زور و ثبات و تاب و تواں مرتضیٰ علی - میرتقی میر

حسان خان

لائبریرین
زور و ثبات و تاب و تواں مرتضیٰ علی
امیدگاہِ خورد و کلاں مرتضیٰ علی
مقصودِ خلق و خواہشِ جاں مرتضیٰ علی
ذکرِ روان و وردِ زباں مرتضیٰ علی
جو کچھ کہو سو اپنے ہیں ہاں مرتضیٰ علی
اس کی ولا ہے باعثِ بہبودِ کائنات
اس کی ولا ہی شرط پڑی ہے پئے نجات
کیا کیا نمود کرتے ہیں اس سے عجائبات
وا ہو جو چشمِ دل تو تماشا ہے اس کی ذات
یکتائے عرصۂ دو جہاں مرتضیٰ علی
ہرچند کام ایسی جگہ کیا کرے سمجھ
اس راز کو سمجھ جو سکے تو ارے سمجھ
یعنی نہ ذاتِ پاک سے اتنا ورے سمجھ
عقلِ نخست سے بھی اسے کچھ پرے سمجھ
ہے آنسوئے خیال و گماں مرتضیٰ علی
موجود اس کے ہونے سے روشن جہاں ہوا
اس پردے میں جو تھا پسِ پردہ عیاں ہوا
فرمانِ شاہِ بحر و بر ان پر رواں ہوا
پیرِ زمانہ دیدۂ عالم جواں ہوا
چشم و چراغِ کون و مکاں مرتضیٰ علی
شخصیت ایسی کس کی تھی کس کو تھا یہ شرف
اسقدر ساتھ کون بغیر از شہِ نجف
اللہ رے زور کوئی نہ اس کا ہوا طرف
دریائے موج خیز تھا اس کے کرم کا کف
ابنِ عمِ رسولِ زماں مرتضیٰ علی
ہرچند ہے یہ عرصہ ہمیشہ سے پرغبار
یارانِ رفتہ کے بھی تردد ہیں یادگار
لیکن کہاں یہ حربے کہاں ایسے مردِ کار
نکلی نہ ویسی تیغ کہ جیسی تھی ذوالفقار
دیکھا نہ تھا وہ جیسا جواں مرتضیٰ علی
پامالِ راہ اُس کے ہیں سرہائے پرغرور
نزدیک اہلِ عقل کے رتبہ ہے اسکا دور
شائستۂ سجود سمجھتے ہیں ذی شعور
ہے جملہ تن منزّہ و سر تا قدم ہے نور
اس بے نشاں سے دے ہے نشاں مرتضیٰ علی
آیا ہے یہ جو شاہدِ غیبی شہود میں
لایا ہے اُس کو شوق ہی اس کا وجود میں
انداز کیسے کیسے ہیں اس کی نمود میں
گہ سر فرو نہ لاوے گہے ہو سجود میں
ہے خلوتیِ رازِ نہاں مرتضیٰ علی
کب گفتگو انہوں سے ہے جن میں ہے بے تہی
کاہے کو اس طریق پہ ہیں محوِ گمرہی
ختمِ رسل کو قدر سے ہے اس کی آگہی
قربان اس کے در کے گدا پر سے کی شہی
خورشیدِ چرخِ عزت و شاں مرتضیٰ علی
چوتھا مصرعہ ایسا ہی درج ہے، لیکن مجھے سمجھ نہیں آیا
بارے چھپا ہو کوئی تو اُس کو جتائیے
جو بے بصر ہیں اُن کے تئیں کچھ سجھائیے
خورشید کو اشاروں سے کب تک بتائیے
روشن ہے سب پہ بات عبث کیا بنائیے
حاجت نہیں بیاں ہے عیاں مرتضیٰ علی
وہ جانے جس کو اور کسو سے کچھ ہووے کام
شام و سحر یہاں تو وظیفہ اسی کا نام
میلانِ دل ہے میر غرض اُس طرف تمام
سرمایہ دو جہاں کا ہے اپنا یہی امام
یاں مرتضیٰ علی ہے وہاں مرتضیٰ علی

(میر تقی میر)
 
Top