سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا

جاسم محمد

محفلین
گرفتاریوں کا شوق
حامد میر

یہ ایک ایسی گرفتاری تھی جس پر اکثر لوگ حیران ہوئے، کچھ پریشان ہوئے اور پھر یہ پریشانی ہر طرف سے مذمت میں بدل گئی۔ نواز شریف حکومت کے سابق مشیر عرفان صدیقی کو جمعہ کی رات اسلام آباد میں اُنکے گھر سے گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا۔ جب میڈیا نے پولیس سے گرفتاری کی وجہ پوچھی تو کافی دیر تک پولیس کو بھی نہیں پتا تھا کہ اس نے 77سالہ عرفان صدیقی کو رات گئے کیوں گرفتار کیا ہے، جب اس گرفتاری کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تو بتایا گیا کہ عرفان صدیقی نے اپنے گھر کا ایک پورشن کسی کو کرائے پر دیا تھا اور کرائے دار کے کوائف سے علاقے کی پولیس کو آگاہ نہیں کیا لہٰذا انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے بہت سے حامیوں نے قانون کی بالادستی قائم کرنے پر اپنے محبوب وزیراعظم عمران خان کی شان میں قصیدے کہنے شروع کر دیئے اور عرفان صدیقی کی گرفتاری کو لفافہ صحافیوں کیخلاف کریک ڈائون کا آغاز قرار دیدیا حالانکہ تحریک انصاف کے حامی پچھلے کئی دن سے سوشل میڈیا پر جن تیس صحافیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے اُن میں عرفان صدیقی شامل نہیں تھے۔

ہفتہ کی صبح عرفان صدیقی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اُنکے وکلاء نے جج کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ جس مکان کا پورشن کرائے پر دیا گیا وہ مکان عرفان صدیقی کے نام پر نہیں بلکہ اُنکے بیٹے عمران صدیقی کے نام پر ہے، گھر کا پورشن جاوید اقبال ولد غلام علی کو 20جولائی 2019ءکو کرائے پر دیا گیا اور اس معاہدے کی اطلاع مقامی پولیس کو ایک ماہ کے اندر دی جا سکتی ہے لیکن دوسری طرف پولیس نے عرفان صدیقی کے 14روزہ ریمانڈ پر اصرار کیا۔ جج نے عرفان صدیقی کے وکلاء کی ایک نہ سنی اور ایک قابلِ ضمانت جرم میں عرفان صدیقی کو 14دن کیلئے جیل بھیج دیا۔ اہم بات یہ تھی کہ عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا گیا۔ میڈیا کو عدالت میں داخل ہونیکی اجازت نہ تھی۔ گرفتاری سے لیکر عدالتی کارروائی تک سب کچھ غیر معمولی انداز میں ہو رہا تھا لیکن جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ پولیس کی ایف آئی آر سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین تھری کی اسٹریٹ نمبر 54کا مکان نمبر 168عرفان صدیقی کی ملکیت نہیں ہے تو پھر حکومت کے وزراء بھی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ گرفتاری کس کے حکم سے ہوئی؟ عام خیال یہ تھا کہ عرفان صدیقی سابق وزیراعظم نواز شریف کے تقریر نویس رہے ہیں، اُنکے جیل جانے کے بعد وہ مریم نواز کی تقریریں لکھتے ہیں اور شاید اسی لئے اُنہیں گرفتار کیا گیا ہے لیکن جب اُنہیں ہتھکڑیوں میں عدالت لانے کی تصاویر میڈیا پر آئیں تو حکومت کیلئے اپنا دفاع مشکل ہو گیا اور حکومتی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اظہار افسوس کرنا پڑ گیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے تو کمال ہی کر دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ لگتا ہے یہ گرفتاری خود مسلم لیگ(ن) نے کرائی ہے۔ ظاہر ہے جس گرفتاری کا تحریک انصاف کو صرف اور صرف نقصان اور مسلم لیگ(ن) کو صرف اور صرف فائدہ ہوا اُس گرفتاری کے بارے میں وزیر داخلہ صاحب اور کیا کہیں گے؟ سچ تو یہ ہے اس حکومت کو دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔

بہت سے لوگ عرفان صدیقی کو بطور کالم نگار اور صحافی بھول چکے تھے۔ خود اُنہوں نے نواز شریف حکومت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کالم نگاری شروع نہیں کی کیونکہ وہ اُن لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے جو حکومتوں کا حصہ بن کر صحافت کو بھول جاتے ہیں اور حکومت سے نکل کر دوبارہ صحافی بن جاتے ہیں لیکن جب عرفان صدیقی کو ہتھکڑی میں عدالت میں لایا گیا تو اُنہوں نے ہتھکڑی کے ساتھ قلم بلند کر کے کیمروں کی طرف مسکرا کر دیکھنا شروع کر دیا۔ یہ خفیف مسکراہٹ اُن ارباب اختیار کیلئے ایک طنزیہ پیغام تھی جن کے حکم پر عرفان صدیقی کو گرفتار کیا گیا۔ عرفان صدیقی سرسید کالج راولپنڈی میں اردو کے اُستاد تھے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے مجیب الرحمان شامی صاحب کے قومی ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں لکھنا شروع کیا۔ پھر وہ ہفت روزہ تکبیر سے منسلک ہوئے۔ 1997میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے مجھے سیاچن کے دورے کی دعوت دی۔ اس دورے میں میرے ساتھ ایسوسی ایٹڈ پریس کی کیتھی گینن اور عرفان صدیقی بھی شریک سفر تھے۔ یہ میری عرفان صدیقی صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری بن گئے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں اُنہوں نے نوائے وقت سے کالم نگاری شروع کی اور پھر اُنکا نقش خیال ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں آیا تو اُنکی انشا پردازی اور خوبصورت طرز تحریر کے مداحوں میں عطاء الحق قاسمی سے لیکر حسن نثار تک ہر مکتبِ فکر کے لوگ شامل ہو گئے۔ عرفان صدیقی سے آپ کئی معاملات پر اختلاف کر سکتے ہیں۔ جب نواز شریف وزیراعظم تھےتو اُنکی حکومت پر ہم بھرپور تنقید کیا کرتے تھے لیکن عرفان صدیقی کیساتھ احترام کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا۔ انکے اور میرے درمیان احترام کی وجہ علامہ اقبالؒ کی ایک رباعی ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایوان صدر میں اُنکے دفتر کی دیوار پر ایک خوبصورت فریم میں علامہ اقبالؒ کی یہ رباعی لٹکی دیکھی۔

تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عُذر ہائے من پذیر
وَر حسابم را تو بینی ناگزیر
ازنگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر

(اے رب ذوالجلال! تیری ذات اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں فقیر خستہ جاں ہوں۔ حشر کے دن میری گزارشات کو پذیرائی بخشتے ہوئے میری معافی قبول فرما لینا اور اگر میرے نامہ اعمال کو دیکھنا لازم ٹھہر جائے تو مجھ پر اتنا کرم کرنا کہ محمد مصطفیٰﷺ کی نگاہ سے میرے نامہ اعمال کو چھپائے رکھنا)۔

میں نے عرفان صدیقی کو بتایا کہ یہ رباعی میرے والد مرحوم پروفیسر وارث میر کو بہت پسند تھی۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے یہ رباعی ایک فریم میں مجھے بھجوا دی جو میرے گھر کی ایک دیوار کی زینت بن گئی۔ عرفان صدیقی کی کتاب ’’جو بچھڑ گئے‘‘ میں اس شاندار رباعی کی پوری کہانی موجود ہے۔ یہ رباعی شاعر مشرق نے اپنی کتاب ’’ارمغان حجاز‘‘ کیلئے منتخب کر رکھی تھی۔ اُنہوں نے ڈیرہ غازی خان کے ایک اسکول ٹیچر محمد رمضان عطائی کو یہ رباعی سنائی تو اُنہوں نے فرمائش کی کہ یہ رباعی مجھے عطا کر دیں اور علامہ اقبالؒ نے یہ رباعی عطائی صاحب کو عطا کر دی۔ اس رباعی سے محبت وہی کر سکتا ہے جس کا دل عشقِ رسولﷺ سے منور ہو اور یہ عشقِ رسولﷺ عرفان صدیقی کا اصل سرمایہ ہے۔ غور کیجئے! دشمنوں نے اُنہیں نمونہ عبرت بنانے کیلئے گرفتار کیا لیکن گرفتار کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اس گرفتاری کی اتنی مذمت ہوئی کہ اتوار کے دن عدالت سجائی گئی اور عرفان صدیقی کی ضمانت منظور کر کے اتوار کے دن اُنہیں جیل سے رہا کیا گیا۔ حکومت گرفتاری سے بھی بدنام ہوئی اور رہائی سے مزید بدنام ہوئی۔ اب تمام سیاسی گرفتاریاں مشکوک ہو چکی ہیں۔ مزید اہلِ قلم و صحافت کو گرفتار کرنے کا بھی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ، اگر اسی طرح کے جھوٹے مقدمات میں انہیں گرفتار کیا گیا تو حکومت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عرفان صدیقی… کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے؟ اضافہ شدہ تحریر
29/07/2019 خورشید ندیم



عرفان صدیقی صاحب کی ضمانت ہوگئی۔ وہ تو جیل سے نکل آئے مگرحکومت، کیا اِس گرفتاری کے اثرات سے نکل پائے گی؟

صدیقی صاحب ایک عرصے سے خاموش ہیں۔ اِن دنوں کسی اخبار میں ان کا کالم نہیں چھپتا۔ سوشل میڈیا پر بھی وہ دکھائی نہیں دیتے۔ نواز شریف صاحب لندن سے لوٹے تو وہ ان کے ہم سفر تھے۔ اس تاریخی سفر کی روداد انہوں نے لکھی جو ایک اخبار میں شائع ہوئی۔ پھر سوشل میڈیا پر ایک آدھ تحریر اور اس کے بعد مکمل سکوت۔ بظاہر سیاست و صحافت سے لاتعلق ایک فرد پر حکومت کی یہ نوازشات کیوں؟

میرے نزدیک یہ “نئے پاکستان” کی منطقی ضرورت ہے۔ نئے پاکستان کے تصور میں نواز شریف صاحب کی حیثیت ایک ولن کی ہے۔ وہ پرانے پاکستان کی یاد گار ہیں۔ نیا پاکستان اس وقت تک تعمیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام نقشِ کہن مٹا نہ دیے جائیں جو پرانے پاکستان کی یاد دلاتے ہیں۔ نواز شریف صاحب اگر ولن ہیں تو ان سے وابستہ ہر فرد، حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبہ بھی نئے پاکستان میں قابلِ قبول نہیں۔

مسلسل پروپیگنڈے سے یہ باور کرایا گیا کہ یہ منصوبے دراصل فرد کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ اکثر ایسے تجزیے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جتنے پیسوں سے لاہور کی میٹرو بنی، اس سے تو پورے شہر کو پانی کا صاف پانی فراہم کیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ اس سے یہ نکالا جاتا ہے کہ اگر لاہور کے شہری صاف پانی سے محروم ہیں تو اس کی ذمہ دار میٹرو بس سروس ہے۔ اس طرح ایک شہری ایک منصوبے سے روزانہ فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن پروپیگنڈے کے زیرِ اثر یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ دراصل اس کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔

ہیجان اور رومان کی فضا میں منطق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو تی۔ اب کوئی یہ سننے کے لیے تیار نہیں کہ جب کسی شہر کی آبادی ایک کروڑ سے بڑھ جائے تو ایسے شہر کے لیے اس طرح کا ٹرانسپورٹیشن سسٹم پینے کے صاف پانی سے کسی طور کم اہم نہیں ہوتا۔ ولن کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اسے سراپا شر بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ یوں میٹرو جیسے منصوبے، ایک ولن سے منسوب ہونے کی بنا پر پرانے پاکستان کی علامتیں بن جاتے ہیں جنہیں مٹانا ضروری ہوتا ہے۔

عرفان صدیقی صاحب کا معاملہ بھی یہی ہوا۔ انہیں نئے پاکستان میں ایک نقشِ کہن کے طور پر دیکھا گیا۔ یوں اس کو ’مٹانا‘ ضروری ہو گیا۔ چونکہ فاشزم ابھی پوری طرح اپنے قدم نہیں جما سکا اور حکومت میں بھی ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا پس منظر سیاسی ہے، اس لیے اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ عرفان صدیقی صاحب کی شناخت صرف اتنی نہیں کہ وہ نواز شریف صاحب سے قربت رکھتے ہں۔ اصلاً وہ ایک صاحبِ قلم ہیں۔ ان کی بنیادی شناخت صحافت ہے۔ اگر انہیں ہدف بنانے کی کوشش کی جائے گی تو اسے آزادی رائے سے الگ کر نا مشکل ہو جائے گا۔ یہی ہوا اور حکومت کو اس معاملے میں ندامت اٹھانا پڑی۔

یہ گرفتاری اور رہائی حکومت کے لیے ایک اہم سوال چھوڑ گئی:حکومت کو فاشزم کے طرز پر چلانا بہتر ہے یا جمہوری طریقے سے؟ اس وقت اگر حکومت میں شامل لوگوں کا تجزیہ کیا جائے تو ایک طبقہ وہ ہے جس کا پس منظر سیاسی ہے۔ دوسرا غیر سیاسی ہے۔ کوئی کسی ریاستی ادارے کا ریٹائرڈ افسر ہے اور کسی کی واحد خوبی اس کا صاحب ثروت ہو نا ہے۔ اب حکومت کے اہم ترین مناصب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو غیر سیاسی پس منظر رکھتے ہیں یا دولت مند ہیں۔

یہ لوگ ریاست کے نظام کو سیاسی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سیاست اور تاریخ کے باب میں نیم خواندہ ہیں۔ سطحی سیاسی تجزیے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ جبر اور خوف سے نظام بدل جا تے ہیں۔ انقلاب کا نام انہوں نے سن رکھا ہے لیکن یہ نہیں جا نتے کہ انقلاب کیسے برپا ہو تے ہیں اور معاشروں پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ہیجان اور رومان کی فضا سے انقلاب برامد کر نا چاہتے ہیں۔ یوں وہ جمہوری عمل کو فاشزم کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔

فاشزم چونکہ انقلابی سوچ سے اپنی طاقت کشید کرتا ہے، اس لیے انقلاب کی طرح رومان اور ہیجان اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہوتے ہیں۔ فاشزم میں بظاہر جمہوری لبادہ اوڑھ لیا جا تاہے جیسے انتخابات وغیرہ لیکن اقتدار ملنے پر اس لبادے کو اتار پھینکا جاتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ فاشزم میں عوامی غصے کو کسی گوبئلز کی مدد سے وہ استدلال فراہم کیا جا تا ہے جو ہیرو اور ولن کے مطلوب تصور کو پختہ کرتا ہے۔ اس میں پروپیگنڈہ اتنا موثر ہوتا ہے کہ لوگ الزام کو جرم سمجھتے ہیں۔

آج تحریک انصاف کے نوجوان کو ذرہ برابر شبہ نہیں کہ شریف خاندان کرپٹ ہے۔ اس یقین کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس کوئی ناقابل ِتردید دلیل ہے۔ یقین کا سبب وہ پروپیگنڈہ ہے جس میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ کسی دوسرے زاویہ نظر کو قابلِ غور بھی سمجھا جائے۔ اس کو جج ارشد ملک صاحب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ساری بحث اس پر ہوگی کہ ان کی وڈیو کیوں بنائی گئی۔ کوئی اس سوال پر غور کر نے پر آمادہ نہیں کہ اس کے بعد ان فیصلوں کی کیا حیثیت ہے جو جج صاحب نے صادر کیے؟

اب اگر کوئی اس طرح کے سوالات اٹھائے تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس کے استدلال کو مخاطب بنانے کے بجائے، اس کی اخلاقی حیثیت ہی کو مشتبہ بنادیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی آپ کے بیانیے کو چیلنج کر نے قابل نہیں رہے گا۔ فاشزم کے مطلب ہی یہ ہے کہ معاشرے میں صرف ایک بیانیہ چل سکتا ہے، دوسرا نہیں۔ اسی لیے فاشزم میں یک جماعتی نظام فروغ پاتا ہے۔

جمہوریت اس کے برعکس تنوع کے فروغ کا نام ہے۔ یہ اختلافِ رائے کے احترام کا نام ہے۔ اس میں دوسرے نقطہ ہائے نظر کو قبول کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ موقع دیا جا تا ہے کہ وہ سب کی بات سنیں اور اور پھر اپنی آزادانہ مرضی سے فیصلہ کریں۔ اس میں زبان بندی نہیں ہوتی۔ اس میں ایسے قوانین نہیں بنتے جن کی مدد سے مخالف آوازوں کو دبایا جائے۔ اس میں حیلوں بہانوں سے جبر کا نظام مسلط نہیں کیا جا تا۔

عمران خان صاحب کا مزاج فسطائی ہے۔ وہ اسی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کا ہر عوامی خطاب اس کا مظہر ہے۔ بدقسمتی سے ان کی کابینہ میں بھی ایسے لوگوں کا غلبہ ہے جو یہی سوچ رکھتے ہیں۔ یوں جمہوری اقدار کے ساتھ مو جود حکومت کی وابستگی دن بدن مشکوک ہو تی جا رہی ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری کو بھی سماج نے اسے حوالے سے دیکھا ہے۔

عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری اور اس پر سیاسی و صحافتی حلقوں کے ردِ عمل سے کیا حکومت کچھ سیکھے گی؟ کیا اسے اندازہ ہوا ہے کہ جمہوریت میں عوامی مقبولیت رکھنے والے کسی راہنما کوحکومتی جبر سے ولن نہیں بنایا جا سکتا؟ کیا اسے اندازہ ہے کہ جمہوریت انقلاب کا نہیں ارتقا کا نام ہے۔ کیا اسے معلوم ہے کہ ارتقا روایت کو قبول کرتا ہے۔ یوں لازم نہیں کہ ماضی کا ہر نقش مٹانے کے لیے ہی ہو۔

ان سوالات کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ اگر فیصلہ سازی کا عمل ان ہاتھوں میں ہو گا جوجمہوری مزاج کے بجائے فسطائی سوچ رکھتے ہیں توپھر یہ سلسلہ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری پر ختم ہو نے والا نہیں ہے۔ صدیقی صاحب کا بیٹا تو صاحب ِمکان تھا۔ کل اگر نواز شریف صاحب کے کسی حامی کرایہ دار کے خلاف، مالک مکان کرائے کے عدم ادائیگی کی درخواست دے دے تو اسے گرفتاری سے کون بچا سکتا ہے؟ اگر ایسی بنیادوں پر مقدمات بننے لگے تو پھر کون ہے جو محفوظ رہ سکے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
آج تحریک انصاف کے نوجوان کو ذرہ برابر شبہ نہیں کہ شریف خاندان کرپٹ ہے۔ اس یقین کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس کوئی ناقابل ِتردید دلیل ہے۔ یقین کا سبب وہ پروپیگنڈہ ہے جس میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ کسی دوسرے زاویہ نظر کو قابلِ غور بھی سمجھا جائے۔ اس کو جج ارشد ملک صاحب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ساری بحث اس پر ہوگی کہ ان کی وڈیو کیوں بنائی گئی۔ کوئی اس سوال پر غور کر نے پر آمادہ نہیں کہ اس کے بعد ان فیصلوں کی کیا حیثیت ہے جو جج صاحب نے صادر کیے؟
اس سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شریف فیملی نے اپنے دفاع میں آج تک کوئی گواہ اور منی ٹریل پیش نہیں کی۔ بلکہ سارا کیس سیاسی بنیادوں پر لڑا۔
 
Top