سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا

جاسم محمد

محفلین
سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا
27/07/2019 ہم سب نیوز



اسلام آباد سے خبر موصول ہوئی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مطیع اللہ جان نے ٹویٹ کی ہے کہ ”سینئر صحافی، کالم نگار اور مسلم لیگ نون کی حکومت کے سابق مشیر عرفان صدیقی کو بظاہر کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اٹھا لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انہیں گرفتار کرنے والوں نے اپنا تعارف پولیس سٹیشن رمنا، اسلام آباد کے اہلکاروں کے طور پر کروایا تھا“۔

سینئیر صحافی شاہین قریشی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ”سنئیر کالم نگار اور نواز شریف کے سپیچ رائیٹر عرفان صدیقی کو اٹھا لیا گیا: فاشزم اپنے عروج پر“۔

ڈاکٹر ہما صعیف نے لکھا ہے “بغیر کسی FIR کے اور کسی بھی قانونی کاروائ کے 78 سالہ کالمسٹ ،عرفان صدیقی صاحب کو abduct کر لیا گیا ہے ۔ #جنگل_کا_قانون”۔

صحافی فخر درانی کے مطابق “عرفان صدیقی کو کچھ سادہ کپڑوں اور پولیس کی وردی میں کو گوں نے گرفتار کر لیا۔ اور پولیس سٹیشن رمنا لے کر گئے ہیں۔ انکے قریبی لواحقین کے مطابق انہیں کوئی ایف آئی آر تک نہیں دکھائی گئی۔”

دنیا ٹی وی کے مطابق عرفان صدیقی پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے اور انہیں آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

سما ٹی وی کے مطابق پولیس کے دو موقف دیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ عرفان صدیقی کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا اور دوسرا یہ کہ انہیں کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ الزام لگایا گیا ہے کہ عرفان صدیقی نے گھر کرائے پر دیا لیکن تھانے میں تفصیلات جمع نہیں کروائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کرایہ داری ایکٹ خلاف ورزی؛ عرفان صدیقی کی بریت کی درخواست مسترد، جیل منتقل
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1758578-irfansiddiue-1564214128-773-640x480.jpg

عرفان صدیقی کے خلاف سیکشن 188 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے فوٹو: فائل

اسلام آباد: پولیس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے عرفان صدیقی کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب گرفتار کیا تھا۔ عرفان صدیقی کے ساتھ اقبال نامی شخص کو بھی حراست میں لیا گیا، دونوں کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا منتقل کردیا گیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی کے خلاف سیکشن 188 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، انہوں نے گھر کرائے پر دے رکھا تھا، انہوں نے کرایہ داری پر عمل درآمد نہ کیا اور نہ ہی پولیس اسٹیشن میں اس کا اندراج کروایا۔

بعد ازاں پولیس نے عرفان صدیقی کو جوڈیشل میجسٹریٹ مہرین بلوچ کے روبرو پیش کیا۔ پولیس نے عرفان صدیقی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی جب کہ عرفان صدیقی کے وکلا کا موقف تھا کہ ان کے موکل پر جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا ہے، اس لئے عرفان صدیقی کو رہا کیا جائے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عرفان صدیقی کی بریت کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت نے عرفان صدیقی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ماضی میں سلیکٹڈ وزیر اعظم بھی شریف خاندان سے اپنے کینسر ہسپتال کے لئے قریبی روابط قائم کر چکے ہیں۔ ایک کیس ان پر بھی ٹھوک دیں :)
عرفان صدیقی صاحب کو جس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، وہ سبھی کو معلوم ہے۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
عرفان صدیقی صاحب کو جس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، وہ سبھی کو معلوم ہے۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ :)

ویسے آپس کی بات ہے کہ کرایہ دار کی اطلاع تھانے تک پہنچانے کا قانون انٹیلی جنس کی ناکامی پر بنا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عرفان صدیقی صاحب کو جس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، وہ سبھی کو معلوم ہے۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ :)
ویسے آپس کی بات ہے کہ کرایہ دار کی اطلاع تھانے تک پہنچانے کا قانون انٹیلی جنس کی ناکامی پر بنا تھا۔
محکمہ زراعت کی ضرر رساں حشرات کے خلاف مہم : بلال غوری کا ناقابل اشاعت کالم
27/07/2019 محمد بلال غوری

انسان کی حرص و ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مرغیاں اور بکریاں پالنے والے ان کا وزن بڑھانے کے لیئے ہارمونز کی افزائش تیز کرنے والے ایسے انجکشن استعمال کرتے ہیں جن سے گوشت تو بڑھ جاتا ہے مگر ان ادویات کے مہلک اثرات گوشت کھانے والے انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ دودھ کے کاروبار سے منسلک ہیں وہ گائے اور بھینس سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کی لالچ میں ایسے انجکشن لگاتے ہیں جن کی تاثیر دودھ میں شامل ہونے کے بعد انسانوں تک آجاتی ہے۔ زراعت سے وابستہ افراد کیوں پیچھے رہتے، وہ بھی اپنے کھیتوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا چاہتے تھے اس لیئے محکمہ زراعت نے ان کی آسانی کے لیئے انواع واقسام کی کھادیں اور زہریلے اسپرے متعارف کروانا شروع کر دیئے۔

میرا تعلق چونکہ جنوبی پنجاب کے اس علاقے سے ہے جہاں کپاس اور گندم کی فصل بکثرت ہوتی ہے اس لیئے ان فصلوں سے متعلقہ کیڑوں سے تھوڑی بہت آشنائی رہی۔ کسانوں کا خیال ہے کہ جب سے ہماری حکومتوں نے زرعی زمینیں تجربات کے لیئے امریکی ماہرین کے حوالے کیں، تب سے مسائل بتدریج بڑھتے چلے گئے۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیئے غیر ملکی بیج درآمد کیا گیا جس سے فصل قدآور ہوئی اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا مگر یہ بڑھوتری نت نئے مسائل بھی ساتھ لے کر آئی۔ کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والے حشرات کی بھرمار ہوگئی۔ چتکبری سنڈی آئی، گلابی سنڈی، لشکری سنڈی اور پھر امریکن سنڈی نے تو فصلیں تہس نہس کر دیں۔ خدا جانے اس سنڈی کا اصل نام کیا ہے مگر ہمارے ہاں کسانوں میں یہی نام مقبول ہوا تو محکمہ زراعت نے بھی اسے امریکن سنڈی کہنا شروع کردیا۔ اسی طرح تھرپس، سفید مکھی، چست تیلا، سست تیلا اور جوئیں (mites)بھی تباہی مچاتی رہیں۔

ان سنڈیوں، کیڑوں اور مکھیوں کو تلف کرنے کے لیئے بیرون ملک سے زہریلی ادویات درآمد کرنا پڑرہی ہیں جس سے نہ صرف زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے بلکہ کسانوں کے اخراجات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ ان زہریلی ادویات کا استعمال ابتدائی طور پر صرف کپاس جیسی فصلوں پر ہوتا تھا مگر اب تو غذائی اجناس بھی ان کی زد میں آگئی ہیں۔ آلو، ٹماٹر، پیاز، بھنڈی، بینگن سمیت کوئی ایک سبزی بھی ایسی نہیں جو کھاد اسپرے کے بغیر اگائی جا رہی ہو۔ اسی طرح آڑو، خوبانی اور آم سمیت کوئی پھل ایسا نہیں جو ان زہریلی ادویات کے اثرات سے محفوظ ہو۔ اس خطرناک رجحان کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ انسان کو خالص اور قدرتی غذائیں دستیاب نہیں اور کھاد اسپرے کے مہلک کیمیائی اثرات انسانی جسم میں منتقل ہو کر بیماریوں کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہے ہیں لیکن ایک اور نقصان یہ ہے حیاتیاتی تنوع اور توازن خراب ہونے کے باعث صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو جب محکمہ زراعت حشرات کو اپنے تئیں ضرر رساں خیال کرتے ہوئے انہیں تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ ماحول دوست اور فصل پرور کیڑے مکوڑے بھی ختم ہو جاتے ہیں جو اچھی فصل کے لیئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں اور جب وہ ختم ہوجاتے ہیں تو پھر سنڈیاں موقع غنیمت جان کر فصل پر پل پڑتی ہیں۔

چند ماہ قابل عالمی ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایسے پودے، جانور، مکھیاں اورکیڑے مکوڑے جو انسانی خوراک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہ نہ صرف زوال اور انحطاط کا شکار ہیں بلکہ ان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق وہ حشرات الارض جنہیں ہم ناکارہ اور غیر ضروری خیال کرتے ہیں، وہ بھی قدرتی توازن برقرار رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب انسان زراعت کی طرف مائل ہوا، فصلیں کاشت کرنا شروع کیں تو تب کسی قسم کی کھادیں اور اسپرے دستیاب نہ تھے اور نہ ہی محکمہ زراعت کا کوئی وجود تھا۔ انسانی ضروریات کے مطابق فصلیں لہلاتی تھیں اور موجودہ دور میں سردرد بننے والی سنڈیوں کا تب وجود ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحول دوست اور فصل پرور کیڑے ان سنڈیوں اور مکھیوں کا کام تمام کر دیا کرتے تھے جو فصل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتے۔ جب کھاد اور اسپرے کا سلسلہ شروع ہوا تو محکمہ زراعت نے کسی قسم کی تخصیص کیئے بغیر آپریشن کیا جس سے ضرررساں کیڑے اور سنڈیاں تو مکمل طور پر ختم نہ ہوئے البتہ فصل پرور اور ماحول دوست حشرات اور نباتات ضرور تلف ہو گئے۔

حشرات الارض سے متعلق ہونے والی ایک تازہ ترین سائنسی تحقیق جو “بائیولوجیکل کنزرویشن”نامی عالمی ریسرچ جرنل میں شائع ہوئی ہے، اس کے مطابق انسان دوست مکھیوں، چیونٹیوں، بھنوروں اور کیڑے مکوڑے کی 40 فیصد انواع و اقسام نہایت تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں گھروں میں پائے جا رہے حشرات جیسا کہ لال بیگ، مکھیاں اور مچھر وغیرہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی فصلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان انسان دوست حشرات کے معدوم ہونے کی بنیادی وجہ فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیئے کھاد اور اسپرے کا بے دریغ استعمال ہے۔ بتایا گیا ہے کہ محکمہ زراعت کی جانب سے جن حشرات کو ختم کیا جاتا ہے وہ دراصل ممالیہ جانوروں کی خوراک کا ذریعہ ہوتے ہیں، یہ مٹی کو زرخیز بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، ضرر رساں کیڑوں کی تعداد کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور 75فیصد فصلوں کی تخم کاری کا سبب بنتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق محکمہ زراعت کی غلط پالیسیوں کے باعث ایک تہائی حشرات کی بقا خطرے میں ہے۔ اس تحقیق میں حصہ لینے والے سائنسدانوں نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ اگر صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو آخر میں صرف وہ کیڑے مکوڑے ہی باقی رہ جائیں گے جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور دنیا بھر میں غذائی اجناس کی کمی سے قحط کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کا طریقہ کیا ہے؟کس طرح حیاتیاتی تنوع اور قدرتی توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟عالمی ماہرین کے خیال میں محکمہ زراعت کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی، جن حشرات کو اپنے تئیں نقصان دہ خیال کیا جا تا ہے ممکن ہے وہ ماحول دوست ہوں۔ لہٰذا فصلوں کی کاشت کے لیئے کھاد اور اسپرے کا استعمال ختم کرنا ہوگا۔ شروع میں مشکل ضرور پیش آئے گی لیکن جب ماحول دوست اور فصل پرور کیڑے مکوڑے پرورش پانے لگیں گے، توازن بحال ہوگا تو نہ صرف کھاد اسپرے پر اُٹھ رہے اخراجات ختم ہو جائیں گے بلکہ سب کو خالص اور کیمیائی اثرات سے پاک غذائی اجناس بھی دستیاب ہوں گی۔ سنا ہے کہ محکمہ زراعت جولائی کے آخر اور اگست کے شروع میں ان حشرات الارض کو تلف کرنے کے لیئے ایک بڑی مہم شروع کرنے لگا ہے جنہیں اس محکمہ کے ماہرین ضرررساں خیال کرتے ہیں۔ میراخیال ہے محولا بالا رپورٹ کی روشنی میں اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عرفان صدیقی صاحب کو جس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، وہ سبھی کو معلوم ہے۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ :)
تو بھئی کس حکیم نے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کی سیکورٹی میٹنگ کا احوال ایک پبلک اخبار میں لیک کرکے اداروں سے ٹکر لو؟
پہلے آپ جان بوجھ کر طاقتور اداروں سے تصادم کی پالیسی اپناتے ہیں۔ اور جب وہ سزا دیتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھیں انتقامی کاروائی ہو رہی ہے :)
میاں صاحب کو جب سے اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لائی ہے یہ یہی کچھ ہی کر رہے ہیں۔ اقتدار سے باہر پاؤں پکڑنا۔ اور اقتدار میں آکر گلا پکڑنا۔ :)

نواز شریف اور اداروں کے تصادم میں عرفان صدیقی کا کردار
27/07/2019 بشارت راجہ
رات آدھی سے زیادہ نکل چکی تھی۔ قریب ایک بجے کا عمل ہو گا۔ میسج آیا کہ معروف صحافی اور ادیب عرفان صدیقی کو اسلام آباد پولیس نے گھر سے اُٹھا لیا۔ حقائق کی کھوج کے لیے تھانہ رمنا گیا۔ اے ایس آئی کو عرضی پیش کی کہ عرفان صدیقی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ کوشش بارآور نہیں ہوئی۔

پوچھا اُن کا جرم کیا ہے؟

بتایا گیا کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی۔

سر یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ رات کے اندھیرے میں بزرگ شہری کو گھر سے اُٹھا لیا جائے۔ یہاں کتنوں کو میں جانتا ہوں جو اس ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کیا قانون اُن لوگوں کے لیے حرکت میں آتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں نواز شریف حکومت کے ساتھ وابستہ رہے۔

اے ایس آئی بولا، جی ہمیں اوپر سے حکم ملا اور ہم انھیں گرفتار کر کے لے آئے۔

عرفان صدیقی کی گرفتاری بظاہر کرایہ داری ایکٹ کے تحت سامنے آئی مگر اصل حقائق کچھ اور ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں، ڈان لیکس کے معاملے پر بڑی سرکار کی طرف سے ایک ٹویٹ آیا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، عرفان صدیقی اُن کے سپیچ رائٹر تھے۔ میاں نواز شریف نے انھیں کہا کہ اس کے جواب میں انہی کے الفاظ میں ایک پریس ریلیز جاری کریں۔ وزیراعظم ہاؤس میں بیگم کلثوم نواز مرحومہ اور اُن کا بیٹا حسین نواز بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔

عرفان صدیقی بیگم کلثوم نواز سے مخاطب ہوتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کو آپ سمجھائیں اس طرح کی پریس ریلیز جاری کرنے سے اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گی۔ معاملات سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ جائیں گے۔

یہ باتیں ہو رہی تھی کہ میاں نوازشریف بھی آ جاتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز وزیراعظم کو سمجھاتی ہیں۔ میاں نوازشریف عرفان صدیقی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ “اے نوکری دی گل ہوئی۔ اس طرح میں نہیں کر سکدا”

بہرحال وہ پریس ریلیز پھاڑ دی گئی۔ نئی پریس ریلیز بنائی گئی اور جاری کی گئی۔

بات یہاں ہی نہیں رُکی۔ میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان معاملات انتہائی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل باجوہ سے استعفیٰ لینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ عرفان صدیقی ہی تھے جنھوں نے یہاں بھی معاملات کو ہینڈل کیا اور بات ٹل گئی۔

پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو سزا دی گئی۔ اُنھیں وزارت اعظمی سے نااہل کیا گیا، عرفان صدیقی نے”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ تخلیق کیا۔ جسے میاں نواز شریف نے خوبصورتی سے گھر گھر تک پہنچایا۔ ان کے پس زنداں ہونے سے اب یہ علم اُن کی بیٹی مریم نواز اُٹھا کر نگر نگر گلی گلی پہنچ رہی ہے۔

عرفان صدیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور استاد کیا۔ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں بھی پڑھاتے رہے۔ ایک بار انھوں نے مجھے بتایا کہ جنرل باجوہ اُن کے شاگرد رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے شاگرد کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف سلیکشن میں عرفان صدیقی کا بھی کلیدی کردار ہے۔

ان دنوں عرفان صدیقی اپنی یادداشتیں قلمبند کر رہے تھے گرفتاری سے دو روز قبل میری اُن سے بات ہوئی۔ کہہ رہے تھے کہ “طبعیت منتشر ہے۔ بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے”۔ یہ ٹھیک ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، لیکن وزیراعظم صاحب جب اپنے دائیں بائیں علیم خان، عامر کیانی، پرویز خٹک اور اعظم سواتی کو کھڑا کر کے دھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوں کو جیل میں ڈالوں گا تو اُس وقت پاکستانی شہری یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ محترم کن کرداروں کے جلو میں کھڑے ہو کر بھاشن دے رہے ہیں۔

لوگوں کو کرایہ داری ایکٹ میں گرفتار کرنے سے قبل دائیں بائیں دیکھ لیں۔ آپ کو عرفان صدیقی سے بڑے جرائم پیشہ لوگ ملیں گے۔ آپ کے آزو بازو کھڑے ہونے والوں کے بھانجوں، بھتیجوں اور اُن کی اولاد کا چال چلن کیسا ہے؟ اس کا جائزہ اپ کو لینا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا۔ آپ احتساب کریں، ضرور کریں مگر احتساب سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہیئے۔ ابھی تک آپ کے احتسابی ریڈار سے جو کچھ ہویدا ہوا، اس سے تو انتقام کی بو آ رہی ہے۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی اور نہ وہ وعدہ معاف گواہ بنتی ہے۔

انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر نادر شاہی کرنے والے آج نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرعون کو بڑا غرور تھا کہ مصر کے انہار و اشجار کا مالک وہ ہے مگر خدائے قہار نے اس کا سارا اعتبار و وقار دریا برد کر دیا۔ یہی کہانی خسرو پرویز کی ہے، یہی داستان قیصر روم کی ہے۔ انتقام کی آگ سے باہر نکلیں اور احتساب کو انصاف کے دائرے میں رہنے دیں۔

 

فرقان احمد

محفلین
تو بھئی کس حکیم نے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کی سیکورٹی میٹنگ کا احوال ایک پبلک اخبار میں لیک کرکے اداروں سے ٹکر لو؟
پہلے آپ جان بوجھ کر طاقتور اداروں سے تصادم کی پالیسی اپناتے ہیں۔ اور جب وہ سزا دیتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھیں انتقامی کاروائی ہو رہی ہے :)
میاں صاحب کو جب سے اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لائی ہے یہ یہی کچھ ہی کر رہے ہیں۔ اقتدار سے باہر پاؤں پکڑنا۔ اور اقتدار میں آکر گلا پکڑنا۔ :)

نواز شریف اور اداروں کے تصادم میں عرفان صدیقی کا کردار
27/07/2019 بشارت راجہ
رات آدھی سے زیادہ نکل چکی تھی۔ قریب ایک بجے کا عمل ہو گا۔ میسج آیا کہ معروف صحافی اور ادیب عرفان صدیقی کو اسلام آباد پولیس نے گھر سے اُٹھا لیا۔ حقائق کی کھوج کے لیے تھانہ رمنا گیا۔ اے ایس آئی کو عرضی پیش کی کہ عرفان صدیقی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ کوشش بارآور نہیں ہوئی۔

پوچھا اُن کا جرم کیا ہے؟

بتایا گیا کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی۔

سر یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ رات کے اندھیرے میں بزرگ شہری کو گھر سے اُٹھا لیا جائے۔ یہاں کتنوں کو میں جانتا ہوں جو اس ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کیا قانون اُن لوگوں کے لیے حرکت میں آتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں نواز شریف حکومت کے ساتھ وابستہ رہے۔

اے ایس آئی بولا، جی ہمیں اوپر سے حکم ملا اور ہم انھیں گرفتار کر کے لے آئے۔

عرفان صدیقی کی گرفتاری بظاہر کرایہ داری ایکٹ کے تحت سامنے آئی مگر اصل حقائق کچھ اور ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں، ڈان لیکس کے معاملے پر بڑی سرکار کی طرف سے ایک ٹویٹ آیا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، عرفان صدیقی اُن کے سپیچ رائٹر تھے۔ میاں نواز شریف نے انھیں کہا کہ اس کے جواب میں انہی کے الفاظ میں ایک پریس ریلیز جاری کریں۔ وزیراعظم ہاؤس میں بیگم کلثوم نواز مرحومہ اور اُن کا بیٹا حسین نواز بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔

عرفان صدیقی بیگم کلثوم نواز سے مخاطب ہوتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کو آپ سمجھائیں اس طرح کی پریس ریلیز جاری کرنے سے اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گی۔ معاملات سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ جائیں گے۔

یہ باتیں ہو رہی تھی کہ میاں نوازشریف بھی آ جاتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز وزیراعظم کو سمجھاتی ہیں۔ میاں نوازشریف عرفان صدیقی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ “اے نوکری دی گل ہوئی۔ اس طرح میں نہیں کر سکدا”

بہرحال وہ پریس ریلیز پھاڑ دی گئی۔ نئی پریس ریلیز بنائی گئی اور جاری کی گئی۔

بات یہاں ہی نہیں رُکی۔ میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان معاملات انتہائی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل باجوہ سے استعفیٰ لینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ عرفان صدیقی ہی تھے جنھوں نے یہاں بھی معاملات کو ہینڈل کیا اور بات ٹل گئی۔

پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو سزا دی گئی۔ اُنھیں وزارت اعظمی سے نااہل کیا گیا، عرفان صدیقی نے”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ تخلیق کیا۔ جسے میاں نواز شریف نے خوبصورتی سے گھر گھر تک پہنچایا۔ ان کے پس زنداں ہونے سے اب یہ علم اُن کی بیٹی مریم نواز اُٹھا کر نگر نگر گلی گلی پہنچ رہی ہے۔

عرفان صدیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور استاد کیا۔ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں بھی پڑھاتے رہے۔ ایک بار انھوں نے مجھے بتایا کہ جنرل باجوہ اُن کے شاگرد رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے شاگرد کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف سلیکشن میں عرفان صدیقی کا بھی کلیدی کردار ہے۔

ان دنوں عرفان صدیقی اپنی یادداشتیں قلمبند کر رہے تھے گرفتاری سے دو روز قبل میری اُن سے بات ہوئی۔ کہہ رہے تھے کہ “طبعیت منتشر ہے۔ بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے”۔ یہ ٹھیک ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، لیکن وزیراعظم صاحب جب اپنے دائیں بائیں علیم خان، عامر کیانی، پرویز خٹک اور اعظم سواتی کو کھڑا کر کے دھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوں کو جیل میں ڈالوں گا تو اُس وقت پاکستانی شہری یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ محترم کن کرداروں کے جلو میں کھڑے ہو کر بھاشن دے رہے ہیں۔

لوگوں کو کرایہ داری ایکٹ میں گرفتار کرنے سے قبل دائیں بائیں دیکھ لیں۔ آپ کو عرفان صدیقی سے بڑے جرائم پیشہ لوگ ملیں گے۔ آپ کے آزو بازو کھڑے ہونے والوں کے بھانجوں، بھتیجوں اور اُن کی اولاد کا چال چلن کیسا ہے؟ اس کا جائزہ اپ کو لینا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا۔ آپ احتساب کریں، ضرور کریں مگر احتساب سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہیئے۔ ابھی تک آپ کے احتسابی ریڈار سے جو کچھ ہویدا ہوا، اس سے تو انتقام کی بو آ رہی ہے۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی اور نہ وہ وعدہ معاف گواہ بنتی ہے۔

انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر نادر شاہی کرنے والے آج نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرعون کو بڑا غرور تھا کہ مصر کے انہار و اشجار کا مالک وہ ہے مگر خدائے قہار نے اس کا سارا اعتبار و وقار دریا برد کر دیا۔ یہی کہانی خسرو پرویز کی ہے، یہی داستان قیصر روم کی ہے۔ انتقام کی آگ سے باہر نکلیں اور احتساب کو انصاف کے دائرے میں رہنے دیں۔

انتقام کی آگ میں جلنے والوں سے کیا شکایت کی جائے! عرفان صدیقی نحیف و نزار ضعیف و نڈھال فرد ہے؛ اور سب سے بڑھ کر ایک استاد بھی؛ ایسی شخصیت کو ہتھکڑیوں میں جکڑا دیکھ کر دھچکا لگا۔ آپ ہمارے مراسلے کو دل پر نہ لیں۔ یہ معاملات دل سے متعلقہ ہیں، خرد سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ :)

جہاں تک ڈان لیکس کا تعلق ہے تو یہ تو ایک حقیقت ہے اور اک تلخ سچائی جو "اُن" سے برداشت نہیں ہو پا رہی ہے۔ دیکھیے، کب تلک؟
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک ڈان لیکس کا تعلق ہے تو یہ تو ایک حقیقت ہے اور اک تلخ سچائی جو "اُن" سے برداشت نہیں ہو پا رہی ہے۔ دیکھیے، کب تلک؟
نواز شریف نے ڈان لیکس پر اپنے قریبی پرویز رشید کی قربانی دی تھی۔ البتہ اداروں کو معلوم تھا کہ اس میں کوئی اور بھی ملوث ہے۔ سو وہ آج سب کے سامنے ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف نے ڈان لیکس پر اپنے قریبی پرویز رشید کی قربانی دی تھی۔ البتہ اداروں کو معلوم تھا کہ اس میں کوئی اور بھی ملوث ہے۔ سو وہ آج سب کے سامنے ہے۔
عرفان صدیقی صاحب کو اس گرفتاری پر فخر محسوس ہوا ہو گا، اگر اس وجہ سے ان کو حراست میں لیا گیا ہے! تاہم، حراست میں لینے والوں کی جرات نہیں کہ وہ منافقت سے جان چھڑائیں۔ :) ایسے جی دار ہیں تو کھل کر کھیلیں۔ :)
 

جان

محفلین
عرفان صدیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور استاد کیا۔ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں بھی پڑھاتے رہے۔ ایک بار انھوں نے مجھے بتایا کہ جنرل باجوہ اُن کے شاگرد رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے شاگرد کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف سلیکشن میں عرفان صدیقی کا بھی کلیدی کردار ہے۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
تو بھئی کس حکیم نے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کی سیکورٹی میٹنگ کا احوال ایک پبلک اخبار میں لیک کرکے اداروں سے ٹکر لو؟
وہی کام تو خان صاحب ہر آئے دن کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ ڈان لیکس نہیں، اصل مسئلہ نواز شریف ہے۔ ڈان لیکس میں جو کچھ سامنے آیا وہ بالکل حقیقت ہے، سب کو دھوکہ دینے کی کوشش میں ہم خود کو آخر کب تک دھوکہ دیتے رہیں گے!
خان صاحب کو وردی کا آلہ کار بننے پر مبارک ہو، اب تو خان صاحب کے لیے یہی الفاظ بچتے ہیں، "وردی وردی کردی نی میں آپے وردی ہوئی"!
 

جاسم محمد

محفلین
وہی کام تو خان صاحب ہر آئے دن کرتے ہیں۔
عمران خان نے سیکورٹی اداروں سے متعلق کوئی متنازعہ روش اختیار نہیں کی۔ جبکہ نوا ز شریف کبھی اعلیٰ سطح کی خفیہ میٹنگ کا احوال ڈان اخبار میں لیک کروا رہے ہوتے تھے تو کبھی اسی اخبار میں انٹرویو دے کر کہتے تھے کہ ممبئی حملوں کے پیچھے ملک کے ادارہ ہیں۔
یہی بیان بھارت نے کلبھوشن کے دفاع میں عالمی عدالت انصاف میں چلایا۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے والا عوامی انقلابی جب اپنے ہی ملک کے اداروں سے متعلق ایسا رویہ رکھے گا تو کیا اسے پھولوں والےہار پہنائے جائیں گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب کو وردی کا آلہ کار بننے پر مبارک ہو، اب تو خان صاحب کے لیے یہی الفاظ بچتے ہیں، "وردی وردی کردی نی میں آپے وردی ہوئی"!
وردی سے مقابلہ کرنے والوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
جب بھٹو1977 اور نواز شریف 1997 میں دو تہائی پارلیمانی اکثریت حاصل کر لینے کے باوجود وردی والوں کا بال بیکا نہ کر سکے۔ تو عمران خان جو مختلف اتحادی پارٹیوں کی بیساکھیوں پر چل کر معمولی سی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔ وہ ان کا کیا بگاڑ لیں گے؟
وردی کا آلہ کار بننے پر عمران خان کو طعنہ ضرور دیں پر حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ ۔ :)
جو اس وردی سے واقعتا ٹکر لینے کی قوت رکھتے یعنی بھٹو اور نواز شریف وہ خود وردی والے جنرل ایوب اور ضیاء کی فخریہ پیداوار تھے:)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عرفان صدیقی پر مہلک اسلحے کی ملکیت کا پرچہ ہی ڈال دیتے
27/07/2019 عدنان خان کاکڑ


عرفان صدیقی صاحب کو کرایہ نامہ پولیس کے پاس درج نہ کروانے کے جرم پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس عموماً کام میں ناک تک ڈوبی ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات ناک کیا دماغ بھی ڈوب جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے خیال ہی نہیں رہا کہ جس مکان اور کرائے نامے پر عرفان صدیقی صاحب کے خلاف مقدمہ بنایا جا رہا ہے وہ دونوں تو ان کے نام پر ہی نہیں ہیں۔ مکان اور کرائے نامے دونوں پر ان کے بیٹے عمران خاور صدیقی کا نام درج ہے۔

ہاں یہ بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی کہ کرائے نامے پر ایک جگہ عرفان صدیقی صاحب کا نام درج ہے۔ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کرایہ نامی عمران خاور صدیقی ولد عرفان الحق صدیقی کے نام پر ہے۔ غالباً پولیس نے یہ سوچا ہو گا کہ مالک مکان نہ سہی مالک مکان کے باپ کو ہی پکڑ لو۔ ویسے تو محاورے اور روایتی طریقہ تفتیش کے مطابق پولیس مالک مکان کی ماں کو پکڑتی ہے مگر اس مرتبہ اس نے رعایت کر دی۔

ایف آئی آر دلچسپ ہے۔ رات دس بجے چھوٹے تھانیدار عبدالستار بیگ صاحب گشت کر رہے تھے اور لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر پوچھ رہے تھے کہ میاں تم کرائے دار ہو یا مالک مکان، تو ایک بندے نے بتایا کہ وہ کرائے دار ہے اور اس نے مکان عرفان صدیقی صاحب سے کرائے پر لیا ہے۔ سب انسپکٹر صاحب نے فوراً ایکشن لیا اور رات بارہ بجے قریبی گلی میں واقعہ عرفان صدیقی صاحب کے گھر پر بھاری نفری کے ساتھ چھاپہ مارا۔ غالباً تھانیدار صاحب کی اس چستی و چالاکی کی وجہ بارہ بجے کا مقدس وقت تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ چھاپہ مارنے ایک پولیس کی پک اپ اور تین ویگو گاڑیاں گئی تھیں۔


عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری کے بعد کا منظر
غالباً تھانیدار صاحب شدید پڑھے لکھے ہوں گے۔ انہوں نے پڑھ رکھا ہو گا کہ قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہتھیار ہے۔ اور کسی نے یہ بھی بتا دیا ہو گا کہ عرفان صدیقی صاحب ایک بہت بڑے قلمکار ہیں۔ یہ سوچ کر تھانیدار صاحب دہل گئے اور خون خرابے سے بچنے کی خاطر بھاری نفری منگوا لی۔ کیا پتہ پولیس مقابلہ کیسا خونریز ہوتا۔

ہمارے اس گمان کو اس رپورٹ سے بھی تقویت ملتی ہے جو اگلی صبح عرفان صدیقی صاحب کی کچہری میں پیشی کے بارے میں میڈیا میں آئی ہے۔ میڈیا کو خبر ملی کہ عرفان صدیقی صاحب کو سیکٹر جی تھرٹین کی کچہری میں مجسٹریٹ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ سارا پریس کلب اپنے قلم کیمرے اور ڈی ایس این جی لے کر پہنچ گیا۔ پولیس نے چپکے سے عرفان صدیقی صاحب کو ایچ نائن سیکٹر میں ایکسائز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا۔ پولیس کے خوف کا یہ عالم تھا کہ اس 78 سالہ مہلک قلمکار کو ہتھکڑیاں پہنائی گئی تھیں کہ کہیں وہ مار پیٹ نہ کر ڈالے۔

خیال آتا ہے کہ یہ سارے ستر اسی سال کے بابے کتنے خطرناک مجرم ہیں۔ پہلے چند عمر رسیدہ پروفیسروں اور وائس چانسلروں کو ہتھکڑیاں لگانی پڑی تھیں کہ کہیں وہ جس چھڑی کے سہارے بمشکل چل پاتے ہیں اسی سے دو تین درجن پولیس والوں کو ڈھیر کر کے فرار نہ ہو جائیں۔ اب 78 سالہ عرفان صدیقی صاحب سے بھی پولیس والوں کو شدید خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ اپنے پین کی نوک چبھو چبھو کر پورے تھانے کو شکست فاش نہ دے دیں۔

ہمارا مشورہ ہے کہ پولیس والوں پر پابندی لگائی جائے کہ وہ کنگ فو ہیرو جیکی چن کی فلمیں مت دیکھیں ورنہ وہ ان عمر رسیدہ بزرگوں سے ایسے ہی خوفزدہ رہیں گے۔ جیکی چن کی فلموں میں سب سے زیادہ خطرناک فائٹر اسی نوے برس کا بابا ہوتا ہے جسے ولین صرف مکاری سے ہی ہرا سکتا ہے۔ پولیس ہمارے دیسی بابوں کو بھی ویسا ہی سمجھنے لگی ہے۔ بہرحال اس معاملے پر تو ہماری سب سے زیادہ بولڈ وزیر فردوس عاشق اعوان کو بھی شرم آ گئی ہے۔ فرماتی ہیں کہ بابوں کو ہتھکڑی لگانا نامناسب ہے۔

بہرحال عرفان صدیقی صاحب اپنی خوش بختی پر رشک کریں۔ جو جرم ان پر ڈالا گیا ہے اس کی سزا تو ایک ماہ قید اور چند سو روپے بتائی جا رہی ہے۔ وہ یہ سوچ کر صدقہ خیرات کریں کہ اگر ایک گاڑی سے چودہ کلو ہیروئن برآمد کی جا سکتی ہے تو ایک گھر سے تو ہیروئن کی پوری فیکٹری بھی برآمد کی جا سکتی تھی۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس گھر کے پانی کی ٹینکی سے کئی ٹن تباہ کن اسلحہ از قسم توپ، بندوق، کلاشنکوف اور قلم برآمد کر لیا جاتا۔ پھر وہ کیا کرتے؟
 

جاسم محمد

محفلین
عرفان صدیقی۔ راستوں کی دھول ہوتی خوشبو
27/07/2019 حماد حسن



سرشام چند پراسرار لوگوں نے اس کے گھر کا گھیراؤ کیا اور چھوٹے سے قد اوربڑے ذہن والے بوڑھے عرفان صدیقی کو لے کر چلتے بنے، کیونکہ اس ”کرپٹ“ آدمی نے اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لئے اپنی جسمانی قامت جیسے چھوٹے گھر کا ایک پورشن بغیر اطلاع کے کرائے پر چڑھا دیا تھا اور ظاہر ہے حکومت عمران خان کی ہے اور وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑتا۔ اس لئے اس ”خوفناک کرپشن“ پر اس ”طاقتور“ کو دھر لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گھر ان کے بیٹے کے نام پر ہے اور کرایہ نامہ بھی اسی کے نام پر ہے جس سے عرفان صدیقی کا کوئی لینا دینا نہیں۔

اب کسی لمحے عمران خان خود پر ایک مصنوعی اور اداکاری سے بھرپور غصہ طاری کیے ٹیلی وژن چینلوں پر نمودار ہوں گے اور چوروں، ڈاکوؤں اور کرپٹ مافیا کے خلاف ایک احمق طبقے کو مزید احمق بناتے دکھائی دیں گے، اور پھر سر شام فردوس عاشق اعوان، شیخ رشید، فیاض چوہان اور شہباز گل جیسے درد مندان قوم و وطن عرفان صدیقی جیسے ”لٹیروں“ کے خلاف ہماری ذہن سازی اور رائے سازی کرتے اور اپنی دانش بکھیرتے رہیں گے،

اللہ اللہ خیر صلاء

عرفان صدیقی کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ عین اس طرح کی ہی شخصیت رکھتے ہیں جس طرح کے حرف و لفظ ان کے قلم سے پھوٹتے رہے، یعنی صاف اور واضح لیکن معیاری۔ شرافت علم اور وفاداری ان کے لفظوں سے بھی جھلکتی ہے اور شخصیت سے بھی۔

ان کے ہاں تنظیم اور ترتیب ہر جگہ اور ہمیشہ قائم لیکن ایک وقار اور عجز کے ساتھ، جو لوگ ان کا کالم ”نقش خیال“ پڑھتے رہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے خیالات کو حرف و لفظ کے ذریعے دوسروں کے ذہنوں میں کیسے اتارا جاتا ہے اور عرفان صدیقی اپنی اس ”فنکاری“ میں یکتا نہیں تو کمال کے درجے پر ضرور ہیں بلکہ تھے کیونکہ قلم کی جگہ اب ہتھکڑی نے لے لی ہے اور اس عہد کم ظرف میں یہ کوئی چونکا دینے والی بات بھی نہیں کہ کسی معلم یا دانشور کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا ہے کیونکہ پنجاب یونیورسٹی کے بوڑھے پروفیسروں کوبھی اس حالت میں دیکھا گیا کہ انھیں زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا اور ٹیلیوژن کیمروں کے سامنے انہیں کھینچا جا رہا تھا۔

نیب کے عقوبت خانے سے ایک استاد کی لاش ہتھکڑیوں میں جکڑی برآمد ہوئی کتنا عرصہ ہوا۔ کراچی میں پرانے ترقی پسند سیاسی ورکر اور پچاسی سالہ پروفیسر حسن ظفر عارف کی ادھڑی ہوئی لاش محض ایک لاش نہ تھی بلکہ ایک پورے عہد کا نوحہ تھا جسے علم و شعور سے لیس طبقات عہد کم ظرف کے نام سے جانتے ہیں لیکن اس سوگواری کا لطف اٹھانے اور بے حسی کی داد دینے والوں کی بھی اس مملکت خدا داد میں کوئی قلت نہیں۔

اس لئے ان حالات میں پروفیسر عرفان صدیقی کا نوحہ کیا اور کیسے لکھیں اور پھر عرفان صدیقی کے پاس ہے بھی کیا؟
محض پینتالیس سال کی ٹیچنگ ( پروفیسری ) چند سو کالم، تھوڑی سی شاعری یا ایک مدہم اور عالمانہ شخصیت اور بس!

انہیں چاہیے تھا کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں رہ کر وہ ہنر سیکھ لیتے جو ان کے گرائیں شیخ رشید یا فیاض چوہان سیکھ چکے ہیں، پھر انہیں نہ اپنے خرچے چلانے کے لئے اپنے بیٹے کے چھوٹے سے گھر کا ایک حصہ کرائے پرچڑھانا پڑتا، نہ ہتھکڑیوں میں جکڑنا پڑتا نہ اس ”خطرناک جرم“ پر چودہ روزہ ریمانڈ لینا پڑتا، نہ اڈیالہ جیل کا پھا ٹک ان پر کھلتا نہ اس کی بیوی بچے پریشان ہوتے اور نہ قلم کی جگہ زنجیر لیتی بلکہ ایک آسودہ اور پرسکون زندگی گزارتے روز ایک قصیدہ نما کالم لکھتے شعر و ادب کا لطف اٹھاتے اور پھر سرشام کسی ٹیلیوژن چینل پر بیٹھ کر مدح و ذم کی قمچیاں چلاتے۔

اپنے سابق محسن کی ایسی کی تیسی کرتے حکمران وقت کو ایک دیوتا ثابت کرتے اور اس کے قصیدے پڑھتے۔ ساتھ ساتھ بہت سارا پیسہ کماتے۔ کیا خبر مشیروں کی اڑتیس کرسیوں میں ایک اور کرسی کا اضافہ ہوتا اور صدیقی صاحب بھی اڈیالہ جیل کی بجائے وزیر اعظم ہاؤس کا رُخ کرتے لیکن زمانے کی یہی ناشناسی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے بعد ہمارے صحافتی دوستوں اور ادبی رفیقوں کے لئے بھی اب ایک وبالِ جاں بنتی جا رہی ہے۔

عرفان صدیقی کی ایک نظم کی چند لائینیں یاد آئیں کسی دوست کی ملاقات ہو تو انہیں ضرور سنائیں
تمہیں میں نے کہا بھی تھا
کہ اتنی دور مت جاؤ
جہاں جاتے
ابابیلوں کے پر جھڑنے لگے
خوشبو اڑے تو
راستوں کی دھول ہو جائے
 
Top