ستم تھے زندگی کے ھر سفر میں برائے اصلاح

ﺳﺘﻢ ﺗﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮬﺮ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﺗﯿﺮ ﺟﮭﯿﻠﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﺮ ﻣﯿﮟ

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻧﮯ ﻇﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮭﺎ ﮐﯽ
ﻣﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺩﮬﺮ ﻣﯿﮟ

ﺗﮍﭘﺘﺎ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎ ﺳﺎ
ﯾﮭﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻪ ﺗﻬﺎ ﻛﻮﺉ ﺷﮭﺮ ﻣﯿﮟ

ﭼﻼ ﺗﮭﺎ ﺩﻭﺭ ﺑﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﺳﻔﺮ ﮐﻮ
ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﻮﺉ ﮈﮔﺮ ﻣﯿﮟ

ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﮎ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ
ﻋﺠﺐ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ

ﺍﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﭼﺎﺭ ﭘﻞ ﮐﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﺑﺎﻗﯽ
ﺳﻨﺎﺋﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻣﯿﮟ

ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮬﮯ ﺑﮭﺖ ﮔﮭﺮﺍ ﭘﺘﻪ ﺗﻬا
کچھ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﻮﺩﺍ ﺑﺤﺮ ﻣﯿﮟ
 
سب سے پہلے تو قوافی درست کیجیے۔ آپ نے دو اوزان کے قافیے استعمال کیے ہیں
پہلا گروہ۔ سفر، جگر، ڈگر، نظر، مختصر
دوسرا گروہ۔ دہر، شہر، بحر

لفظ ظُلم کی جگہ آپ نے ظُلُم استعمال کیا ہے۔

اسے ’’ زمانے نے ستم کی انتہا کی‘‘ کیا جاسکتا ہے۔
باقی باقی۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ﺳﺘﻢ ﺗﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮬﺮ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﺗﯿﺮ ﺟﮭﯿﻠﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﺮ ﻣﯿﮟ

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻧﮯ ﻇﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮭﺎ ﮐﯽ
ﻣﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ہے ﮐﯿﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺩﮬﺮ ﻣﯿﮟ

ﺗﮍﭘﺘﺎ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎ ﺳﺎ
ﯾﮭﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻪ ﺗﻬﺎ ﻛﻮﺉ ﺷﮭﺮ ﻣﯿﮟ

ﭼﻼ ﺗﮭﺎ ﺩﻭﺭ ﺑﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﺳﻔﺮ ﮐﻮ
ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﻮﺉ ﮈﮔﺮ ﻣﯿﮟ

ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﮎ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ
ﻋﺠﺐ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ

ﺍﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﭼﺎﺭ ﭘﻞ ﮐﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﺑﺎﻗﯽ
ﺳﻨﺎﺋﻮﮞحال ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻣﯿﮟ

ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮬﮯ ﺑﮭﺖ ﮔﮭﺮﺍ ﭘﺘﻪ ﺗﻬا
کچھ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﻮﺩﺍ ﺑﺤﺮ ﻣﯿﮟ
اؤل تو میں محترم @محمدخلیل الرحمٰن صاحب کی بات سے متفق ہوں۔
دوسرا جو کجیاں مجھے نظر آئیں وہ میں نے لال رنگ سے ہائیلائٹ کر دیں ہیں اور جہاں لفظ شامل یا تبدیل کیے ہیں وہ نیلے رنگ سے، باقی فورم پر مجھ سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد موجود ہیں وہ آپ کو بہتر طور پہ آگاہ کر سکتے ہیں :)
 
مدیر کی آخری تدوین:
کچھ زبان و بیان کی غلطیاں اور ملاحظہ کیجیے:

پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں جھیلنا فعل ہے۔ اس مناسبت سے فاعل کے بغیر خود جگر فاعل رہے گا۔ یعنی ہزاروں تیر جھیلے اس جگر نے (ردیف سے ہٹ کر) ورنہ اس جملے میں فاعل کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جیسے میں نے اس جگر میں ہزاروں تیر جھلے۔ یہ بھی اچھی ترتیب نہیں البتہ۔

تیسرے شعر میں روح مؤنث ہے!

چھٹے شعر میں: سانس چار پل کی کیسے ہو سکتی ہے؟ زندگی کو تولا جاتا ہے "پل" کے پیمانے پر۔

عروض کی غلطیاں:
وہ مصرعے جو بحر سے خارج ہیں:

زمانے نے ظلم کی انتہا کی

بنا ڈالا مجھے اپنا اک پل میں

سناؤں گا کیا اب مختصر میں

کچھ تو سوچ کر کودا بحر مین

قوافی کی غلطایاں:

جناب خلیل الرحمٰن صاحب نشاندہی فرما چکے!
 
سب سے پہلے تو قوافی درست کیجیے۔ آپ نے دو اوزان کے قافیے استعمال کیے ہیں
پہلا گروہ۔ سفر، جگر، ڈگر، نظر، مختصر
دوسرا گروہ۔ دہر، شہر، بحر

لفظ ظُلم کی جگہ آپ نے ظُلُم استعمال کیا ہے۔

اسے ’’ زمانے نے ستم کی انتہا کی‘‘ کیا جاسکتا ہے۔
باقی باقی۔
بہت شکریه میں ٹھیک کر کے پو سٹ کر تا ھوں دوباره
 
اؤل تو میں محترم @محمدخلیل الرحمٰن صاحب کی بات سے متفق ہوں۔
دوسرا جو کجیاں مجھے نظر آئیں وہ میں نے لال رنگ سے ہائیلائٹ کر دیں ہیں اور جہاں لفظ شامل یا تبدیل کیے ہیں وہ نیلے رنگ سے، باقی فورم پر مجھ سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد موجود ہیں وہ آپ کو بہتر طور پہ آگاہ کر سکتے ہیں :)
بہت شکر یه تفصیل سے نشادھی کر نے کا
 
کچھ زبان و بیان کی غلطیاں اور ملاحظہ کیجیے:

پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں جھیلنا فعل ہے۔ اس مناسبت سے فاعل کے بغیر خود جگر فاعل رہے گا۔ یعنی ہزاروں تیر جھیلے اس جگر نے (ردیف سے ہٹ کر) ورنہ اس جملے میں فاعل کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جیسے میں نے اس جگر میں ہزاروں تیر جھلے۔ یہ بھی اچھی ترتیب نہیں البتہ۔

تیسرے شعر میں روح مؤنث ہے!

چھٹے شعر میں: سانس چار پل کی کیسے ہو سکتی ہے؟ زندگی کو تولا جاتا ہے "پل" کے پیمانے پر۔

عروض کی غلطیاں:
وہ مصرعے جو بحر سے خارج ہیں:

زمانے نے ظلم کی انتہا کی

بنا ڈالا مجھے اپنا اک پل میں

سناؤں گا کیا اب مختصر میں

کچھ تو سوچ کر کودا بحر مین

قوافی کی غلطایاں:

جناب خلیل الرحمٰن صاحب نشاندہی فرما چکے!
bahot shukria ustad g
 
اساتذه كرام اب تهڑی نظر ثانی کریں
.
ﺳﺘﻢ ﺗﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ
ﮬﺮ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ

ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﺗﯿﺮ ﺟﮭﯿﻠﮯ ﺍﺱ
عمر ﻣﯿﮟ

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻧﮯ ستم ﮐﯽ
ﺍﻧﺘﮭﺎ ﮐﯽ

ﻣﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ھوا ﻣﺸﮑﻞ
ﺩﮬﺮ ﻣﯿﮟ

بچاتا خاک تیرے آشیاں کو

لگی تھی آگ جب اپنے جگر میں

ﭼﻼ ﺗﮭﺎ کسی لمبے
ﺳﻔﺮ ﮐﻮ

ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﻮﺉ ﮈﮔﺮ
ﻣﯿﮟ

ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ ﻣﺠﮭﮯ دیوانه اس نے

ﻋﺠﺐ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ

سمجھنے میں تجھے صدیاں لگیں گے

ﺳﻨﺎﺋﻮﮞﺣﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ
ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻣﯿﮟ

ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮬﮯ ﺑﮭﺖ ﮔﮭﺮﺍ
ﭘﺘﻪ ﺗﻬﺍ

بہت ھی ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﻮﺩﺍ
ﺑﺤﺮ ﻣﯿﮟ
 
کچھ چیزوں پر توجہ درکار ہے:

پہلے شعر میں: مصرعِ ثانی میں "عمر" کا تلفظ غلط ہے۔ درست تلفظ میں "م" ساکن ہے۔ لہٰذا قافیہ بھی زائل ہو گیا۔
دوسرے شعر میں: مصرعِ ثانی میں "دہر" کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔ اس میں بھی "دال" اور "رے" کے بیچ میں "ہ" ساکن ہے۔ لہٰذا یہاں بھی شعر قافیے سے عاری ہے۔
چہتے شعر میں: مصرعِ اولیٰ بے بحرہ ہوا جاتا ہے۔ ماہی صاحبہ نے بحر میں لانے کی اچھی کوشش کی ہے۔

ان نمایاں اغلاط کو درست کیجیے پھر زبان و بیان کو دیکھتے ہیں۔ اچھی کاوش ہے۔
 
نہیں پھر لگانے سے مکمل ہو رہی ہے بحر۔

یه كيسا رهے گا


ﺳﺘﻢ ﺗﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ
ﮬﺮ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ

ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﺗﯿﺮ ﺟﮭﯿﻠﮯ ﺍﺱ
گزر ﻣﯿﮟ

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻧﮯ ﺳﺘﻢ ﮐﯽ
ﺍﻧﺘﮭﺎ ﮐﯽ

ﻣﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ﮬﻮﺍ ﻣﺸﮑﻞ نگر ﻣﯿﮟ

آپ بھی کوئ تجویز دیں اگر یه صحيح نهيں ھیں تو
 
Top