::: سابقہ نازل شدہ کتابوں ، اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والوں کاموں شرعی حیثیت :::

السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، بھائی فاروق سرور صاحب ، کچھ عرصے پہلے کچھ بھائیوں سے اللہ کو خدا نہ کہنے کے بارے میں گفتگو ہوئی اور اُس دوران اللہ کی عطا کردہ توفیق سے یہ مندرجہ ذیل مضمون تیار ہوا اور اُس گفتگو میں ارسال کیا ، آپ نے سابقہ آسمانی کتابوں میں ذکر شدہ اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والے کاموں میں سے اپنی بات کے لیے دلیل اپنائی ہے ، پس اس لیے یہ مندرجہ ذیل مضمون یہاں ارسال کر رہا ہوں ، اللہ تعالی اسے ہم سب کے لیے دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر والا بنائے ۔
::::: سابقہ نازل شدہ کتابوں ، اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والوں کاموں شرعی حیثیت :::::
الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبِيَّ وَ لا مَعصُومَ بَعدَہُ ، وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،
خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے بعد کوئی نبی اور معصوم نہیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
یہاں میں آپ صاحبان سے سابقہ الہامی ، آسمانی کتابوں ، اگر اب اُن میں سے کوئی اپنی اصلی حالت میں کہیں موجود ہے تو بھی ، اُن کتابوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں کچھ عرض کروں گا کیونکہ ہمارے کچھ مُسلمان بھائی اُن کتابوں میں سے اپنے کِسی قول یا عمل کے لیے دلیل تلاش کرتے اور دلیل بنانے کی کوشش میں مظر آتے ہیں ،
ہمیں اُن سب کتابوں پر اِیمان رکھنے کا حُکم ہے کہ ، وہ کتابیں ، یا صحیفے ، جِن کا ذِکر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں ، تو ہم اُن کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اِیمان رکھیں ، لیکن اُن اِلفاظ پر جو پایہ ثبوت تک پہنچتے ہوں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں ، نہ کہ تحریف اور تبدیل شدہ اِلفاظ پر ، اور الحمدُ للہ ہم اُن کتابوں کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اِیمان رکھتے ہیں ، لیکن اُن کے تحریف و تبدیل شدہ نسخوں کو قابل اعتماد نہیں جانتے ، اور یہ اللہ کی طرف سے اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام پر اللہ کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اُس کی طرف نازل کی گئی کتاب اللہ نے محفوظ رکھی اور قیامت تک محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ، اور اُس کتاب قُران کے عِلاوہ کوئی اور سابقہ آسمانی کتاب محفوظ نہیں رہی ،
قطع نظر اِس کے کہ وہ کتابیں اللہ کے نازل کردہ الفاظ میں محفوظ رہِیں یا نہیں ، ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اُن کتابوں کا شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام میں کوئی عقیدہ ، یا عِبادت ، یا حُکم اختیار کرنے کا ذریعہ یا دلیل ہونے کا معاملہ کیا ہے ؟؟؟ اور کیا حُکم ہے ؟؟؟
تو اِس کے بارے میں عرض ہے کہ ، وہ سب کتابیں ، ایک ایک قوم کی طرف تِھیں اور اُسی اُسی قوم کی زُبان میں تِھیں ، اُن کے ہاں اللہ تعالیٰ جِس نام سے پہچانا جاتا تھا ، میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کی بات کر رہا ہوں ، تخیلاتی ، خود ساختہ ''' خُدا ''' جیسے باطل معبود کی نہیں ، تو اُن قوموں کی زُبان میں اللہ کے لیے جو نام معروف تھا اُسی کو اللہ نے اُس قوم کے لیے ارسال کیے ہوئے پیغامات ، عقائد و احکامات میں برقرار رکھا ، پہلے بھی میں یہ عرض کر چکا ہوں عبرانی زبان میں ''' ایل ''' بمعنیٰ اللہ اِستعمال ہوتا تھا ، اور یہ اِستعمال اللہ اور بنی اِسرائیل میں آنے والے نبیوں نے بھی اِستعمال کِیا کیونکہ یہ اُن کی مادری زُبان کا لفظ تھا ، اور وہ صِرف اُسی قوم کی طرف بھیجے گئے تھے کوئی رسول اور کوئی نبی تھا ، علہیم السلام جمعیاً ، اور اِسلام کے بعد یہودیوں ، اور عبرانی زُبان بولنے والوں میں سے مسلمان ہونے والے کِسی نے بھی پھر اللہ کو ایل نہیں کہا ، لکھا ، مگر ہم ’’’ خدا ‘‘‘ کو اللہ بنانے پر ہی بضد ہیں ، اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ،
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخر میں آئے ، اللہ کی آخری شریعت لے کر آئے ، وہ صلی اللہ علیہ وسلم کِسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے رسول تھے ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَمَا اَرسَلنَاکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیراً وَنَذِیراً وَلَکِنَّ اَکثَرَ النَّاسِ لَا یَعلَمُونَ )( اور ہم نے آپ کو سارے انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت یہ حقیقت نہیں جانتی ) سورت سباء آیت ٢٨،
اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تا قیامت ہے ، اُن کے ذریعے بھیجی جانے والی شریعت تا قیامت ہے ، کِسی ایک قوم کے لیے نہیں قیامت تک آنے والے ہر ایک اِنسان کے لیے ، قران و رسالت کی زُبان عربی مقرر ہو چکی ، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کیے گئے ، عقائد ، احکامات ،اور آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک رسول اور نبی کی مشترکہ دعوت ، اللہ کی توحید ، جِس کی اصل اساس اللہ کا تعارف اور پہچان ہے ، قیامت تک کے لیے اُس زبان میں ہے ، ہم اُن کو سمجھنے کے لیے اپنی غیر عرب زبانوں سے مدد تو لے سکتے ہیں ہیں لیکن ، اللہ کے نام اور صفات ، اور احکام ، زُبان کے قواعد کے ذریعے یا اپنی اپنی قدیم یا جدید زُبانوں کے مفاہیم کی روشنی میں نہیں سمجھے جا سکتے ، کیونکہ ایسا کرنا بلا شک و شبہہ دِین دُنیا اور آخرت کے گھاٹے والا کام ہے ، پس مُسلمانوں کو اپنے عقائد و احکامات اپنانے کے لیے صرف اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا ہے ، سابقہ الہامی ، یا وحی شدہ، یا لکھی لکھائی دی گئی کتابوں ، یا سابقہ نبیوں علیہم السلام سے مروی روایات کو دلیل بنا کر کوئی عقیدہ ، عبادت ، دِینی حُکم ، معاشرتی حُکم ، کاروباری ، تجارتی حُکم کوئی بھی معاملہ جِس کے لیے قران و صحیح سنّت کی موافقت نہ ہو ، نہیں اپنایا جا سکتا ،
اور ایسا اِس لیے کہ اللہ کے مُقرر کردہ قانون کے مُطابق ہر نئے نبی کی اتباع یعنی تابع فرمانی کرنا اُس سے پہلے والے(سابقہ ، پُرانے ) نبی پر فرض ہے، اور اُمتیوں پر نبی سے زیادہ فرض ہے ، اور ہر نئی شریعت اُس سے پہلے والی(سابقہ ، پُرانی) شریعت (عقائد و احکامات) کو منسوخ کرتی ہے ،
:::::::: مُلاحظہ فرمائیے کہ اِس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم کیا ہے ،
جابرابن عبداللہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''''' ایک دِن عُمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہما ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور عرض کیا ::: اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، تو عُمر (رضی اللہ عنہُ ) نے اُس کو پڑہنا شروع کر دِیا جیسے جیسے وہ پڑہتے جا رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طہرہ مبارک (غصے کی وجہ سے )بدلتا جا رہا تھا ، یہ دیکھ کر ابو بکر (رضی اللہ عنہُ ) نے عُمر (رضی اللہ عنہُ ) سے کہا ::: تُماری ماں تُمہیں گنوا دے کیا تُم دیکھتے کیوں نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے مُبارک پر کیا ہے ؟ (یعنی کتنا غُصہ ہے؟)::: تو عُمر (رضی اللہ عنہُ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مُبارک کی طرف دیکھا ، اور فوراً پکار اُٹھے ::::: اَعُوذُ بِاللَّہِ من غَضَبِ اللَّہِ ومن غضب رَسُولِہِ رَضِینَا بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالاِسلَامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ، میں اللہ کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، ہم اِس پر راضی ہیں کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اِسلام ہی ہمار دِین ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے نبی ہیں ::::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدہِ ، لَو بَدَاء لَکُم مُوسَی فَاتَّبَعتُمُوہُ وَتَرَکتُمُونِی لَضَلَلتُم عَن سَوَاء ِ السَّبِیلِ ، وَلَو کَان حَیًّا وَاَدرَکَ نُبُوَّتِی لَاتَّبَعَنِی)( اُس ذات کی قِسم جِس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، اگر موسیٰ تُم لوگوں کے سامنے آ جائیں اور تُم لوگ مجھے چھوڑ کر اُن کی اتباع (پیروی ، تابع فرمانی ) کرنے لگو تو یقینا تُم لوگ دُرست راستے سے بھٹکے ہوئے ہو جاؤ گے ، اور اگر مُوسیٰ میری نبوت کے وقت میں زندہ ہوتے تو یقینا میری اتباع (پیروی ، تابع فرمانی) کرتے ) سنن الدارمی /حدیث ٣٤٥ ، الالبانی ، مشکاۃ ١٩٤،٥٥،
::::: اِس حدیث میں جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، کا تقویٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ، اور اُن کی اطاعت کے طریقے کے اظہار ہوتا ہے ، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اللہ تعالیٰ کا مندرجہ بالا فرمان مزید واضح ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے بھیجے جانے والے آخری رسول اور نبی ہیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجی جانی والی کتاب ، اور شریعت ، اور عقیدہ ، اور احکام ، سابقہ کتابوں ، شریعتوں ، عقائد و عِبادات کو منسوخ کرنے والے ہیں ، اور قیامت تک کے لیے ہیں ،
اورجو کتاب ، اور شریعت ، اور عقیدہ ، اور احکام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجے گئے ہیں اُن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ہی عمل کرنا فرض ہے ، اور سابقہ کتابوں ، نبیوں ، اُمتوں ، کے واقعات ، و احکام سے کوئی حکم نہیں لیا جا سکتا ، بلکہ وہ سب منسوخ ہیں ، یہاں تک کہ اگر سابقہ نبیوں میں سے کِسی کو اللہ تعالیٰ دوبارہ دُنیا میں بھیج بھی دے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرے گا ، نہ کہ خود اُس پر یا اُس کی قوم کی طرف نازل شدہ عقائد و احکام کو اپنائے گا ،
مزید غور فرمائیے ، اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر ( وَاِذ اَخَذَ اللّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیتُکُم مِّن کِتَابٍ وَحِکمَۃٍ ثُمَّ جَاء کُم رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُم لَتُؤمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُرُنَّہُ قَالَ اَاَقرَرتُم وَاَخَذتُم عَلَی ذَلِکُم اِصرِی قَالُوا اَقرَرنَا قَالَ فَاشہَدُوا وَاَنَا مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِینَ ) ( اور جن اللہ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ میں تُم (نبیوں) کو کتاب او رحِکمت میں سے ( احکام و پیغامات )دوں گا پھر (اُس کے بعد میر ا) رسول وہ کچھ لے کر آئے گا جو تمہارے پاس (پہلے سے )موجود (کتاب و حِکمت ) کے تصدیق کرے گا ، اور( میں تُم نبیوں سے یہ عہدلے رہا ہوں کہ ) تُم ضرور اُس (رسول) پر اِیمان لاؤ گے اور اُس کی مدد کرو گے ، پھر اللہ نے فرمایا کیا تُم لوگ ایسا کرنے کا اِقرار کرتے ہو اور اِس پر میرا عہد تھامتے ہو ، سب نبیوں نے کہا ، ہم اقرار کرتے ہیں ، اللہ نے کہا ، پس تُم سب بھی گواہ رہو اور میں خود بھی تُم سب کے ساتھ گوا ہ ہوں ) سورت آل عمران / آیت ٨١ ،
اِس کے بعد کِسی صاحبِ اِیمان ، اور عقل سلیم والے مُسلمان کے لیے کیا گنجائش ہے کہ وہ اپنی یا اپنے بڑوں کی کِسی غلط فہمی کو درست ثابت کرنے کے لیے اللہ کی آخری شریعت اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو چھوڑ کر سابقہ نازل شدہ کتابوں ، صحیفوں ، یا سابقہ نبیوں ، اور اُمتوں کو دلیل بنائے ؟؟؟
میرے مُسلمان بھائیو، بہنوں ، سابقہ نبیوں اور اُمتوں کے واقعات کو اللہ تعالیٰ نے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عبرت و سبق کے لیے بیان فرمایا ہے ، نہ کہ اُن سے کوئی عقیدہ اخذ کرنے ، اللہ کے نام اور صفات اپنانے ، یا عبادات و احکام بنانے کے لیے ،
غور سے پڑہیئے اِیمان والو ، اللہ تعالیٰ کی پُکاریں ، یہ پُکاریں کافروں یا مشرکوں کو نہیں ، یہ پکاریں اِیمان لانے والوں کے لیے ہیں ، اللہ اُن کو پُکار پُکار کر کیا حُکم دیتا ہے ، غور سے پڑہیئے (یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا ادخُلُوا فی السِّلمِ کَآفَۃً وَ لا تَتَّبِعُوا الشَّیطٰنَ اِنَّہُ لَکُم عَدُوٌ مُبِینٌ فَاِن زَلَلتُم مِّن بَعدِ مَا جَآء َتکُمُ البَیِّنَاتُ فَاعلَمُوا اِنَّ اللّٰہ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ::: اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو پورے کے پورے اِسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے مت چلو ، بے شک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے اور اگر تُم لوگوںتک واضح باتیں آنے کے بعد بھی تُم لوگ گمراہ ہوتے ہو تو جان رکھو کہ اللہ زبردست اور حکمت والا ہے ) سورت البقرۃ / آ یت ٢٠٨ ،
( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعْوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ وَ لاتَوَلَّوا عَنہُ وَ اَنتُم تَسمَعُونَ O وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُواسَمِعنَا وَ ھُم لَا یَسمَعُونَ O اِنَّ شَرَّ الدََّّوَآبِّ عِندَ اللّٰہِ الصّْمُ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ)(اے لوگو جو اِیمان لائے ہو اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور سنتے جانتے ہوئے رسول سے منہ نہیں پھیرو O اور اُن لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم سن رہے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں O بے شک اللہ کے سامنے سب سے بُرے وہ ہیں جو(عقل کے ) بہرے اور گونگے ہیں اور سمجھتے نہیں ) سورت ا لانفال /آ یت ٢٠ ، ٢١ ، ٢٢ ،
( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا لَا تقدمُوا بَین َ یَدی اللَّّہ و رسَولَہُ و اتَّقُوا اللَّہ اِنَّ اللَّہ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ( اے ( لوگو) جواِیمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے بچو ( یعنی اُس کے عذاب سے ) بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے ) سورت الحجرات / آیت ١ ۔
پس اے اِیمان والو اپنے رب ،اکیلے و تنہا خالق و معبودِ حقیقی اللہ جو یقینا خُدا نہیں تھا ، نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے ، کی پکاروں پر لیبک کہتے ہوئے اُن پر عمل پیرا ہوجائیے ،
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، علی مَن اتبع ھُدیہُ ، و رِسولَہُ اِلیٰ یومِ القیامۃ ۔
 
اقتباس:
آپ نے سابقہ آسمانی کتابوں میں ذکر شدہ اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والے کاموں میں سے اپنی بات کے لیے دلیل اپنائی ہے
یہ دلیل کہاں اپنائی گئی ہے؟ واضح‌ فرمادیجئے اور لنک بھی فراہم کردیجئے۔ میرا خیال ہے کہ میں کہتا کچھ ہوں اور آپ پڑحتے کچھ اور ہیں۔ زبور کے ضمن میں یہ بتایا کہ یہ داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور سلیمان علیہ السلام ان کے فرزند تھے۔
پھر یہ بتایا کہ یہ کتاب اصلاً شاعری ، نغموں اور گیتوں کا مجموعہ آج ہے اور اس کے ماننے والوں‌کے مطابق شروع سے تھی ، متن کو ایک طرف رکھیں۔ روایات ہیں‌ کہ اس کتاب زبور میں سے گیت گائے جاتے تھے اور آج بھی گائے جاتے ہیں۔

پھر یہ بتایا کہ قرآن اپنی ایک آیت میں زبور کی ایک آیت کا حوالہ مع متن دیتا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا یہ متن زبور میں ایک گیت میں اور ایک شعر میں‌پایا جاتا ہے، دریافت یہ کیا کہ وہ آیت بتائیے اور یہ بتائیے کہ زبور رسول اکرم کے وقت پر شاعرانہ تھی یا نہیں۔ کون سے صحابی اس کی زبان کو جانتے تھے؟

صاحب میں‌حوالوں اور دلائل صرف اور صرف قرآن استعمال کرتا ہوں، دوسری کتب نہیں۔ غور کیجئے کہ یہ دلائل نہیں‌سوالات ہیں۔ اس مد میں کہ کیا زبور سلیمان علیہ السلام کے استعمال میں بھی تھی یا نہیں۔ اس کتاب زبور سے کوئی دلیل آپ کو نہیں دی گئی۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ فرمائیں‌تو دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کا مضمون - سابقہ الہامی کتب:
آپ نے بالکل تھیخ فرمایا کہ تمام سابقہ الہامی کتب میں انسانوں نے جمع تفریق کی ، اسی جمع اور تفریق سے بچنے کے لئے اللہ تعالی نے قران یعنی اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔ لیکن پھر بھی اللہ کے دشمن باز نہیں‌آئے اور اپنی روایات کو توراۃ‌، زبور اور انجیل سے نقل کر کر کے کتب روایات میں بھر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتب روایات میں‌ جہاں رسول اکرم کے افعال و اقوال یعنی سنت رسول موجود ہے لیکن اس میں اسرئیلیات سے بھرپور شرارت ہے جو حدیث کے نام پر مسلمانوں‌کو پیش کی جاتی رہتی ہے۔ ان کتب کی کسوٹی بھی قرآن ہے کہ جو کچھ غیر قرآنی ہے وہ درج ذیل آیات کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہے۔

جو کچھ سابقہ الہامی کتب میں اللہ تعالی نے لائق توثیق و تصدیق تھا، وہ قرآن میں پیش کردیا۔ یہ آپ کے اوپر کے مقالے سے صاف ظاہر ہے۔ سابقہ کتب ، اپنی موجودہ حلات میں بالکل دلیل نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے جو کچھ ملتا جلتا کتب روایات میں پایا جاتا ہے وہ بھی اس وقت تک دلیل نہیں ہے جب تک کہ قران اس کی توثیق نہ کرتا ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان دیکھئے۔

[ayah]5:48[/ayah] [arabic]وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَ۔كِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَآ آتَاكُم فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [/arabic]
اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے

[ayah]5:49 [/ayah] [arabic]وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ [/arabic]
اور (اے حبیب! ہم نے یہ حکم کیا ہے کہ) آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں


ان آیات کریمہ سے صاف صاف ظاہر ہے کہ سابقہ کتب کے احکامات کے بجائے، وہ جو رسول اکرم پر نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن کریم، اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ گویا سابقہ کتب کا ہر قانون ہر اصول قابل قبول نہیں، یہی وجہ ہے کہ کتب روایات میں جو اصول سابقہ کتب کے پائے جاتے ہیں وہ بھی ان آیات کی روشنی میں قرآن پر پرکھے جائیں گے۔

والسلام
 
Top