہر ہے درست نہیں ۔
اس طرف میرا خیال نہیں گیا تھا۔ اور اسی لیے میرا اعتراض تھا کہ ’نہ کرے‘ محاورہ ہونا چاہیے۔ اب یہ نوید جانیں کہ انہوں نے کن معانی میں اس کو استعمال کیا ہے۔
میں اکثر معمولی سی اغلاط کو در گذر کر دیتا ہوں۔ غالب اور اقبال کے کلام میں بھی ایسی اغلاط ممکن ہیں!!! مجھے تو خوشی ہوئی کہ بہت باریکی سے دیکھا۔ کاش ذرا سنجیدگی سے اصلاح سخن کا زمرہ دیکھ لیا کریں تو کیا بات ہے!!
 

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں نوید صاحب!
آپ کی غزلیں اچھی ہوتی ہیں ۔ اچھے خیالات ہوتے ہیں لیکن پڑھتے ہوئے چند کمزور لسانی پہلو تواتر سے سامنے آتے ہیں ۔ ان پر توجہ دیجئے گا ۔
ایک بات تو یہ کہ مصرعوں کی گرامر کچھ الجھی ہوئی سی ہوتی ہے ۔ کوشش ہونی چاہئے کہ بیانیہ فطری زبان سے ممکنہ حد تک قریب ہو ۔ دوسرے آپ کچھ الفاظ مستند روش سے ہٹ کر استعمال کرتے ہیں ۔ بطور مثال میں کچھ اشعار کی نشاندہی کرتا ہوں ۔

مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ
ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے

-------- -------------یہاں ’’ورنہ‘‘ کا کوئی محل نہیں ۔

یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
---------------------- شیشہ کرنا کوئی محاورہ نہیں ۔دونوں مصرعوں کا ربط بھی کمزور ہے ۔
وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
--------------------------- محض چشمہ کرنا کوئی محاورہ نہیں ۔ اگر صحرا ’’کو‘‘ چشمہ کرنا یا پتھر کو چشمہ کرنا کہا جائے تو پھر بھی نبھ جاتا ہے ۔
جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی
اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے
------------------------- یہ اچھا شعر ہے ۔ اس شعر میں ردیف پوری طرح نبھ رہی ہے ۔
کہا تو ہے وفا کا اُس کو میں نے
مگر ڈر ہے کہ وہ الٹا نہ کر دے
----------------------’’ کسی کو وفا کا کہنا‘‘ اردو نہیں ہے ۔
مجھے یہ شخص مجنوں لگ رہا ہے
کہیں یہ شہر کو صحرا نہ کر دے
-------------------------- کون شخص؟! ہمیں بھی بتائیے نوید بھائی ۔:):):)
دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے
--------------------------- یہاں عروضی سقم ہے ۔ اردو کے کئی الفاظ ایسے ہیں کہ مختلف معنوں میں ان کا تلفظ بھی مختلف ہوجاتا ہے ۔ ’نہ‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے ۔ جب یہ لفظ بطور اسم بمعنی ’’انکار‘‘ استعمال ہو تو پورا بولا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اسے یک حرفی نہیں باندھ سکتے۔ ایسی ہی ایک مثال لفظ ’’اور ‘‘ کی بھی ہے ۔ چونکہ تقطیع ملفوظی ہوتی ہے مکتوبی نہیں اس لئے جو لفظ جس سیاق و سباق میں جیسا بولا جائے گا ویسا ہی تقطیع بھی ہوگا ۔

تِرا غم مجھ سے لے جائے نہ کوئی
مجھے کوئی یونہی آدھا نہ کر دے
---------------------- اچھا شعر ہے ۔ اگرچہ بیانیہ کہیں بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔
سبھی دشمن سمجھتے ہیں اُسے پھر
کسی کو بس خدا سچا نہ کر دے
------------------------ یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا ۔
بہت ہنستا ہے شب زادوں پہ وہ بھی
اُسے یہ روشنی اندھا نہ کر دے
------------------------- یعنی شب زادوں پر ہنسنا کوئی بری بات ہے؟!
بہت ممنون ہوں کہ آپ نے اتنی تفصیل کے ساتھ اشعار کو دیکھا، جن باتوں کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا انھیں دھیان میں رکھنے کی کوشش کروں گا ان شاءاللہ۔
 

نوید ناظم

محفلین
ظہیر احمد ظہیر کی بات میں دم ہے، اگرچہ کچھ زیادہ شدت آ گئی ہے۔ کئی اعتراضات مجھے کلی طور پر قبول ہیں۔
یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
÷÷واقعی بات واضح نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ’یہاں ہر ایک‘ زیادہ رواں ہے۔

وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
÷÷ایڑھی لفظ ہی غلط ہے۔ اگر اشارہ زمزم کی طرف ہے تو اسے ’ایڑی‘ ہونا چاہیے۔ چشمہ کرنا واقری بدلنا چاہیے۔
‘نہُ کو یک حرفی باندھنے کے بارے میں میں ظہیر میاں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اسے ہر صورت میں یک حرفی ہی باندھنا چاہیے۔ البتہ مجھے اس شعر میں اعتراض محاورے پر ہو گا۔ ’نہ کرتا ہے اگر اچھا، نہ کرے‘ تو درست ہو گا۔ لیکن ُنہ کر دے‘؟
آخری دو اشعار پر ظہیر کا اعتراض درست ہے۔ نلکہ شب زادوں پر ’وہ بھی‘ ہنستا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اور کون کون؟
بہت شکریہ سر،
شب زادوں والا شعر نکال دیا
نہ کر دے والا شعر بھی نکال دیا۔
ب
نوید بھائی ! استادِ محترم نے توجہ دلائی ہے کہ آپ کی غزل پر میرا تبصرہ کچھ شدت پسندانہ سا نظر آرہا ہے ۔ اس کے لئے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔ بخدا دل آزاری میرا مسلک نہیں ۔ اسے گناہ سمجھتا ہوں ۔ میں نے تو اپنی طرف سے بہت خلوص اور خدمت کے جذبے سے کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا تھا اور نیت یہی تھی کہ آپ اور دیگر نئے قلمکار مستفید ہوں ۔ آپ کی شاعری میں بہت اچھے امکانات ہیں ۔ اور یہ بات میں نے اوپر لکھی بھی تھی کہ آپ کی غزلیں اچھی ہوتی ہیں ۔ اچھے خیالات ہوتے ہیں ۔ میری ناقص رائے میں تعمیری تنقید و تبصرہ ہر قلمکار کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے ۔ اسے بہتری پر اکساتا ہے ۔ اگر میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں آپ سے دست بستہ معافی کا خواست گار ہوں ۔ امید ہے آپ عفو و درگزر سے کام لیں گے ۔
آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں، وہ انسان جو کسی کو اس کی خامی سے آگاہ کرے وہ اس کا محسن ہوتا ہے۔۔۔ اور اپنے محسن کی بات کا بُرا ماننے والا شخص یا تو بیوقوف ہو سکتا ہے یا پھر بد نصیب۔ آپ کا اشعار پر تبصرہ فرمانا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ التجا تو یہ ہے کہ یوں ہی اپنے علم کی زکواۃ نکالتے رہا کریں۔۔۔۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
التجا تو یہ ہے کہ یوں ہی اپنے علم کی زکواۃ نکالتے رہا کریں
اسی لئے تو نوید بھائی میں محفل پر سال میں ایک بار آتا ہوں ۔ :D

تفنن برطرف ، بھائی مجھے ہر وقت اپنی مصروفیت کا رونا رونا بھی اچھا نہیں لگتا لیکن کیا کروں حقیقت یہی ہے ۔ میرا بس چلے تو میں یہیں انجمن میں چارپائی دال کر بیٹھ جاؤں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے ۔ جب جب وقت ملتا ہے میں یہیں آتا ہوں ۔ اور کہیں نہیں جاتا ۔ امید ہے میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے مجھے معاف فرمائین گے ۔
 
Top