زندان میں سکینہ عابد سے کہہ رہی ہے۔۔۔۔محب فاضلی

سیما علی

لائبریرین
زندان میں سکینہ عابد سے کہہ رہی ہے
دم گُھٹ رہا ہے بھیا یہ رات آخری ہے

جَلا میرا کُرتا چھینے گوشوارے
ستم گرنے مجھکو طمانچے ہیں مارے
ستاتے ہیں مجھکو یہ بابا کے قاتل
یہ دُکھیا مصیبت میں کس کو پکارے
بابا کے قاتلوں سے ہرگز کفن نہ لینا
ہے یہ میری وصیّت خواہش میری یہی ہے

سکینہ پہ بھیا کٹھن یہ گھڑی ہے
اسیری ہے مجھ پر مصیبت بڑی ہے
وطن یاد آتا ہے بھیا چلو گھر
مدینے کی راہوں پہ صغرا کھڑی ہے
ہر شام یہ پرندے جاتے ہیں اپنے گھرکو
کب جاو نگی وطن میں روکر وہ پوچھتی ہے

مری دادی زہرا کا رتبہ ہے عالی
یہ حق جنکی چوکھٹ سے لوٹا نہ خالی
فدک بھیک میں ہم نے جنکو دیا ہو
سکینہ کفن کی ہو اُن سے سوالی!
بابا کے قاتلوں سے ہرگز کفن نہ لینا
ہے یہ میری وصیّت خواہش میری یہی ہے

جو محوِ خطابت سرِ شاہِ دیں ہے
سناں پر وہ دوشِ نبی کا مکیں ہے
ہُوا ہے جو فلک سے پتھر سے ظاہر
ہے وہ خونِ نا حق جو چھپتا نہیں ہے
نیزے پہ شاہِ دیں کے سر کا خطاب کرنا
مقتول کا تصرّف قاتل کی بے بسی ہے

زمین پر میں زنداں کی سوتی ہوں بابا
میں اشکوں سے دامن بھگوتی ہوں بابا
خدارا مجھے پاس اپنے بلالو
جدا ہو کے تم سے میں روتی ہوں بابا
صدیاں گزر چکی ہیں اب بھی ہر اک محب کو
زنداں سے سسکیوں کی آواز آرہی ہے
 
آخری تدوین:
Top