ساغر صدیقی زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح

زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح
دل کے ارمان ہیں بجتی ہوئی جھانجن کی طرح

زلف رخسار پہ بل کھائی ہوئی کیا کہنا !
اِک گھٹا چھائی ہوئی چیت میں ساون کی طرح

بحرِ امید میں جب کوئی سہارا نہ ملا
میں نے ہر موج کو دیکھا ترے دامن کی طرح

جس طرف دیکھئے ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں
اب تو نغمات بھی ہیں نالہ و شیون کی طرح

بارہا گردشِ تقدیر کا عالم دیکھا!
گیسوئے یار کی بے نام سی الجھن کی طرح

انقلاباتِ بہاراں ہیں، قفس بھی ساغرؔ
میں نے جلتے ہوئے دیکھا ہے نشیمن کی طرح
ساغرؔ صدیقی
 
Top