اقبال زُہد اور رِندی

زبیر احمد

محفلین
اِک مولوی صاحب کی سُناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دِکھانی

شُہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنَشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اَعالی و اَدانی

کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوُّف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مُضمَر ہوں مَعانی

لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی

کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی

مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی

حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبال ، کہ ہے قمری شمشاد معانی

پابندی احکام شریعت میں ہے کیسا؟
گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی

ہے اس کی طبیعت میں تشیُّع بھی ذرا سا
تفضیل علیؑ ہم نے سنی اس کی زبانی

سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی

کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے
بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

مجموعہ اضداد ہے ، اقبال نہیں ہے
دل دفتر حکمت ہے ، طبیعت خَفَقانی

رِندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصورؒ کا ثانی

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تا دیر رہی آپ کی یہ نَغْز بیانی

اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں
میں نے بھی سنی اپنے احبا کی زبانی

اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد
پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی

فرمایا ، شکایت وہ محبت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی

میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا زِ رہِ قرب مکانی

خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے
پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی

گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اَشک فِشانی

اقبال بھی "اقبال" سے آگاہ نہیں ہے
کُچھ اِس میں تَمَسخُر نہیں، واللّٰہ نہیں ہے
 
Top