سال نو کا خوش دلی سے استقبال کرنے کے ساتھ ہمیں اس کا احتساب بھی کرنا چاہئے

سال نو کا خوش دلی سے استقبال کرنے کے ساتھ ہمیں اس کا احتساب بھی کرنا چاہئے کہ کس طرح ہم اپنے وقت کو کارآمد بنا سکیں
تحریر ندیم احمد کی ہے

سال نو 2015 کی آمد آمد ہے۔ایک ہفتہ بعداگلے بدھ کی شام کو 2014 کا سورج غروب ہوگا تو دوسری طرف جمعرات کی صبح افق پر 2015 کا سورج طلوع ہوگا۔تخلیق کائنات سے لے کر آج تک سال کے بارہ مہینے ہوتے چلے آئے ہیں۔یہ سال نہ تو گیارہ یا دس ماہ کا ہوسکتا ہے اور نہ ہی تیرہ یا چودہ ماہ کا۔دن اور ماہ وسال کی آمد ورفت کا یہ سلسلہ ازل سے لے کر ابد تک جاری رہے گا۔واضح رہے کہ رومی سلطنت میں153 قبل مسیح سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ یکم جنوری کو قونصل (شہروں کی دیکھ ریکھ کے لئے تعینات کئے جانے والے سرکاری افسران) مقرر کئے جاتے تھے اور اس تقرری کوسرکاری انتظام وانصرام کا اہم ترین حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کی رومی سلطنت میں سال کی نشاندہی بھی ان میں مقرر کئے گئے قونصلوں کے حوالہ سے کی جاتی تھی۔ تقرریوں کے لئے اسی دن کا انتخاب کیوں کیا جاتا تھا، اس تعلق سے مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ جنوری کا تعلق رومی لفظ ’ جینس‘ سے ہے جواہل روم کے نزدیک تبدیلی اور آغاز کا دیوتا کہلاتا تھا اور اسی بنیاد پر جنوری کے مہینہ کی پہلی تاریخ کو سال کی شروعات کے لئے منتخب کیا گیا۔
حالانکہ اس کے بعد بھی کلینڈر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ، لیکن پھر بھی آج تک نئے سال کی شروعات یکم جنوری سے ہی کی جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی زندگی قمری تاریخوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ شمسی وانگریزی تاریخ کے اعتبار سے گزارتے ہیں۔سن عیسوی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ ماہ وسال کا یہ حساب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش سے منسوب ہے۔شمسی کلینڈر ایک ایسا کلینڈر ہے جس پر دنیا بھر کی ایک بڑی آبادی عمل کرتی ہے اور اسی کے مطابق سرکاری وغیرسرکاری دفاتر میں کام ہوتا ہے۔
نئے سال کے موقع پر لٹیوا، فلپین اور سان مرینو جیسے ملکوں میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔جبکہ بنگلہ دیش، برونئی ، پیراگوئے اور جاپان جیسے ممالک میں اس دن بینکوں کی چھٹی رہتی ہے۔(نئے سال پر جاپان میں سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے)۔آسٹریلیا، کناڈا، برطانیہ اور امریکہ میں ملک گیر سطح پر نئے سال پر سرکاری چھٹی تو نہیں ہوتی البتہ اس روز کچھ کاروبار جلد بند ہوجاتے ہیں۔اسکول عموماً بند رہتے ہیں اور بہت سے لوگ نصف دن تک ہی کام کرتے ہیں۔گریگرین کلینڈر کے مطابق، 31 دسمبر کی تاریخ جاری سال کی آخری تاریخ ہوتی ہے اور یکم جنوری سال کاپہلا دن ہوتا ہے جو کہ نئے سال کے آغاز کی علامت ہے۔کہا جاتا ہے کہ پوپ گریگری نے 1582 میں گریگرین کلینڈر متعارف کرایا۔یوروپ کے کچھ حصوں میں تو فوراً اس کلینڈر کا استعمال کیا جانے لگا ، لیکن متعدد ملکوں میں کئی صدیوں تک اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔امریکہ اور برطانیہ نے 1752 میں گریگرین کلینڈر کا استعمال کرنا شروع کیا۔
اب جبکہ سال نو دستک دینے کی تیاری میں ہے،لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کا جشن منانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ سال نو کی آمد کا جشن 31 دسمبر کی رات کو اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔جب رات کے ٹھیک 12 بجے گھڑی کی سوئیاں تاریخ میں تبدیلی کا اعلان کرتی ہیں توہندوستان کی راجدھانی دہلی سمیت دنیا بھر کے بڑے بڑے شہروں کے ہوٹلوں، کلبوں، میخانوں ، شاپنگ مالوں اور تفریح گاہوں وغیرہ میں جشن منانے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔
اس رات کچھ دیر کے لئے اپنے سارے رنج وغم بھلا کر نئے سال کا پرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ دعوتوں وضیافتوں کا دور دورہ ہوتا ہے۔ محفلیں اور مجلسیں منعقد ہوتی ہیں جس میں رقص وسرورکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رنگ برنگی تقریبات منعقد ہوتی ہیں ۔رات بھرشب بیداری ہوتی ہے، موج ومستی جاری رہتی ہے۔شراب وشباب کا بھر پور لطف لیا جاتا ہے۔ نئے سال کا یہ جشن انتہائی فحاشی اور عریانیت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس موقع پرہندستانی سماج اور اس کی تہذیب وثقافت کو گردآلود کیا جاتا ہے۔تفریح اور موج مستی کے نام پر اخلاقی قدروں کو پامال کیا جاتا ہے۔پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں ، آتش بازیاں ہوتی ہیں۔آتش بازیوں سے پوری فضا منور ہوجاتی ہے۔ ٹیلی فون کر کے یا پھر ایس ایم ایس کے ذریعہ مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔
الغرض اس جشن میں لاکھوں ، کروڑوں روپئے برباد کر دئیے جاتے ہیں۔ایک طرف تو جشن اور موج مستی کے نام پر پانی کی طرح لاکھوں ، کروڑوں روپئے بہا دئیے جاتے ہیں تو دوسری طرف انہی ممالک اور انہی معاشروں میں سینکڑوں اور ہزاروں افراد ایسے ہیں جوانتہائی فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ کھانے کے لئے ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتااگر ان پیسوں کو فضولیات میں خرچ نہ کر کے معاشرہ میں پریشان حال غریبوں اورضرورت مندوں کی مدد کردی جائے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نئے سال کا جشن منانے اور اس موقع پر بے دریغ پیسے خرچ کردینے کے معاملہ میں مسلمان بھی دیگر اقوام سے پیچھے نہیں ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کے لئے نئے سال کا جشن منانے کا سوال ہے ، اسلام ایک سادہ مذہب ہے۔ وہ سادگی کو پسند کرتا ہے۔اسلام میں خرافات اور لغویات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلام میں بہترین عمل اسے قرار دیا گیا ہے جسے اللہ کی رضاجوئی کے لئے کیا جائے ۔ جو اللہ کی عبادت، اطاعت گزاری اور خدمت خلق پر مبنی ہو۔واضح رہے کہ یہ ماہ وسال تو محض دنوں کو سمجھنے اور ان کا شمار کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اس دن کی ایسی کیا خصوصیت ہے کہ ہم اسے جشن میں تبدیل کردیں اورپھر اس پر بیجا اسراف کرنے لگیں ۔
ہم اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے زیادہ اس طرح کے ماہ وسال آتے اور جاتے دیکھتے رہتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس میں ہم نے اپنی کون سی متاع عزیز گنوادی ہے اور آنے والے سال کو ہم کس طرح پنے لئے کارآمد اور قیمتی بنا سکتے ہیں، اس پر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ خیال رہے کہ انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں یہ ماہ وسال بیش قیمت ہیں، بالخصوص قوموں کی زندگی میں یہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔بسا اوقات ایک لمحہ کی غلطی اور بھول صدیوں کے کئے ہوئے کارناموں پر پانی پھیر دیتی ہے اور ایک لمحہ کا صحیح استعمال صدیوں کو بیش قیمت بنا دیتا ہے۔بہترین لوگ وہ ہیں جو ماہ وسال کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھنا یہی ہے کہ ہم آنے والے نئے سال کے ایک ایک لمحہ کا احتساب کریں۔
ہم محاسبہ نفس کرتے ہوئے اس پر غور وفکر کریں کہ اللہ نے ہمیں یہ جو ماہ وسال عطا کئے ہیں ، اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ گزشتہ سال اور اس سے پہلے کے برسوں میں ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم نے زندگی کی یہ بیش قیمت مدت فضولیات اور خرافات میں تو گزار نہیں دی۔ ہم اپنے گزرے ہوئے کل کے آئینہ میں اپنے عمل کا محاسبہ کریں ، اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیں ۔ ہر گزرا ہوا پل کسی بھی انسان کے لئے ایک سبق کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے باوجود اگر ہم اپنے اس گزرے ہوئے پل سے سبق حاصل نہ کریں تو یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔آئیے ہم نئے سال کا خیر مقدم اس عہد کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہم اس کے ایک ایک لمحہ کا صحیح استعمال ضرور کریں گے۔
بہ شکریہ روزنامہ انقلاب
مضمون نگار روزنامہ انقلاب دہلی کے نیوز اڈیٹر ہیں
- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/کا_لم/2014/12/3321_#sthash.MN7FNKMn.dpuf
 
Top