جگر زندگی ہے مگر پرائی ہے (جگر مراد آبادی)

زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے

جب مسرت قریب آئی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے

حسن نے جب شکست کھائی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے

عشق کو زعمِ پارسائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے

ہائے وہ سبزہء چمن کہ جسے
سایہء گل میں نیند آئی ہے

عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں
زندگی نے شکست کھائی ہے

خاکِ منزل کو منہ سے ملتا ہوں
یادگارِ شکستہ پائی ہے

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ‌دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے

ہجر سے شاد‘ وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے

(جگر مراد آبادی)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ عمران صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!

ایک استدعا یہ کہ عنوان میں ہمیشہ غزل کے مطلع یا پہلے شعر کا مصرعِ اولی ہی دیا جاتا ہے سو میں نے عنوان میں اسے صحیح کر دیا ہے، امید ہے آئندہ آپ بھی خیال رکھیں گے، نوازش آپ کی۔
 
شاہ جی بہت شکریہ!

وارث صاحب!

میں تو ممنون ہوں زمانے کا
سیکھ لیتا ہوں جو سکھاتا ہے

آئندہ خیال رکھا جائے گا۔
 
Top