فارسی شاعری زلیخا کا خاتونانِ مصر کو جمع کرنا اور ان کو یوسف علیہ السلام دکھانا - یہودی فارسی شاعر مولانا شاہین

حسان خان

لائبریرین
فارسی گو سزمینوں میں رہنے والے یہودیوں نے بھی زبانِ فارسی میں تألیفات و منظومات چھوڑی ہیں، لیکن چونکہ وہ عِبرانی رسم الخط کا استعمال کرتے تھے، اِس لیے اُن کی تحریریں وسیع مسلمان ادبی مُعاشرے کی اطلاع و رسائی سے دور رہیں تھیں، تا آنکہ بیسویں صدی میں اُن کے تعارف و تحقیق، اور اُن کی فارسی رسم الخط میں منتقلی کا کام آغاز ہوا تھا۔ قرنِ چہاردہُم عیسوی کے ایک یہودی فارسی شاعر 'مولانا شاهینِ شیرازی' نے 'موسیٰ‌نامه' کے نام سے، اور مثنوی کی شکل میں عہدنامۂ قدیم کی ابتدائی پانچ کتابوں - جن کو تورات کہا جاتا ہے - کا منظوم فارسی ترجمہ کیا تھا۔ کتابِ اول کے منظوم ترجمے 'آفرینش‌نامه' (سالِ اتمامِ تألیف: ۱۳۵۹ء) کا ایک باب ذیل میں ترجمے کے ساتھ پیش ہے:

(جمع کردنِ زُلیخا خاتونانِ مصر را و یوسف علیه السلام به ایشان نمودن)
زُلیخا کرد روزی میزبانی
نهاد او تازه‌بزمِ خُسرَوانی
زنانِ مهترانِ شهر را خوانْد
به خلوت‌خانه‌شان او شاد بِنْشانْد
زمانی عشرت و شادی بِکردند
فراوان نعمتِ شاهانه خوردند
به وصلِ هم زمانی شاد بودند
عَروسان جُمله بی‌داماد بودند
زُلیخاشان نوازش‌هایِ بسیار
بِکردی هر زمان زان لفظ دُربار
نِهاد اندر زمان آن شوخِ پُرفن
تُرُنج و کارْد اندر دستِ هر زن
بِگُفتا کارْد بردارید از جا
بُرید هر یک تُرُنجِ خویش تنها
زُلیخا داشت یوسف را نُهُفته
درونِ خانه همچون گُل شُکُفته
زنی ناگه درِ آن خانه بِگْشاد
بِشُد یوسف روان چون سروِ آزاد
شُعاعِ حُسنِ او در مجلس اُفتاد
ز بزمِ دل‌بران برخاست فریاد
ز شوقِ حُسنِ او مدهوش گشتند
همه سرگشته و بی‌هوش گشتند
نشانِ زندگی در خود ندیدند
تُرُنج و دست را در هم بُریدند
چُنان مُستغرقِ آن حور گشتند
که از هستیِ خود اندر گُذشتند
ز زخمِ آن تُرُنج و دستِ پُرخون
بِگشت آن دل‌بران را جامه پُرخون
بِگُفتند حاشَ لله این بشر نیست
جمالش جُز فُروغِ ماه و خْوَر نیست
فرشته‌ست او و یا حورِ بهشت است
نِهالش را بنی‌آدم نکِشته‌ست

(مولانا شاهین شیرازی)

(زُلیخا کا خاتونانِ مصر کو جمع کرنا اور اُن کو یوسف علیہ السلام دِکھانا)
زُلیخا نے ایک روز میزبانی مُنعقِد کی اور ایک تازہ شاہانہ بزم برپا کی۔۔۔ اُس نے شہر کی مُعزَّز عورتوں کو بُلایا اور اُنہیں خلوت خانے میں شاداں بِٹھایا۔۔۔ اُن [عورتوں] نے کئی لمحوں تک عِشرت و شادمانی کی، اور کئی شاہانہ نعمتیں کھائیں۔۔۔۔ وہ کئی لمحوں تک ایک دوسرے کے وصل سے شاد ہوتی رہیں۔۔۔ وہ سب عَروسیں (دُلہنیں) اپنے شوہروں کے بغیر تھیں۔۔۔ زُلیخا ہر لمحہ اپنے الفاظِ دُر پاش کے ساتھ اُن پر بِسیار نوازشیں کرتی تھی۔۔۔ یکایک اُس شوخِ پُرفن نے ہر عورت کے دست میں تُرُنج اور چاقو دے دیا۔۔۔ اور کہا کہ چاقو کو جگہ سے اُٹھائیے اور آپ تمام اپنے تُرُنج کو تنِ تنہا کاٹیے۔۔۔۔ زُلیخا نے یوسف کو گُلِ شُگُفتہ کی طرح درُونِ خانہ پِنہاں رکھا ہوا تھا۔۔۔ ناگہاں ایک عورت نے اُس خانے (گھر) کا در کھول دیا، اور یوسف سرْوِ آزاد کی طرح چلے آئے۔۔۔ [جوں ہی] اُن کے حُسن کی شُعاع مجلس میں گِری، دلبروں کی بزم سے فریاد بلند ہو گئی۔۔۔ وہ اُس کے حُسن کے اشتیاق سے مدہوش ہو گئیں۔۔۔ تمام کی تمام سرگشتہ و بے ہوش ہو گئیں۔۔۔ اُنہوں نے اپنے اندر زندگی کا نشان نہ پایا۔۔۔ اور تُرُنج و دست دونوں کو کاٹ ڈالا۔۔۔ وہ اُس حور میں اِس طرح مُستَغرَق ہو گئیں، کہ وہ اپنی ہستی کو فراموش و تَرک کر گئیں۔۔۔ اُس تُرُنج اور دستِ پُرخون کے زخم سے اُن دلبروں کا جامہ پُرخون ہو گیا۔۔۔ اُنہوں نے کہا: خدا کی پناہ! یہ بشر نہیں ہے۔۔۔ اُس کا جمال ماہ و خورشید کا نُور ہے، اِس کے سوا دیگر کچھ نہیں!۔۔۔ وہ یا تو فرشتہ ہے یا پھر حورِ بہشت ہے۔۔۔ اُس کے نِہال کو بنی آدم نے نہیں بویا ہے۔
× تُرُنْج = ایک میوے کا نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز زخمِ آن تُرُنج و دستِ پُرخون
بِگشت آن دل‌بران را جامه پُرخون
اِس بیت کا قافیہ عیب دار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کاتب یا ناقل کی جانب سے کتابت کی غلطی ہو، کیونکہ شاعر قادرالکلام معلوم ہو رہے ہیں، اور قادرالکلام شاعروں سے ایسی غلطی بعید ہے۔
 
Top