سانحہ بادامی باغ: ایک لمحہ فکریہ

حسان خان

لائبریرین
سانحہ بادامی باغ کے دوسرے دن ایکسپریس نیوزچینل پر ایک مسیحی نوجوان کو دکھایا گیا جو لاہور جوزف کالونی میں وقوع پذیر ہونے والے ظالمانہ اور افسوسناک سانحے پر انتہائی جذباتی انداز میں نوحہ کناں تھا۔ اُس نوجوان نے دہشت گردوں کے ہاتھوں جوزف کالونی میں 178 مکانات اور چرچ کو جلاکر خاکستر کرنے کے انتہائی شرمناک واقعے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور پوری پاکستانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم اقلیتوں کو پاکستان میں تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو ہمیں پاکستان سے نکال دیجیے تاکہ آپ کو بھی سکون مل جائے اور ہمیں بھی سکون ہوجائے لیکن خدارا روز روز ہم پر اس طرح کے مظالم نہ ڈھائیں۔
اُس نوجوان کی شکایتیں اور لب و لہجہ بہت ہی تکلیف دہ تھا تو ساتھ ہی اس میں سوچنے اور غورو فکر کرنے کے بڑے مواقعے بھی موجود تھے جو پاکستان کی اکثریت کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے۔ میں اتنا شرمندہ تھا کہ اس نوجوان سے یہ نہ کہہ سکا کہ اس ظلم و بربریت کا تنہا وہ یا اس کی کمیونٹی ہی شکار نہیں ہے بلکہ بعض گروہوں میں انتہاؤں کو چھوتا ہوا عدم برداشت کا منفی رویہ خود یہاں کی مسلم اکثریت کے لیے بھی عذابِ جان بنا ہوا ہے۔
ہمارے ملک میں جہاں مسیحیوں کے لیے عزت کے ساتھ زندہ رہنا مشکل بنادیا گیا ہے وہیں خود مسلمان پوری طرح آزاد اور محفوظ نہیں ہیں،یہاں مساجد بھی محفوظ نہیں رہیں ۔ 12 ربیع الاول اور 10 محرم الحرام کے جلوس دہشت گرد کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ بزرگان دین کے مزارات کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے اور دہشت گرد مخالف مسلک کے افراد کا قتل عام کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں سانحہ علمدار روڈ اور بعد ازاں کوئٹہ ہی میں سانحہ ہزارہ ٹاؤن اور ابھی چند روز قبل کراچی میں سانحہ عباس ٹاؤن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اس سانحے کو محدود سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ہمیں اس سوال کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر وہ کونسی طاقتیں ہیں کہ جو پاکستان کے مظلوم عوام کو متحد نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ کبھی ہمیں مسلکوں میں تقسیم کرکے فسادات کروائے جاتے ہیں ،کبھی لسانی فسادات کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ہمارے معاشرے میں سال کے 365 دن خوب کشت و خون رہتا ہے، لوگ مرتے رہتے ہیں اور ہم نفرت کی آگ میں جھلستے رہتے ہیں۔
شاید اس صورتحال کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ پاکستان میں جمہوری قدروں کو فروغ نہیں دیا گیا اور بار بار کے مارشل لاؤں نے ریاستی سطح پر سخت گیر رویوں کو فروغ دیا۔ اصول، حقوق، قواعد و ضوابط، آئین اور قانون کی معاشرے میں کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ حکمرانوں نے صرف طاقت کی زبان میں گفتگو کی۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے اثرات پورے معاشرے پر اس طرح مرتب ہوئے کہ یہاں تحمل، رواداری، اصولوں کی پاسداری، دوسروں کے حقوق اورقانون کا احترام قائم نہ ہوسکا۔
معاشرے میں ایسے انتہا پسند گروہ پیدا ہوگئے جن کا یہ یقین کامل ہے کہ ان کے علاوہ تمام افراد گمراہی میں مبتلا ہیں لہٰذا اب یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ سچائی پر قائم اپنے نظریات کو پورے معاشرے پر طاقت کے ذریعہ مسلط کردیں۔اگر ہم نے قائداعظمؒ کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کا آئین ابتداء ہی میں ترتیب دے کر ریاست میں جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کردیا ہوتا تو آج ہمارے ملک میں انتہا پسندی کی یہ صورت حال قطعی نہ ہوتی۔
قیام پاکستان کے موقعے پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے معزز اراکین سے 11 اگست 1947 کو اپنے تاریخی خطاب میں نئی ریاست کے دستور کے خدوخال پیش کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے بہت واضح طور پر کہا تھا کہ ’’سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کرنا کیا ہوگا؟ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشیوں سے بھرپور اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہماری توجہ عوام الناس اور غریبوں کی بہبود پر ہونی چاہیے۔ اگر آپ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے باہمی تعاون سے کام کریں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔‘‘
میں اس نکتے پر جتنا زور دوں کم ہے۔ ہمیں اسی جذبے کے تحت کام کرنا چاہیے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریتی اور اقلیتی فرقوں، یعنی ہندو مسلم کی تفریق اور مسلمانوں کے اندر پٹھان، پنجابی، شیعہ، سنی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن، ویش، کھتری اور بنگالی، مدراسی وغیرہ کے باہمی اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو ہندوستان کی آزادی میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر یہ نہ ہوتی تو ہم کبھی کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ کوئی طاقت کسی دوسرے ملک کو اور خاص طو رپر چالیس کروڑ انسانوں کو اپنا غلام بناکر نہیں رکھ سکتی۔
یہ تفریق نہ ہوتی تو کوئی آپ پر غالب نہیں آسکتا تھا اور اگر یہ سانحہ رونما ہو بھی جاتا تب بھی آپ کو دیر تک غلام بنائے رکھنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا ہم کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آپ اس ریاست پاکستان میں آزاد ہیں۔ چاہیں تو اپنے مندر میں جائیں ، مسجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ جہاں آپ کی مرضی ہوجاسکتے ہیں۔ آپ کا واسطہ کسی مذہب، کسی بھی ذات اور کسی بھی عقیدے سے ہو امور مملکت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جن حالات میں اس وقت ہندوستان گزر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ برے حالات کچھ عرصہ پہلے انگلستان میں تھے۔
رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کو ایذائیں دے رہے تھے اور اب بھی ایسے ملک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص طبقے کے خلاف امتیاز برتا جاتا اور ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم اس دور میں نہیں بلکہ ایسے عہد میں اپنے سفر کا آغاز کررہے ہیں جہاں مختلف فرقوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا اور کسی ذات یا عقیدے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ ہم اس بنیادی اصول سے اپنی ابتداء کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی ملک کے باشندے اور آپس میں برابر کے شہری ہیں۔
انگلستان کے لوگوں کو وقت گزرنے کے ساتھ حالات کے حقائق کا احساس ہوا اور ان کی حکومت نے جو ذمے داریاں انھیں سونپی تھیں اور جو بوجھ ان پر ڈالا تھا انھیں پورا کرنے میں وہ سرخرو ہوئے۔ آج آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں نہ کوئی رومن کیتھولک ہے اور نہ کوئی پروٹسٹنٹ۔ اگر کوئی ہے تو بس یہ کہ ہر شخص برطانیہ کا باشندہ ہے اور برابر کا شہری ہے وہ سب ایک ہی قوم کے فرد ہیں۔
میرے خیال میں ہمیں اسی بات کو نصب العین کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ تو ہندو، ہندو رہیں گے اور نہ مسلمان ، مسلمان (مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ ہر شخص کا عقیدہ اس کا ذاتی معاملہ ہے) بلکہ سیاسی طو رپر ایک ہی ملک کے ہم رتبہ باشندے ہونے کی حیثیت سے ہے‘‘۔اگر ہم نے قائداعظمؒ کے مذکورہ تصورات کے مطابق پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہوتی تو آج ہم اس عذاب میں ہرگز مبتلا نہ ہوتے۔ ملک میں نہ غیر مسلم پاکستانی اور نہ مسلمان غیر محفوظ ہوتے، نہ ہمارے ہاں لسانی بنیاد پر پٹھان، مہاجر، سندھی، پنجابی یا بلوچی فسادات ہوتے اور نہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے۔ بہر حال یہ وقت کفِ افسوس ملنے کا نہیں بلکہ زیادہ عزم اور حوصلہ کے ساتھ پاکستان کو قائداعظمؒ کا پاکستان بنانے کی جدوجہد کرنے کا ہے۔
انتخابات کا انعقاد ہوا چاہتا ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ مذہبی، مسلکی، لسانی تقسیم سے بلند ہوکر ملک اور قوم کے لیے حقیقی جمہوریت کا عزم رکھنے والی سیاسی قیادتوں کو منتخب کریں تاکہ پاکستان میں رواداری، تحمل ،درگزر، برداشت اور ہم آہنگی پرمبنی ایک پرامن جمہوری معاشرہ قائم ہوسکے۔

ربط
 
Top