زیرک کی پسندیدہ غزلیں

زیرک

محفلین
آج ایک نیا سلسلہ "زیرک کی پسندیدہ غزلیں" شروع کرنے جا رہا ہوں، امید ہے کہ نیا سلسلہ بھی سب احباب کو پسند آئے گا۔

جو ترے شہر میں آیا ہے اسے راضی کر
جس نے کشکول اٹھایا ہے اسے راضی کر
جو تری بزم سے جاتا ہے اسے جانے دے
جو تری بزم میں آیا ہے اسے راضی کر
تجھ پہ جادو ہے نہ آسیب نہ سایہ ہے کوئی
جس گداگر کو رُلایا ہے اسے راضی کر
میں نے مانا کہ شفا دَم میں بھی ہوتی ہے مگر
تُو نے جس جس کو ستایا ہے اسے راضی کر
آج محفل میں ترے سخت رویے کے سبب
جس کا آنسو نکل آیا ہے اسے راضی کر
جس نے راہوں میں تری پھول بچھائے تھے کبھی
جس نے ہر خار اٹھایا ہے اسے راضی کر

نامعلوم
جاسمن
 

زیرک

محفلین
نیم کی چھاؤں وہ پُروائی کہیں سے لا دو
میری بستی مری انگنائی کہیں سے لا دو
صبحِ پُر نور، حسیں شام نہ وہ بزمِ طرب
مجھ کو میری شبِ تنہائی کہیں سے لا دو
مجھ کو احساس دلائے جو مرے ہونے کا
ایک خاموش تماشائی کہیں سے لا دو
غم کی حدت سے دہکتا ہےمرا سارا وجود
آج اک دستِ مسیحائی کہیں سے لا دو
اب گراں بار گزرتی ہیں وفائیں مجھ پر
دام لے لو، دلِ ہرجائی کہیں سے لا دو
آج اس شہرِ پریشاں میں اکیلا ہوں بہت
مجھ کو اے وقت مرے بھائی کہیں سے لا دو
چیختے رہتے ہیں سناٹے شب و روز امیؔن
کھوئی اس شہر کی رعنائی کہیں سے لا دو
 

زیرک

محفلین
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بیوفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن؟
سدا تو آئی تھی لیکن کوئی دُہائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیؔر
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

نصیر ترابی
 

زیرک

محفلین
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو
نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتہ دِلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستہ اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھُلا چکا وہ تجھے تُو بھی بھُول جا اس کو

نصیر ترابی
 

زیرک

محفلین
یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے، دلِ خونچکاں ہو تو لے کے آ
یہ فضا ہے عنبر و عود کی، یہ محل ہے وردِ درود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہے، کوئی خوش اذاں ہو تو لے کے آ
یہ جو اک عزا کی نشست ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ
یہ عَلَم ہے حق کی سبیل کا، یہ عَلَم ہے اہلِ دلیل کا
کہیں اور ایسی قبیل کا، کوئی سائباں ہو تو لے کے آ
یہ حضور و غیب کے سلسلے، یہ متاعِ فکر کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوِداں ہو تو لے کے آ
سرِ لوحِ آب لکھا ہوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تولے کے آ
ترے نقشہ ہائے خیال میں، حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطۂ آب و گِل، تہہِ آسماں ہو تو لے کے آ
کبھی کُنجِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سُوئے بیتِ شبیب جا، کوئی ارمغاں ہو تو لے کے آ
مرے مدّ و جزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لے کے آ
نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں، میں نصیر صرف نصیؔر ہوں
مرے حرفِ ظرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ

نصیر ترابی
 

زیرک

محفلین
زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے، ترے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی، تو کوئی خواب دکھاتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اٹھاتے گزری
زندگی جس کے مقدر میں ہو خوشیاں تیری
اُس کو آتا ہے نبھانا، سو نبھاتے گزری
زندگی نام اُدھر ہے، کسی سرشاری کا
اور اِدھر دُور سے اک آس لگاتے گزری
رات کیا آئی کہ تنہائی کی سرگوشی میں
ہُو کا عالم تھا، مگر سُنتے سناتے گزری
بارہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی
کس کی آواز تھی، یہ کس کو بلاتے گزری

نصیر ترابی
 

جاسمن

لائبریرین
آج ایک نیا سلسلہ "زیرک کی پسندیدہ غزلیں" شروع کرنے جا رہا ہوں، امید ہے کہ نیا سلسلہ بھی سب احباب کو پسند آئے گا۔

جو ترے شہر میں آیا ہے اسے راضی کر
جس نے کشکول اٹھایا ہے اسے راضی کر
جو تری بزم سے جاتا ہے اسے جانے دے
جو تری بزم میں آیا ہے اسے راضی کر
تجھ پہ جادو ہے نہ آسیب نہ سایہ ہے کوئی
جس گداگر کو رُلایا ہے اسے راضی کر
میں نے مانا کہ شفا دَم میں بھی ہوتی ہے مگر
تُو نے جس جس کو ستایا ہے اسے راضی کر
آج محفل میں ترے سخت رویے کے سبب
جس کا آنسو نکل آیا ہے اسے راضی کر
جس نے راہوں میں تری پھول بچھائے تھے کبھی
جس نے ہر خار اٹھایا ہے اسے راضی کر

نامعلوم
جاسمن

بہت خوب!
زبردست!
 

زیرک

محفلین
خود حجابوں سا، خود جمال سا تھا
دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا
عکس میرا بھی آئینوں میں نہیں
وہ اک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا تھا خیمۂ گل
دوریوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم کہ لازوال سا تھا
خوف اندھیرے کا، ڈر اجالوں سے
سانحہ تھا، تو حسب حال سا تھا

ادا جعفری
 

زیرک

محفلین
زباں کو حکم، نگاہِ کرم کو پہچانے
نگہ کا جرم غبارِ الم کو پہچانے
وہ ایک جام کہاں ہر کسی کی قسمت میں
وہ ایک ظرف کہ اعجاز‌ سم کو پہچانے
متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں
جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے
وہ دل جو خاک ہوئے آج تک دھڑکتے ہیں
رہِ وفا ترے معجز رقم کو پہچانے
سحر سے پہلے یہاں آفتاب ابھرے ہیں
خلوصِ بندگیٔ چشم نم کو پہچانے
یہ خود فریب اجالے یہ ہاتھ ہاتھ دیئے
دیئے بجھاؤ کہ انسان غم کو پہچانے
کسی خیال کا سایہ کسی امید کی دھوپ
کوئی تو آئے کہ دل کیف و کم کو پہچانے
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے
جو ہمسفر بھی رہے ہیں شریک منزل بھی
کچھ اجنبی تو نہ تھے پھر بھی کم کو پہچانے
بہت دنوں تو ہواؤں کا ہم نے رخ دیکھا
بڑے دنوں میں متاعِ قلم کو پہچانے

ادا جعفری
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں دیارِ کم نظراں
یتیم خانۂ اداک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
کھلے سروں کا مقدر بفیض جہلِ خرد
فریب سایۂ افلاک کے سوا کیا ہے
یہ میرا دعوئٰ خود بینی و جہاں بینی
مری جہالتِ سفاک کے سوا کیا ہے
تمام عمر کا حاصل بفضلِ ربِ کریم
متاعِ دیدۂ نمناک کے سوا کیا ہے
جہانِ فکر و عمل میں یہ میرا زعمِ وجود
فقط نمائشِ پوشاک کے سوا کیا ہے

حمایت علی شاعر
 

زیرک

محفلین
یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں
اک سراب تشنگی ہے موجۂ صہبا یہاں
روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی
آپ کے بس میں نہیں ہے آپ کا سایہ یہاں
آتے آتے آنکھ تک دل کا لہو پانی ہوا
کس قدر ارزاں ہے اپنے خون کا سودا یہاں
تیرے میرے درمیاں حائل رہی دیوارِ حرف
رکھ لیا اک بات نے ہر بات کا پردا یہاں
دیکھیے تو یہ جہاں ہے اک جہان آب و گل
سوچیے تو ذرے ذرے میں ہے اک دنیا یہاں

حمایت علی شاعر
 

زیرک

محفلین
آج اے دل لب و رخسار کی باتیں ہی سہی
وقت کٹ جائے گا کچھ پیار کی باتیں ہی سہی
یوں تو کٹتی ہی رہے گی غمِ دوراں میں حیات
آج کی رات غمِ یار کی باتیں ہی سہی
زندہ رہنے کی کبھی تو کوئی صورت نکلے
عشرتِ عالمِ دیدار کی باتیں ہی سہی
کوئی تو بات چِھڑے آج بہت جی ہے اداس
کم سے کم رحمتِ اغیار کی باتیں ہی سہی
اب تو تنہائی کو یہ کرب نہ ہو گا برداشت
کچھ نہیں تو در و دیوار کی باتیں ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے انہیں قُربت گُل تو ہے نصیب
آج گُل کی نہ سہی، خار کی باتیں ہی سہی
یہ تو طے ہے کہ جئے جائیں گے ہر حال میں ہم
ان کے لب پر رسن و دار کی باتیں ہی سہی

حمایت علی شاعر
 

زیرک

محفلین
کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں سے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زُود فراموش، زُود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

احمد فراز
 

زیرک

محفلین
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری کا شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول چھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گُلِ مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متّصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فؔراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز
 

زیرک

محفلین
لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی
میں نے ہنستے ہوئے پھر کوچ کی تیاری کی
مجھے جس رات سمندر نے اتارا خود میں
میں نے اس رات بھی ساحل کی طرفداری کی
میں نے گریہ کو بھی آداب کے اندر رکھا
اپنے اعصاب پہ وحشت نہ کبھی طاری کی
نقشِ پا ڈھونڈتا پھرتا ہے سحر کا وہ بھی
جس نے اک رات گزاری نہیں بیداری کی
دل میں بھر لایا ہوں محرومئ دنیا سجاؔد
آج بازار سے جی بھر کے خریداری کی

سجاد بلوچ
 

زیرک

محفلین
مِرے بدن سے مت لِپٹ حواس باختہ ہوا
بجھے چراغ سے تِرا کہاں کا واسطہ ہوا
نہ تالیاں بجا مِرے بکھرتے بال و پر پہ یوں
تِری طرف پلٹ پڑے خدانخواستہ ہوا
غبار اڑاتی مقتلوں سے مکتبوں تک آ گئی
نجانے کون وحشتوں کی فیض یافتہ ہوا
سنا ہے اب تو وہ بھی راستوں کی دھول ہو گئے
کہ جن سے پوچھتی تھی میرے گھر کا راستہ ہوا
فضا میں اڑ رہے ہیں پر سفید فاختاﺅں کے
چمن میں چل رہی ہے ایک ناشناختہ ہوا
سنا ہے اس کو بھی نئی فضا میں چین آ گیا
مجھے بھی راس آ گئی یہ ہجر ساختہ ہوا

سجاد بلوچ
 

زیرک

محفلین
یہ دھند، صبحِ زمستاں، یہ برفزار اور میں
لہو میں تازہ تِرے وصل کا خمار اور میں
یہ خواب جیسی حسیں صبحِ وادئ کالام
پھر اس پہ تیری توجہ کا اعتبار اور میں
یہ ریستوران کا ٹیرس، یہ صبح کی چائے
تمہارے نیند سے اٹھنے کا انتظار اور میں
تمہاری چاپ پہ مرکوز ہے سماعتِ خاک
یہ کیا سکوں ہے کہ ہوتا ہوں بیقرار اور میں
اتر رہے ہیں بلندی سے پانیوں کی طرف
بڑے سکوں سے خیالوں کے آبشار اور میں
ترے وجود کی خوشبوئے لمس سے پہلے
کب ایسے سبز ہوئے تھے یہ مرغزار اور میں

سجاد بلوچ
 

زیرک

محفلین
یہی منظر تھے انجانے سے پہلے
تمہارے شہر میں آنے سے پہلے
زمیں کی دھڑکنیں پہچان لینا
کوئی دیوار بنوانے سے پہلے
پلٹ کر کیوں مجھے سب دیکھتے ہیں
تمہارا ذکر فرمانے سے پہلے
نہ جانے کتنی آنکھیں منتظر تھیں
ستارے بام پر آنے سے پہلے
دریچے بند ہو جاتے ہیں کتنے
یہاں منظر بدل جانے سے پہلے

عنبرین صلاح الدین
 

زیرک

محفلین
رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے
رات کی آنکھیں جان چکی ہیں، کس کے پاس کہانی ہے
جب اس کی وسعت سے نکلے میری وحشت، خواب، سراب
دامن جھاڑ کے دشت پکارا، "اب کیسی ویرانی ہے"
منظر ہے کھڑکی کے اندر یا ہے کھڑکی سے باہر
گردوں کی گیرائی ہے یا خاک نے چادر تانی ہے
کوندے سے لپکے پڑتے ہیں چٹکی بھر نیلاہٹ سے
تاروں میں منظر کھلنے سے پہلے کی حیرانی ہے
آپ کہیں تو تین زمانے ایک ہی لہر میں بہہ نکلیں
آپ کہیں تو سب باتوں میں ایسی ہی آسانی ہے
اپنے اپنے طرز سخن میں، اپنے اپنے دل کی بات
آپ کہیں تو دانائی ہے، ہم کہہ دیں نادانی ہے
رات کی چادر تہہ ہونے تک، دھوپ کا جادو کھلنے تک
دروازے کے بند کواڑوں نے کیا بات چھپانی ہے
جتنے پَل تک رقص کریں گی کرنیں برف کی قاشوں پر
کُہساروں کے دامن میں بھی تب تک ایک کہانی ہے

عنبرین صلاح الدین
 
Top