زندان ِ صدآشوب

ٹی وی چینلز پر ایک معصوم ننھی بچی زارو قطار روتی دیکھی توبے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ بچی صومالی بحری قزاقوں کے ہاتھوں آٹھ ماہ قبل یرمغال بنائے گئے مصری بحری جہاز ایم وی سویز پر موجود چار پاکستانیوں میں سے ایک کیپٹن وصی حسن صاحب کی بیٹی تھی جو گذشتہ کئی ماہ سے اپنے بابا جانی کی جدائی سے نڈھال ان کی رہائی کیلئے تاوان کی رقم پوری کرنے کیلئے اپنی سہمی ہوئی بھیگی آنکھوں سے ساری قوم اور عالم ِ انسانیت سے اخلاقی و مالی امداد اور حکومت پاکستان سے خصوصی سفارتی کوششوںکیلئے خاموش سوالی تھی ۔ دوسرے ہی لمحے اسی چینل پر ایک رپورٹ نشر ہو رہی تھی کہ بھوک ، معاشی بدحالی اور لوڈشیڈنگ میں سسکتی ہوئی مفلس قوم کے اطالوی برانڈکینالی سوٹ پہننے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی پرزورکوششوںسے دارالحکومت اسلام آباد میں کئی ارب روپوں کی لاگت سے جدید پارلیمنٹ لاجز بنانے کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے جس کو پارلیمنٹ ہاوس سے ملانے کیلئے ایک جیدی ترین زیر زمین سرنگ بھی تعمیر کی جائے گی ایک دوسرے بدیسی ٹی وی چینل پروائٹ ہاو ¿س امریکہ کا نمائیندہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر لیبیا کی حکومت کو عوام دشمن قرار دے کر اس کے ظلم و ستم سے عوام کوآزاد کروانے کیلئے کیے جا رہے حملوں کو انسانیت کی عظیم ترین خدمت ثابت کر کے سامراجی جارحیت کا ناقابل فہم مگر عالم انسانیت کے نام نہاد مسیحاو ¿ں، نیو گلوبل آرڈر کے مختار خاص ٹھیکیداروں اور سلامتی کونسل کے چوہدریوں کیلئے قابل قبول جواز پیش کر رہا تھا کہ اتنے میں دو بڑے سیاسی گروپوں میں ہونے والے مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات کے موقع پر برقی قمقموں کی روشنی میں نہائی ہوئی پرتکلف ضیافت میں اپنے خون کے پیاسے سیاسی مخالفوں سے گلے ملنے اور سیاسی گپ شپ کی ویڈیوز پر مبنی رپورٹ چل رہی تھی اور میںسوچ رہا تھا کہ ممکن ہے ان ارب پتی سیاست دانوں ، جاگیرداروں اور وڈیروں نے کیپٹن وصی حسن کی روتی ہوئی بیٹی کی فریاد سنی ہی نہ ہو ورنہ کروڑوں روپے خرچ کر کے ایسی پر تعیش سیاسی ضیافتوں کا اہتمام کرنے والوں کیلئے تو دو چار کروڑ روپے خرچ کر کے کسی مجبور اور بے سہارا کو آزادکراناتو کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ اتنے میں میرا بیٹا بولا بابا کیاان لوگوں کے علاقے میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اور کیا یہ وزیر اور حکومتی اہلکار اپنے واپڈا والوں کی طرف سے بجلی کے کم سے کم استعمال کے پیغامات بجلی کے بلوں ، ٹی وی ، ریڈیو اور اخباری اشتہارات نہیں پڑھتے ؟ لیکن میں خاموش رہا کہ اس معصوم کو کیا پتا کہ سرمایہ دار اور کروڑ پتی طبقے پر لوڈشیڈنگ کا زہر بے اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ گلیوں بازاروں میں بجلی کے سرکاری تاروں پر بھی سر عام کنڈیاں ڈال لیتے ہیں اور انہیں تحفے میں ملنے والے جنریٹروں کو پلانے کیلئے پٹرول کا خرچہ بھی کسی تکلیف کا باعث نہیں ہوتا یہ تو وہ کلاس ہے کہ جس کیلئے آٹاپانچ سو روپے کلو اور دودھ ہزار روپے فی لٹر بھی ہو جائے توان کی قوت خرید متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی بجلی ،گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھنے سے ان کے گھر کا بجٹ خراب ہوتا ہے، سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں اور نصابی کتابوں کی عدم دستیابی ان لوگوں کیلئے کوئی درد سر نہیں کہ ان کے بچے تو سات سمندر پار مہنگی ترین مغربی درسگاہوں میں ولائتی تعلیم اوررنگ رنگیلے ماحول کے مزے ایک ساتھ لوٹ رہے ہیں۔ میں اپنے اور اپنی قوم کے سب بچوں کو یہ بات کیسے سمجھاو ¿ں کہ ان جاگیردار سیاستدانوں کو عالیشان بنگلے بنانے کیلئے پلاٹ مفت سے بھی ارزاںسرکاری ریٹوں پر مل جاتے ہیں۔ ان کو دیو مالائی بیڈ رومز اور ہالی وڈ جیسے ڈرائینگ رومز کیلئے انٹیریر ڈیکوریشن کا سامان بھی تحائف کی صورت میں مل جاتا ہے یہ الف لیلی کی داستانوں جیسی عقلِ انسانی سے ماورا اس جادو نگری میں رہتے ہیں جہاں سونا پچاس ہزار روپے تولہ بھی ہو تو ان کو صرف ایک سو ساٹھ ڈالرز میں سونے کی پوری کان کا ٹھیکہ مل جاتا ہے اور شاید اسی لئے ان لوگوں کے غسل خانوں میں نلکے ، ٹوٹیاں اور لوٹے بھی سونے کے ہوتے ہیں۔ ان کو اشیاءصرف یا اشیائے تعیش خریدنے کیلئے پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے اس لئے ان کا سارا روپیہ پیسہ اور جمع پونجی سوئٹزرلینڈ ، اسپین،فرانس، انگلینڈ اور امریکہ کے بینکوں میں پڑی رہتی ہے ۔میرا دوسرا بیٹا بولا بابا وہ امریکہ تو اتنا بہادر ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہزاروں میل دوربھی لوگوں کو ظلم سے بچانے کیلئے عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، مصر اور شام تک کے دہشت گردوں کو سبق سکھا نے چلا جاتا ہے تو کیا امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ صومالیہ کے ان چند بحری قزاقوںکو سبق سکھا سکیں جو مجبور اور بے گناہ لوگوں کو یرمغال بنا کر تاوان کی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں ، کیا یہاں ان بحری قزاقوں پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا جرم لاگو نہیں ہوتا یا امریکہ اور اس کی اتحادی فوجیں ان بے گناہ یرمغالیوں کو بچانے کیلئے اس سمندر تک جانے کا راستہ نہیں جانتیں؟ میں بولا نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کا ساتوں ، آٹھواں یا گیارواں بحری بیڑا تو صرف مسلمانوں کا بیڑا ڈبونے یا نہتے مسلمانوں کی سرکوبی کیلئے ہی نکلتا ہے، امریکی زمینی دستے ویت نام کے غریب عوام، عراق، افغانستان کے نہتے شہریوں پر گولیاں اور بم برسانے کیلئے ہے،امریکی فضائیہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو موت کے مونہہ میں دھکیل سکتی ہے امریکی جنگی طیارے ترکی، بحرین ، مصر اور سعودی عرب کے ہوائی اڈوں پر کسی بھی انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میںحملہ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن اننت ناگ اور سرینگر وغیرہ ان کیلئے نو گو ایریاز ہیں۔ہماری حکومت کے وزرا اور مشیر اپنے بچوں کے ایڈمیشن کیلئے یورپی اور امریکی سفیروں سے مدد مانگتے ہیں ، کسی سرمایہ داریا صنعت کار کے بچے کے اغوا کی صورت میں پوری ملکی اور غیر ملکی مشینیری حرکت میں آ جاتی ہے مگر ایک معصوم بچی کے یرمغالی باپ اور مظلوم پاکستانیوں کو بحری قزاقوں کے چنگل سے آزاد کروانے کیلئے نہ امریکہ کے فرعونوں میں جرات ہے اور نہ پاکستان کے انسان دوست اور غریب پرورحکمرانوں میں اتنی غیرت کہ وہ اپنے شہریوں کی بازیابی کیلئے کوئی جدوجہد یا حتیٰ کہ سفارتی کوششیں بھی کریں۔ یہ حکمران پارلیمنٹ لاجز بنانے پر اربوں روپے خرچ کر کے کروڑوں کی کمیشن بنا سکتے ہیں مگر کسی ننھی معصوم بچی کے باپ کو آزاد نہیں کرا سکتے۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک بریکنگ نیوز چلی ، میرا بیٹا غمگین آواز میں بولا ،،بابا معین اختر مر گیا،، اور میرا کلیجہ بیٹھ گیا میری آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی اور میں خود سے کہہ رہا تھا کہ پہلے مستانہ، پھر ببو برال اور اب یہ معین اختر بھی اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے ، میری بیوی بھی کچھ دیرٹی وی سکرین کوافسردہ نظروں سے دیکھتی رہی پھر بولی، ہاں صاحب اس قوم کو مسکراہٹیں بانٹنے والے تو ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو رہے ہیں مگر دکھ ،درد ،آہیں اورآنسو بانٹنے والے سیاست دانوں کی رسی اللہ نے دراز کر رکھی ہے، میں نے اس کے غمگین اور اداس چہرے پر ایک نظر ڈالی، سگریٹ سلگایا اور اپنے وطن کے سب فاقہ کش مفلسوں اورقوم کی سب مجبور بیٹیوں کے دکھوں میں ڈوب کر اپنی اگلی غزل لکھنے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریا ہیں مگر حلقہ ء ساحل کے ہیں قیدی
زندان ِ بھنور ، موجِ بلا ، رقص ِ قضا دیکھ

سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
اس بیٹی کے ہاتھوں پہ جلا رنگ ِ حنا دیکھ
 
Top