سائنس اور مذہب کیا ایک دوسر ے کے مخالف

خرم

محفلین
ظفری بھیا اور عارف بھائی،
میرا سوچنے کا یہ انداز ہے کہ جب اس کائنات میں شامل تمام اشیاء اللہ نے بنائی ہیں اور پھر ایک مینوئل آپ کو دے دیا جس میں بتایا گیا کہ زمین کی گہرائیوں میں چھپا کوئی ذرہ اور کوئی خشک اور تر چیز ایسی نہیں جس کا ذکر اس مینویل میں نہیں‌تو پھر آپ کو تمام علم دے دیا گیا ہے۔ مثال عرض کرتا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں میں پیدا ہوئی۔ فوری طور پر خیال جاتا ہے کہ نر و مادہ کے جوڑے۔ پھر کچھ اور تحقیق ہوئی کہ پودوں میں بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ پھر مزید جانچ ہوئی تو نیوٹن بولا کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔ سو قرآن کہتا ہے کہ انسان چاند پر بھی پہنچے گا۔ کائنات کے رازوں سے بھی آشنا ہوگا۔ جو بلڈنگ بلاکس ہیں وہ تو قرآن نے بیان کردئیے لیکن بہرحال یہ منشائے الٰہی نہیں ہے کہ آپ کو ایک خلائی جہاز کی ڈرائنگ قرآن میں بنا کر دکھا دی جائے۔ قرآن آپ کے شوق کو مہمیز کرتا ہے، آپ کو اشارے دیتا ہے لیکن تحقیق کا کام آپ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اب جیسے قرآن نے صدیوں پہلے انسانی فیٹس کی پیدائش کے مراحل بیان کردئیے۔ تحقیق کرنے والوں نے تو بیسویں صدی کے آخر میں آکر اس کی پڑتال کی۔ تو قرآن نے اشارے دے دئیے، انہیں استعمال کرنا اور ان پر غور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہی حال باقی سائنسی باتوں کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر جب تک کسی شے کے وجود کا علم نہ ہو، اس کی طرف انسان کا دھیان ہی نہیں جاسکتا۔
بدقسمتی سے مسلمان علماء کی اکثریت نے قرآن کو بس ایک حکمی کتاب کا درجہ دے کر اس کے معانی کو ظاہر میں قید کردیا۔ اس طرح‌اس علم و حکمت کے سمندر کو اپنے تئیں ایک چوبچہ میں ڈھال لیا ہے۔ صدیوں کی اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو چیز ان کے علم میں‌نہ ہو اس کے وجود سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں۔ اسی رویہ نے یہ تاثر پختہ کیا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے۔ قرآن درحقیقت وہ کتاب ہے جو مخلوق کو خالق اور اس کی تخلیق سے آگاہ کرتی ہے اور تخلیق میں تمامتر تخلیقات آجاتی ہیں خواہے وہ سائنسی کلئے ہوں یا نباتات و جمادات و حیوانات۔
 

طالوت

محفلین
مغرب میں سائنس و مذہب کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے:
science_and_religion_venn1.png


یعنی مذاہب superstition اور factless ہیں جسکا سائنس و ٹیکنالوجی نے مکمل احاطہ کیا ہوا ہے۔
لیکن ایک چیز سائنس میں نہیں ہے مگر صرف مذہب میں ہے:
’’علوم روحانی‘‘۔ مادی دنیا تک سائنس کا علم بالکل درست کام کرتا ہے۔ لیکن جونہی پراسرار وقعات نمودار ہو نا شروع ہوں تو سائنس دم دبا کر بھاگ جاتی ہے۔ یہی حال دنیا کے پیشتر مذاہب کا مادی دنیا کیساتھ ہوتا ہے!
یہ واقعات پرسرار اسی وقت تک رہتے ہیں جب تک ان کی کوئی وجہ نہ مل جائے ۔ اس ضمن میں کئی ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کچھ سے تو آپ بھی واقف ہوں گے۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
یہ واقعات پرسرار اسی وقت تک رہتے ہیں جب تک ان کی کوئی وجہ نہ مل جائے ۔ اس ضمن میں کئی ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کچھ سے تو آپ بھی واقف ہوں گے۔
وسلام

نہیں بھائی۔ اس دنیا میں اکثر اوقات ایسے واقعات ہوتے ہیں جنکا سائنس مکمل احاطہ کرنے کے باوجود جواب دینے سے قاصر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہومیوپیتھی کو ہی لے ہیں۔
کیمسٹری کے مطابق ہومیوپیتھک ادوایات میں "اصل دوا" کے ایٹمز اتنے کم ہوتے ہیں کہ فیزکل طور پر انکا انسانی جسم پر اثر ہونا ناممکن ہے۔ لیکن تجربات اور مشاہدات کے مطابق یہی ادوایات استعمال کرنے والے انسان اکثر حالات میں ایلو پیتھک ادوایات استعمال کرنے والوں سے پہلے شفایاب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ انگریزی ادوایات کے سائڈ ایفکٹس بھی لاتعداد ہوتے ہیں۔ اسکے بر عکس ہومیو پیتھک ادوایات انسانی جسم پر کوئی برا اثر نہیں ڈالتیں کیونکہ یہ علاج بالمثل کے قوانین کے تحت بنتی ہیں۔:)
اس لحاظ سے ہومیوپیتھک ایک مادی و روحانی علاج ہے۔ جسمیں دوا کے صرف چند قطرے زندگی بخش سکتے ہیں۔ ایسے کئی کیسز کا میں عینی شاہد ہوں!
 

زیک

مسافر
نہیں بھائی۔ اس دنیا میں اکثر اوقات ایسے واقعات ہوتے ہیں جنکا سائنس مکمل احاطہ کرنے کے باوجود جواب دینے سے قاصر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہومیوپیتھی کو ہی لے ہیں۔
کیمسٹری کے مطابق ہومیوپیتھک ادوایات میں "اصل دوا" کے ایٹمز اتنے کم ہوتے ہیں کہ فیزکل طور پر انکا انسانی جسم پر اثر ہونا ناممکن ہے۔ لیکن تجربات اور مشاہدات کے مطابق یہی ادوایات استعمال کرنے والے انسان اکثر حالات میں ایلو پیتھک ادوایات استعمال کرنے والوں سے پہلے شفایاب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ انگریزی ادوایات کے سائڈ ایفکٹس بھی لاتعداد ہوتے ہیں۔ اسکے بر عکس ہومیو پیتھک ادوایات انسانی جسم پر کوئی برا اثر نہیں ڈالتیں کیونکہ یہ علاج بالمثل کے قوانین کے تحت بنتی ہیں۔:)
اس لحاظ سے ہومیوپیتھک ایک مادی و روحانی علاج ہے۔ جسمیں دوا کے صرف چند قطرے زندگی بخش سکتے ہیں۔ ایسے کئی کیسز کا میں عینی شاہد ہوں!

کیا آپ نے placebo effect بارے سنا ہے؟
 

arifkarim

معطل
کیا آپ نے placebo effect بارے سنا ہے؟

جی ہاں۔ ہومیو پیتھی کے اسپیکٹس ہومیوپیتھی کو ذہنی دھوکہ سمجھتے ہیں۔ نیز کہ شیر‌خوار بچوں اور جانوروں پر اسکا اثر نہیں‌ہوتا۔۔۔
یہ ایک سمپل سائنسی دلیل ہے ہومیو پیتھی کے فراڈ کے خلاف۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
تو پھر سائنس بھاگی تو نہیں ۔ ہومیو پیتھی کی مثال آپ نے خود پیش کر دی ۔ سائینس دم دبا کر بھاگے نا بھاگے مگر کسی چیز کے ثابت ہونے پر مذہب ضرور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے جبکہ سائنس تو کہہ دیتی ہے کہ ہم ابھی نہیں جانتے ۔ مثلا ایک ہی مثال لے لیجئے کہ زمین ساکن ہے اور کتنی صدیوں سے مذہب اس پر اڑا ہوا ہے ۔
(حضرات سے گزارش ہے کہ مذہب اور دین کے فرق کو ملحوظ رکھ کر اس بات پر تبصرہ کریں(
وسلام
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھیا اور عارف بھائی،
میرا سوچنے کا یہ انداز ہے کہ جب اس کائنات میں شامل تمام اشیاء اللہ نے بنائی ہیں اور پھر ایک مینوئل آپ کو دے دیا جس میں بتایا گیا کہ زمین کی گہرائیوں میں چھپا کوئی ذرہ اور کوئی خشک اور تر چیز ایسی نہیں جس کا ذکر اس مینویل میں نہیں‌تو پھر آپ کو تمام علم دے دیا گیا ہے۔ مثال عرض کرتا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں میں پیدا ہوئی۔ فوری طور پر خیال جاتا ہے کہ نر و مادہ کے جوڑے۔ پھر کچھ اور تحقیق ہوئی کہ پودوں میں بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ پھر مزید جانچ ہوئی تو نیوٹن بولا کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔ سو قرآن کہتا ہے کہ انسان چاند پر بھی پہنچے گا۔ کائنات کے رازوں سے بھی آشنا ہوگا۔ جو بلڈنگ بلاکس ہیں وہ تو قرآن نے بیان کردئیے لیکن بہرحال یہ منشائے الٰہی نہیں ہے کہ آپ کو ایک خلائی جہاز کی ڈرائنگ قرآن میں بنا کر دکھا دی جائے۔ قرآن آپ کے شوق کو مہمیز کرتا ہے، آپ کو اشارے دیتا ہے لیکن تحقیق کا کام آپ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اب جیسے قرآن نے صدیوں پہلے انسانی فیٹس کی پیدائش کے مراحل بیان کردئیے۔ تحقیق کرنے والوں نے تو بیسویں صدی کے آخر میں آکر اس کی پڑتال کی۔ تو قرآن نے اشارے دے دئیے، انہیں استعمال کرنا اور ان پر غور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہی حال باقی سائنسی باتوں کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر جب تک کسی شے کے وجود کا علم نہ ہو، اس کی طرف انسان کا دھیان ہی نہیں جاسکتا۔
بدقسمتی سے مسلمان علماء کی اکثریت نے قرآن کو بس ایک حکمی کتاب کا درجہ دے کر اس کے معانی کو ظاہر میں قید کردیا۔ اس طرح‌اس علم و حکمت کے سمندر کو اپنے تئیں ایک چوبچہ میں ڈھال لیا ہے۔ صدیوں کی اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو چیز ان کے علم میں‌نہ ہو اس کے وجود سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں۔ اسی رویہ نے یہ تاثر پختہ کیا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے۔ قرآن درحقیقت وہ کتاب ہے جو مخلوق کو خالق اور اس کی تخلیق سے آگاہ کرتی ہے اور تخلیق میں تمامتر تخلیقات آجاتی ہیں خواہے وہ سائنسی کلئے ہوں یا نباتات و جمادات و حیوانات۔

مختصر سا تبصرہ ۔۔۔۔۔
سائنس ایک علم ہے ، موجودہ دنیا میں وجود پذیر ہوگیا ۔ اب آپ اس کو مذیب سے متصادم کرکے کیا بات ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ایک علم ہے ۔ جیسے دوسرے علم ہیں ۔ جب کہ مذہب ایمان اور عمل ( اخلاق ) کا نام ہے ۔مذہب ایمان اور عمل ( اخلاق ) کی وضاحت کرتے ہوئے قیامت کو موضوع بناتا ہے ۔ چنانچہ قرآن توحید کا ذکر کرتے ہوئے انسان ، کائنات اور دیگر چیزوں کے بارے میں اجمال میں ‌سمجھا دیتا ہے کہ اللہ کی قدرت کو سمجھا جا سکے ۔ اللہ نے انسان کو علم دیا ہے اب یہ اس کا کام ہے کہ سائنس کے میدان میں تحقیق اور ترقی کرے ۔ یہ ایک الگ میدان ہے ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اللہ کی تخلیق کردہ ہر چیز پر اللہ کی قدرت کا یقین ہے ۔ یہ ایمان ہے ۔ اس میں تحقیق کرنی ہے تو سائنس کا میدان آزمایا جائے ۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے عطا کردہ بہت سے علوم میں سے ایک علوم ہے ۔ اس سلسلے میں مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردینا کیا معنی رکھتا ہے ۔
 

خرم

محفلین
پیارے بھیا میں تو سائنس اور مذہب کو مقابل قرار دے ہی نہیں رہا۔ میں بھی تو یہی عرض کررہا ہوں کہ ایک دوسرے کا جزو ہے۔ :)
 
تو پھر سائنس بھاگی تو نہیں ۔ ہومیو پیتھی کی مثال آپ نے خود پیش کر دی ۔ سائینس دم دبا کر بھاگے نا بھاگے مگر کسی چیز کے ثابت ہونے پر مذہب ضرور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے جبکہ سائنس تو کہہ دیتی ہے کہ ہم ابھی نہیں جانتے ۔ مثلا ایک ہی مثال لے لیجئے کہ زمین ساکن ہے اور کتنی صدیوں سے مذہب اس پر اڑا ہوا ہے ۔
(حضرات سے گزارش ہے کہ مذہب اور دین کے فرق کو ملحوظ رکھ کر اس بات پر تبصرہ کریں(
وسلام

سورج کے فریم آف ریفرینس سے دیکھیں تو زمین متحرک ہے اور سوج "ساکن"۔ جبکہ زمین کے فریم آف ریفرینس سے، جہاں رہ کر ہم فلکیات کی تمام پیمائشیں کرتے ہیں اور ان میں زمین ہی کو مرکز مانا جاتا ہے، زمین ساکن ہوتی ہے۔

موجودہ سائینس کے مطابق کائینات میں کسی بھی نقطہ کو ہم مرکز (یہ دوسرے لفظوں میں ساکن) مان سکتے ہیں۔ اگر آپ زمین کو متحرک کہتے ہیں تو ساتھ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ آپ کس مقام کے لحاظ سے اسے متحرک کہتے ہیں۔ کیا سورج کو؟
آج سے کئی سو سال قبل سورج کو کائینات کا مرکز بنانے کا آئیڈیا پیش کیا گیا تھا، تاہم اب وہ فضول ثابت ہو چکاہے۔
 

ابو کاشان

محفلین
تمام گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سائنس اللہ کے اصول ہیں اور مذہب ان اصولوں پر چلنے کا نام۔
اللہ نے اصول بنایا مرکزِ محور ایک ہی ہو گا۔ ایک شے دو چیزوں کے گرد نہیں گھوم سکتی۔ اس کا نام سائنس ہو گیا۔
اللہ نے حکم دیا کہ میری واحدانیت کا اقرار کرو۔ ایک اللہ کے ہو جاؤ تاکہ یکسو ہو کر زندگی آسانی سے گزار سکو۔ یہ مذہب ہو گیا۔
؟
 

فرہادعلی

محفلین
مذ ہب اور سائنس بلکل الگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اسلام ایک دین ہے اور مذہب بھی سائنس قرآں کی تائید کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔سائنس اور اسلام ایک ہی ہیں‌۔۔۔۔۔۔۔رہی مذہب اسلام کی بات تو اس میں‌ہماری عبادات شامل ہیں‌۔۔۔۔۔
 
مذہب اور سائینس کی صحیح تعریف کیئے بغیر کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم آج کی سائینس کچھ معلومات اور تھوریاں ایسی پیش کرتی ہے جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں

مذہب اسلام اور دین اسلام کے نام سے دو علیحدہ ٹرمز مین نے آج ہی فرہاد صاحب سے سنی ہیں۔ وضاحت کر سکتے ہیں کہ ان سے آپ کی کیا مراد ہے؟
 
Top