ساقی نامہ

علی بابا

محفلین
ہؤا خیمہ زن کاروانِ بہار ---- ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن ---- شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردہء رنگ میں ---- لہوکی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ، ہوا میں‌سرور ---- ٹھہرتے نہیں‌آشیاں‌میں‌طیور
وہ جوئے کہستاں‌اچکتی ہوئی ---- اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی ---- بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ ---- پہاڑوں‌کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام ---- سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز ---- کہ آتی نہیں‌فصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات ---- وہ مے جس سے ہے مستئ کائنات
وہ مے جس میں‌ہے سوز و سازِ ازل ---- وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازلٔٔ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممومے کو شہباز سے

زمانے کے انداز بدلے گئے ---- نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہؤا اس طرح‌فاش رازِ فرنگ ---- کہ حیرت میں‌ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے ---- زمیں‌میر و سلطاں‌سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا ---- تماشا دکھا کار مداری گیا
گراں‌خواب چینی سنبھلنے لگے ---- ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فارا‌ں دو نیم ---- تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں‌ہے توحید میں‌گرم جوش ---- مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام ---- بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں‌کھو گئی ---- یہ امت خرافات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ‌ خطیب ---- مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیا‌اس کا منطق سے سلجھا ہؤا ---- لغت کے بکھیڑوں میں‌الجھا ہؤا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں‌مرد ---- محبت میں‌یکتا حمیت میں‌فرد
عجم کے خیالات میں‌کھو گیا ---- یہ سالک مقامات میں‌کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں‌نہیں‌راکھ کا ڈھیر ہے

شرابِ کہن پھر پلا ساقیا ---- وہی جام گردش میں‌لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا ---- مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر ---- جوانوں‌کو پیروں‌کا استاد کر
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے ---- نفس اس بدن میں‌ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ---- دلِ مرتضٰی سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر ---- تمنا کو سینوں‌میں‌بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں‌کی خیر ---- زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں‌کو سوز جگر بخش دے ---- مرا عشق میری نظر بخش دے
مری ناؤ گرداب سے پار کر ---- یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات ---- کہ تیری نگاہوںمیں‌ہے کائنات
مرے دیدہء تر کی بے خوابیاں ---- مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہء نیم شب کا نیاز ---- مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری ---- امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت آیئنہء روزگار ---- غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہِ حیات ---- گمانوں کے لشکر یقیں‌کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر ---- اسی سے فقیری میں‌ہوں‌میںامیر
مرے قافلے میں‌لٹادے اسے
لٹادے ٹھکانے لگادے اسے

دمادم رواں‌ہے یمِ زندگی ---- ہر اک شے سے پیدا رمِ‌ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود ---- کہ شعلے میں‌پوشیدہ ہے موجِ دود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گِل ---- خوش آئی اسے محنتِ آب و گِل
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی ---- عناصر کے پھندو‌ں‌سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں‌ہر دم اسیر ---- مگر ہی کہیں‌بے چگوں، بے نظیر
یہ عالم، یہ بت خانہء شش جہات ---- اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں ---- کہ تو میں‌نہیں، اور میں‌تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں ---- مگر عین محفل میں‌خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں‌تارے میں‌ہے ---- یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں‌ہے
اسی کے بیاباں، اسی کے ببُول ---- اسی کے ہیں‌کانٹے، اسی کے ہیں‌پھول
کہیں‌اس کی طاقت سے کہسار چُور ---- کہیں‌اس کے پھندے میں‌جبریل و حور
کہیں‌ جرّہ شاہیں سیماب رنگ ---- لہو سے چکوروں‌کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں‌آشیانے سے دور
پھڑکتا ہؤا جال میں‌ناصبور
 
Top