سانحہ پشاور کے شہید بچوں کے والدین سے ملاقات کا احوال

ربیع م

محفلین
سانحہ پشاور کے شہید بچوں کے والدین سے ملاقات کا احوال

احمد ضرار



میرے دشمن کم ظرف! تیرے تیروں سے مٹا نہیں
میں سر کٹا کے سرخرو ہوں ، مگر جھکا نہیں


16 دسمبر 2014 کی صبح ننھے پھول سکول جانے کی تیاریوں میں مگن تھے ۔ والدین بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے سہانے سپنے آنکھوں میں سجائے اس یخ بستہ سردی میں انھیں تیار کررہے تھے ۔ انھیں کیا خبر تھی کہ آج یہ سکول جانے والے مستقبل کے معمار پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے ۔ کاش وہ بچے صبح کے وقت ہی اپنی ماؤں سےیہ کہہ دیتے :


قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ تو بہا دے نہر میں

ماؤں نے صبح سویرے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دعاؤں اور بوسوں کی بوچھاڑ میں رخصت کیا ۔ دن کے تقریبا ساڑھے دس بجے امن کی اس درس گاہ میں ہر طرف گولیوں کی بوچھاڑ اور دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگیں اور پھر کچھ دیر میں چشم فلک نے وہ مناظر دیکھے کہ ہر "جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے " کہنے والے جگنو ظلم و ستم کی سیاہ رات میں گم ہو گئے۔

ہر سو قیامت صغریٰ کا منظر تھا ۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔

آرمی پبلک سکول میں کٹے جلے اعضاء کے ڈھیر میں مائیں اپنے جگر پارے کے اعضاء کو تلاش کرتی ہیں ۔

ہسپتال میں شہید بچوں کی لسٹ میں اپنے جگر گوشوں کا نام آجانے کے بعد باپوں کے دل بھی مغموم ہیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود والدین کے بلند ہمت و حوصلہ بھی بے مثال تھے ۔ یقینا شہداء کی قربانیوں کی قبولیت نے انھیں پرسکون کردیا تھا۔

ان بچوں کی زندگیاں بھی بے مثال تھیں اور دل میں اسلام اور وطن کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ لئے یہ سپوت اپنی جانوں کی قربانی دے کر شجاعت کی ایک نئی داستان رقم کر گئے۔

اس مضمون کیلئے ہم چند دن قبل پشاور کے علاقے تہکال میں میجر (ر) سہیل صاحب کے گھر موجود تھے۔ ان کے بھائی سے جب ہم نے ان کے شہید بھتیجے "اذان " کے بارے میں پوچھا تو بتانے لگے کہ اسے شروع ہی سے فوج میں جانے کا شوق تھا ۔ وہ اسلام اور پاکستان کیلئے کچھ کرنے کا عزم رکھتا تھا ۔ بتانے لگے کہ اس سانحے سے کچھ عرصہ قبل سکول میں 23 مارچ کے موقع پر ایک ٹیبلو ہوا جس میں اعلیٰ فوجی قیادت بھی موجود تھی۔ اس میں شہید " اذان " نے میجر کا رول ادا کیا تھا۔کسی جگہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا تو ان کی ٹیم نے وہاں آپریشن کیا جو انتہائی کامیاب رہا ۔ سارے دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور تمام لوگوں کو بحفاظت نکال لیا گیا، جبکہ اس آپریشن میں "اذان " کو بہت زخم آئے ۔ آخر میں انھوں نے کنٹرول روم رابطہ کیا اور وائرلیس پرآخری پیغام دیا کہ

"میں اپنا فرض نبھا چکا ہوں اور اب میں اپنی منزل شہادت کی طرف روانہ ہو رہا ہوں "

16 دسمبر سے 20 دسمبر تک خود راقم ہسپتالوں میں رہا ۔ اس دوران شہداء کے گھروں میں جانے کا موقع بھی ملا ۔ والدین سے ملاقاتیں کیں ، زخمی بچوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ۔ شجاعت وبہادری کے بے شمار واقعات اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ یہ ننھے پھول بھی حوصلے کے پہاڑ ثابت ہوئے ۔ 16 دسمبر کی شام کو اس وقت میں حیران رہ گیا جب ایک صحافی ایک زخمی طالبعلم (جو شدت درد سے نڈھال تھا) کا انٹرویو لینے لگا تو وہ طالبعلم اپنی صحت کا بتانے کی بجائے دہشت گردوں کیلئے پیغام دینے لگا ، اس کے یہ الفاظ آج بھی میرے ذہن میں اسی طرح نقش ہیں کہنے لگا:

"میں یہ سب نہیں دیکھ سکتا ، بڑا ہو کر میں انھیں تباہ وبرباد کر دوں گا نہیں میں … اگر ان کے اندر ذرا بھی دم ہے تو سینے پر آکر وار کریں۔"

میں اس والد کے ہمت وحوصلہ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا جس کا ایک بیٹا طاہر اس سانحے میں شہید ہو گیا اور وہ اپنے شہید بیٹے کے جنازے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے :

بیٹے سے بچھڑنے کا دکھ ضرور ہے ۔ میرا ایک بیٹا شہید ہو گیا ، اگر میرے 100 بیٹئے ہوتے تو بھی میں کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر بننے والے پاکستان پر ان کو قربان کر دیتا "۔

جب ہم کئی شہداء کے گھروں سے ہونے کے بعد مبین شاہ آفریدی کے گھر پہنچے تو ہماری ہمت جواب دے چکی تھی ۔ ہم بات کرنا چاہتے مگر آواز حلق میں ہی دب کر رہ جاتی ۔ کچھ توقف کے بعد ہم نے شہید کے والد سے ان کے اکلوتے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو بہت پرسکون لہجے میں جواب دینے لگے:

مبین مجھ سے جدا ہوگیا لیکن مجھے محسوس نہیں ہو رہا۔ مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے اور آئندہ بھی میں یہ کمی محسوس نہیں کروں گا ۔

اس کا کردار ایسا تھا کہ محلے کے لوگ مثالیں دیتے تھے۔ قرآن کا حافظ یہ شہید جس نے حفظ کرنے کے بعد قرآن کے آخری صفحہ پر یہ الفاظ لکھے تھے:

"میں مسمی مبین شاہ یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کروں گا اور اگر میں نے نماز ادا نہ کی تو میں سزا کا مستحق ہوں گا"

اسی طرح ہماری ملاقات شہداء و غازی فورم کے جنرل سیکرٹری ایڈوکیٹ اجون خان سے ہوئی ۔ جب ہم نے ان سے ان کے شہید بیٹے اسفند خان کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ وہ بہت سادہ اور شریف تھا ۔ گاؤں والے اس سے بے حد پیار کرتے تھے ، ان کی محبت کی یہ کیفیت تھی کہ عید کے دن جب میں اسفند کی قبر پر دعا کیلئے پہنچا تو مجھ سے پہلے گاؤں کے لوگ وہاں جمع تھے۔

وہ ہمیں بتانے لگے:

یہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے یہ مسلمانوں کا کام نہیں بلکہ کافروں کی سازش ہے ۔ ہمارے گھر میں تو سال گزرنے کے باوجود غم کی وہی کیفیت ہے"

پھر ایک گہرا سانس لینے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے :

بیٹا جب بھی تم جیسے نوجوانوں کو ملتا ہو ں تو بہت حوصلہ پیدا ہوتا ہے ، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کے پاس ابھی وقت ہے ۔ آپ اس معاشرے کے مستقبل ہو ۔ آپ محنت کرو اور تبدیلی لے کر آؤ اور تبدیلی وہ نہیں جس کی ہمارے سیاستدان بات کرتے ہیں بلکہ وہ تبدیلی جو اسلام سے آتی ہے اور ایک امن والا معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔

باقی شہداء کے والدین کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں ۔ ان والدین کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی قربانی پر صبر وثبات کا مظاہرہ کر کے روشنی کا ایک نیا باب رقم کر دیا ۔ جب بھی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس کی حرارت سدے قومی ضمیر پر جمی برف پگھلتی ہے۔

پشاور کے بچوں کے خون نے قومی ضمیر کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ۔ 141 جانوں کا ضیاع کسی بڑے نقصان سے کم نہیں لیکن یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اتفاق واتحآد کے جو دئیے بجھ گئے تھے ، وہ ان شہداء کے خون سے پھر روشن ہو گئے ۔ مانا کہ دکھ بہت زیادہ ہے لیکن آج صرف اظہار افسوس سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ، کیونکہ اس طرح کے افسوس کا اظہار تو بھارت نے بھی اپنے سکولوں میں دو منٹ کی خاموشی کر کے کیا تھا۔ ہم نے صرف کف افسوس ملنے کی بجائے کچھ کرنے کا عزم کرنا ہے ۔ ہم کسی بھی طرح ان والدین کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے جس کا بیٹا اس سے دور ہو گیا ۔ ہم کسی بھی طرح ان ماؤں کے سینوں کو وہ ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتے جو انہیں شہید ہو نے والے اپنے بچوں کو کھیلتا کودتا دیکھ کر پہنچتی تھی ۔ آج ہم وطن عزیز کے نوجوان اور باشعور طالب علم کی حیثیت سے ان کے بوجھل دلوں کو کچھ تسکین پہنچا سکتے ہیں ۔ وہ ہم جیسے جوانوں میں اپنے بیٹوں کو تلاش کرتے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ یہ نونہال ملک و ملت کے پاسبان بنیں ۔

محترم قارئین کرام ! آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اپنے اسلام اور وطن کے دفاع کیلئے متحد ہو کر کھڑے ہو جائیں ۔ ایک نئے عزم کے ساتھ …ایک نئی امید کے ساتھ ، دشمن ضرور پھر سے وار کرنے کی کوشش کرے گا ہمارے عزم کو کمزور کرنا چاہے گا مگر ہم اسلام کے دفاع ، پاکستان کی بقاء اور اپنی سلامتی کیلئے اتحاد و یکجہتی سے دشمن کی کسی بھی سازش اور ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ ان شاء اللہ

اسی سلسلے میں بانئ پاکستان کا ارشاد بھی ہے:

" اس اہم اور نازک وقت میں جبکہ ہم خطرات سے دوچار ہیں ، ہم آپس میں اتحاد ویکجہتی پیدا کر کے بڑی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں"۔
 
Top