زندہ مُردہ - خورشید احمد - ہیملٹن، کناڈا

کاشفی

محفلین
زندہ مُردہ
از: خورشید احمد - ہیملٹن، کناڈا

(یہ کہانی بالکل حقیقی ہے، میں نے صرف مرحوم کی روح کی تسکین کے لیئے اُنکا نام بدل دیا ہے۔۔۔)

علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل میں ایک منتظم تھے جنکا نام اسرارالحق تھا۔۔۔وہ بہت بدمزاج تھے اور ہمیشہ لڑکوں پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر اُنکو ڈانٹ دیا کرتے تھے۔۔۔لڑکے اُن سے تنگ آچکے تھے لیکن اُن سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ حضرت کافی عمر رسیدہ تھے اور اُن نوجوانوں کی کیا مجال تھی کہ وہ اُن سے کوئی گستاخی کر سکتے۔۔۔۔
آخر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو کچھ لڑکوں‌نے طے کیا کہ اِن حضرت کو کچھ سبق سکھانا ہی پڑے گا۔۔۔بہت بحث و مباحثہ ہوا، بہت سی تجاویز پیش ہوئیں۔۔۔۔مثلئہ یہ تھا کہ بلی کے گلے میں‌گھنٹی کیسے باندھی جائے؟ آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ اُنکی ایک کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر جلد از جلد اُنہیں دوسرے جہان میں بھیج دیا جائے۔۔۔!!!

گرمیوں کا موسم تھا۔۔۔ سب کمروں کے باہر میدان میں چارپائیوں پر سوتے تھے۔۔اسرار صاحب بھی وہیں سوتے تھے۔۔وہ بڑی گہری نیند سوتے تھے۔۔۔اور جب تک اُنکی نیند پوری نہ ہو جائے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی اُنکو جگا سکے، چاہے کتنا ہی شور و غُل ہوتا رہے۔۔۔۔اسی وجہ سے وہ فجر کی نماز بھی ہمیشہ قضا ہی پڑھتے تھے۔۔۔۔۔
ایک دن علیَ الصبح جبکہ اسرار صاحب زوروں سے خراٹے لگا رہے تھے، آٹھ دس لڑکوں نے اُنکے اوپر ایک سفید چادر ڈال دی اور بڑی احتیاط سے اُنکی چار پائی اُٹھا کر کندھوں پر رکھی اور قبرستان کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔۔اسرار صاحب کسی گہرے خواب میں انٹاغفیل تھے۔۔۔۔قبرستان قریب ہی تھا اور آس پاس کہ رہنے والے لوگ قبرستان کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھنے کیلئے جارہے تھے۔۔۔انہوں نے جنازہ جاتے دیکھا تو وہ بھی جنازہ میں شریک ہو گئے۔۔۔۔۔اور باری باری میت کو کاندھا دینا شروع کر دیا۔۔۔۔لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی۔۔۔اور وہ لڑکے جو اُس جنازے کو لے کر روانہ ہوئے تھے۔۔آہستہ آہستہ پیچھے سرکتے گئے۔۔اور وہاں سے خاموشی سے کھسک گئے۔۔۔۔۔۔


بوجھ اتنا بھر گئی تھی روحِ سُبک نکل کے
ایک اک کا منتظر تھا دو چار گام چل کے

حالانکہ گھر سے تُربت کچھ دُور نہ تھی اپنی
پہونچا میرا جنازہ کاندھے بدل بدل کے

جب جنازہ قبرستان کی مسجد پہنچا تو وہاں کے مولوی صاحب گھبرا کے بولے "ارے یہ کیا؟" آپ لوگ صبح ہی صبح جنازہ لے آئے۔۔ہمیں تو کسی نے قبر کھودنے کی اطلاع بھی نہیں‌کی۔۔۔کس کا جنازہ ہے۔۔۔؟ کون اس میت کا وارث ہے۔۔؟"۔۔۔۔
سب لوگ ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے۔۔۔۔کسی نے بھی اقرار نہیں‌کیا۔۔۔مولوی صاحب نے قریب آکر کہا "ذرا دیکھیں تو یہ میت کس کی ہے۔۔۔؟"۔۔۔ اُنہوں نے منہ سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ مُردہ آہستہ آہستہ خراٹے لے رہا تھا۔۔۔۔!!! مولوی صاحب یکایک چیخ پڑے۔۔۔"ارے مُردہ تو زندہ ہے۔۔۔!! استغفراللہ۔۔۔۔"۔۔۔مولوی صاحب کی چیخ سن کر اسرار صاحب جاگ گئے اور ہڑبڑا کر اُٹھ گئے۔۔۔۔چاروں طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔سب لوگ ہیبت سے پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔اسرار صاحب کو ہوش آنے میں چند لمحے لگے اور چاروں طرف مجمعہ اور قبریں دیکھ کر بوکھلا گئے۔۔۔۔کیا یہ حقیقت ہے یا کوئی ہیبت ناک خواب۔۔۔؟۔۔۔اک دم سے اُنکو یہ احساس ہوا کہ یہ مردُود اُنہیں زندہ دفنانے کی سازش کر رہے ہیں۔۔۔اور نمازِ جنازہ کی تیاریاں‌ ہو رہی ہیں۔۔۔بس اپنی جان بچانے کیلئے فوراََ اُٹھ کر بھاگے۔۔۔۔لوگ اُنکے پیچھے بھاگے۔۔۔۔تھوڑی دور اُنکا تعقب کیا پھر اُنہیں احساس ہوا کہ ضرور یہ کسی نوجوان کی شرارت تھی۔۔۔لہذا سب لوگ ہنستے ہوئے واپس چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرار صاحب ہانپتے کانپتے ہوسٹل میں واپس پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں پر یہ خبر پھیل چکی تھی کہ آج اسرار صاحب کا جنازہ قبرستان کی طرف روانہ ہو چُکا ہے۔۔۔تمام لڑکے جمع تھے۔۔۔لیکن اسرار صاحب کس کو الزام دیتے۔۔دل ہی دل میں خفا تو بہت ہوئے لیکن تیزی سے بھیگی بلی کی طرح اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تین دن تک کمرے سے باہر نہ نکلے۔۔۔۔۔۔۔اور آئندہ سے لڑکوں سے کترانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔اور اُنکو برا بھلا کہنا چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دنوں بعد وہ نوکری چھوڑ کر کہیں دور چلے گئ۔۔۔۔
یوں سمجھے کہ اسرار صاحب کو اُنکی عارضی موت سے ایک نئی زندگی مل گئی اور لڑکوں کو اُن سے دائمی نجات۔۔۔۔۔!!۔۔

(ختم شد)
 
Top