سلام بحضور حضرت امام حسینؓ

مسلکِ عشق کا سلسلہ رہ گیا
راہ رو چل دئیے راستہ رہ گیا

کربلا تجھ پہ روندا گیا جسمِ شہؓ
کیوں نہ پھٹ کر کلیجہ تیرا رہ گیا

تیر کے ساتھ ایماں گیا ہاتھ سے
حرملہ اب ترے پاس کیا رہ گیا

شہؓ کی خاطر فَرس نے نہ پانی پیا
آبِ دریا بھی منہ دیکھتا رہ گیا

صبحِ جنّت شہیدوں کو مل بھی گئی
شامیوں کا پَرا دیکھتا رہ گیا

اب عناں گیرِ ناموسِ محبوبِ ﷺ حق
ایک بیمار کا حوصلہ رہ گیا

نوکِ ہر خار شرمندہ ہے آج تک
پائے عابدؓ پہ خونِ جفا رہ گیا

جس پہ زہراؓ کے آنچل نے سایہ کیا
ظالموں! اب وہ سر بے رِدا رہ گیا

نورِ ایماں کا اب ہوگا ضامن یہی
یوں تو ساجدؔ فقط اک دِیا رہ گیا

(مرزا ساجد حسین ساجدؔ امروہوی)
گہر بخشش، صفحہ 218 - 219​
 
Top