سلام بحضور حضرت امام حسینؓ

جب قافلہ حٌسینؑ کا اُترا لبِ فُرات
فرطِ خوشی میں خود سے یہ بولا لبِ فُرات

یہ وارثانِ کوثر و تسنیم آئے ہیں
تُجھ کو ملا ہے خُلد کا رُتبہ لبِ فُرات

تیرا مقام اب لبِ کوثر کے پاس ہے
تیرا نصیب آج سے چمکا لبِ فُرات

دیکھا امام کو تو فَرَس نے پیا نہ آب
حیوان تک میں تھا یہ سلیقہ لبِ فُرات

اور اشقیا کو خوب میسر ہے آبِ سرد
روتا ہے یاد کرکے یہ نقشہ لبِ فُرات

منہ کا لعاب جسکے تھا تریاقِ تشنگی
تھا وہ بھی تین روز کا پیاسا لبِ فُرات

تھا امتحانِ صَبْر و تَحَمُّل حٌسینؑ کا
پانی کا لفظ لب سے نہ نکلا لبِ فُرات

اُنکا دہن تو چشمۂ آبِ حیات تھا
پانی لبِ حٌسینؑ کو ترسا لبِ فُرات

لب ہائے اصغرؓ بے شیر دیکھ کر
کیا کیا نہ ٹوٹ جانے کو تڑپا لبِ فُرات
جو بحرِ معصیت میں چلا تھا دمشق سے
ڈوبا یزیدیت کا وہ بیڑہ لبِ فرات​
زہراؑ کا چین ہے یہ محمدؐ کی جان ہے
کہتا تھا ظالموں سے یہ گونگا لبِ فرات​

کیوں سر کٹائیں، ہاتھ دیں باطل کے ہاتھ میں
عقل و خرد کا تھا یہ تقاضہ لبِ فرات

سرگرمِ کار اُدھر تھا مگر عشقِ کارساز
اس معرکے کو دیکھ رہا تھا لبِ فرات

آخر شکست عقل و خرد کو ہوئی نصیب
اور عشقِ سرخرو ہوا تنہا لبِ فرات

جو کچھ ہوا وہ نقش بر آبِ رواں نہ تھا
سب کچھ ہوا نصیب کا لکھا لبِ فرات

بچوں کی پیاس توڑ نہ دے صبر کا بھرم
تھا بس یہی حٌسینؑ کو خدشہ لبِ فرات

ساجدؔ مگر وہ کوہِ سکون و ثبات و عزم
بے جنبشِ قدم جو کھڑا تھا لبِ فرات
(مرزا ساجد حسین ساجدؔ امروہوی)
گہر بخشش، صفحہ 222 تا 224​
 
Top