کاشفی
محفلین
زندگی
(جلیل - 1920)
کیا کیا فریب دے کے ستاتی ہے زندگی
ہر دم ہنسا ہنسا کے رُلاتی ہے زندگی
بیزار کیسے کوئی بھلا اس سے ہوسکے
انساں کو سو طرح لُبھاتی ہے زندگی
روٹھے جو ایک دفعہ دل اس سے تو لاکھ بار
دے کر فریب اس کو مناتی ہے زندگی
آئے جو کوئی پاس تو کہتی ہے "دور ہو"
اور دُور ہو تو پاس بُلاتی ہے زندگی
ہنستا کسی کو پا کے رُلاتی ہے اشکِ خوں
روئے کوئی تو اس کو ہنساتی ہے زندگی
امیدوار دل ہو تو یہ توڑتی ہے آس
مایوس ہو تو آس بندھاتی ہے زندگی
کوئی ڈرائے اس کو تو ڈرتی ہے اس سے یہ
کوئی ڈرے تو اور ڈراتی ہے زندگی
حاوی اگر ہو کوئی تو رہتی ہے یہ دبی
اور جو دبے تو اُس کو دباتی ہے زندگی
گرتا ہے خود ہی طائرِ دل آکے سر کے بَل
رنگیں دام ایسا لگاتی ہے زندگی
گر کوئی ہوشیار نہ ہوتا ہو یوں شکار
حرص و ہوس کا جال بچھاتی ہے زندگی
اک عمر ڈھونڈھنے پہ بھی جن کی ملے نہ چھاؤں
کچھ ایسے سبز باغ دکھاتی ہے زندگی
پھر کر کے غم سے جان کی بنیاد کھوکھلی
گھُن کی طرح سے جسم کو کھاتی ہے زندگی
جب تک ہے سانس جسم میں، ہے چھوٹنا محال
پنجے میں اپنے ایسا دباتی ہے زندگی
پورے کسی کے کرتی ہے لاکھوں تو بے شمار
ارمان خاک میں بھی ملاتی ہے زندگی
بے بال و پر کو قوتِ پرواز بخش کر
رفعت پہ آسماں کی بٹھاتی ہے زندگی
جو خاک پر ہیں اُن کو تو دیتی ہے اوجِ عرش
عرش پر ہیں اُن کو گراتی ہے زندگی
اہلِ ہوس کو تخت جواہر نگار پر
کچھ دن بٹھا کے عیش کراتی ہے زندگی
پھر ایک دن گھسیٹ کے ان کو کشاں کشاں
فرشِ زمیں پہ لاکے سُلاتی ہے زندگی
لاکھوں ہی گھر مٹا کے بساتی ہے ایک گھر
سوجان لے کے ایک بناتی ہے زندگی
کتنوں کا خون چوس کے کچلتی ہے ایک جان
حیرت ہے زندگی ہی کو کھاتی ہے زندگی
نیکی کسی کی ہو تو اُسے خاص طور پر
اک راز کی طرح سے چھپاتی ہے زندگی
اور ہو کہیں جو کوئی براتی تو دیکھئے
عالم میں ایک شور مچاتی ہے زندگی
قائم ہے کس طرح سے سروں پر یہ آسماں
منظر تو رات دن یہ دکھاتی ہے زندگی
مجھ کو یہ ڈر ہے طبقہء عالم اُلٹ نہ جائے
دنیا سے ذکرِ خیر مٹاتی ہے زندگی
مکّار و حیلہ ساز، سیہ کار و خود غرض
شیطان آدمی کو بناتی ہے زندگی
انساں عجب ہے طفلکِ ناداں جسے جلیل
جس راہ چاہتی ہے چلاتی ہے زندگی