ساون سونے نہیں دیتا

فیصل کمال

محفلین
یہ جو تمہیں چاروں طرف
نشیلی و مخمور آنکھیں
دیکھائی دیتی ھیں
کہ یہ خمارِ مے نھیں
رتے جگے ھیں
ساون کی راتوں کے
تم پوچھو گے کہ
رت جگے؟ اور وہ بھی
ساون کی راتوں کے
ان پریشان حالوں کو
ان بوسیدہ لباسوں کو
ان کج پوشاکوں کو
وہ بالکنیاں
کہاں میسر
کہ جن میں رات بھر
کھڑیے ھو کر
آسمان سے گرتے
بارش کے قطروں کو
جو برقی قمقموں کی
زرد روشنی میں
جگنوؤں کی طرح چمکتے ھوئے
مرمریں فرش پر گرتے ھیں
ان کم نگاھوں کو
وہ نظر کہاں میسر
جو اِن مھین اور
لطیف باتوں کو سمجھ سکے
میں نے کہا جاناں
تم بھی سچ کہتے ھو
مگر
یہ انِ فاقہ مستوں کہ
نشیلی آنکھیں بھی
جھوٹی نھیں
کیونکہ
کچے مکانوں میں
پارکوں میں میدانوں میں
اور سڑک کے
فٹ پاتھ پر ساون
سونے نھیں دیتا
 
Top