زبان تہذیب کی صورت گری کرتی ہے- اُردو سوشل میڈیا سمٹ کراچی

زبیر مرزا

محفلین
http://www.express.pk/story/355077/
خبر کا ربط
سٹاف رپورٹر ہفتہ 9 مئ 2015
355077-urdunoexpressmediagro-1431120026-666-640x480.jpg

سوشل میڈیا اب صرف دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی رائے کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ فوٹو : ایکسپریس
کراچی: جامعہ کراچی میں ایکسپریس میڈیاگروپ کے تعاون سے منعقدہ ’’اردوسوشل میڈیا سمٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاہے کہ زبان تہذیب کی صورت گری کرتی ہے،اردوکے ضمیر میں تہذیبی توانائی موجودہے ۔
امریکی یونیورسٹی کے حالیہ سروے کے مطابق ایشیا کی 5 بڑی زبانوں میں اردوکادوسرانمبر ہے، اردو فارسی،عربی اورہندی کی آمیزش ہے ،فارسی سے اردو کا تہذیبی ، عربی سے مذہبی جبکہ ہندی سے جغرافیائی پہلو جھلکتاہے ، سوشل میڈیا ( سماجی ذرائع ابلاغ) ہماری آواز کو طاقت اورتوانائی دیتاہے ، سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر اردو کا استعمال توہوتاہے لیکن رسم الخط ’’رومن‘‘ہوتاہے، رسم الخط سے رشتہ ٹوٹنے سے علمی سرمائے سے رشتہ ٹوٹ رہاہے ،سوشل میڈیا پر اردوکے استعمال میں رومن رسم الخط کے بجائے اردورسم الخط کے استعمال کے لیے شعوری کوشش کرنی ہوگی سوشل میڈیاکے ذریعے اردوکی ترویج ہورہی ہے۔

یہ بات مقررین نے اردوسورس اور شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے باہمی اشتراک سے منعقدہ بین الااقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں منعقدہوا،افتتاحی اجلاس سے جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین پروفیسرڈاکٹرمحمود غزنوی،شاہی گروپ کے چیئرمین غیاث الدین،اردوپوائنٹ کی فوزیہ بھٹی ،کراچی بارکے سیکریٹری منظورحمیدآرائیں ،معروف صحافی غازی صلاح الدین اورریحان اللہ والاکے علاوہ جامعہ کراچی کے رئیس کلیہ سماجی علوم پروفیسرڈاکٹرمونس احمرنے خطاب کیا،جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین پروفیسرڈاکٹرمحمود غزنوی کاکہناتھاکہ ہرزبان کاایک مکتب ہوتاہے اوراردوکامکتب دلی اور لکھنو کی اپنی زبان سے ہرایک کوجذباتی لگاؤہوتاہے کیونکہ کسی قوم کی شناخت اس کی زبان ہوتی ہے امریکی یونیورسٹی کے تازہ سروے کے مطابق 5بڑی ایشیائی زبانوں میں چینی زبان پہلے جبکہ اردواورہندی کادوسرانمبرہے۔
دنیا میں 59کروڑلوگ اردوبولتے ہیں چین،جاپان،کوریا اورملائیشیا میں اپنی اپنی زبانیں بولی جارہی ہیں اوراس کے باوجودیہ ممالک ترقی کررہے ہیں اردوزبان میں 40انسائیکلوپیڈیااور4لاکھ اصطلاحات ہیں انھوں نے مزیدکہاکہ ہم کالے انگریز ہیں خواب دیکھنے والی زبان کے بجائے انگریزی میں ریسرچ کرتے ہیں لیکن ’’could,would,should,it اورthis‘‘میں ہی الجھے رہتے ہیں تحقیق اورترقی کے لیے وہ زبان استعمال ہونی چاہیے جس میں ہم خواب دیکھتے ہوں ہم انگریزی میں نہیں بلکہ اردومیں خواب دیکھتے ہیںاشتہارات اردومیں چھپتے ہیں تاہم اس کابھی رسم الخط رومن ہوتاہے۔
شاہی گروپ کے چیئرمین غیاث الدین نے اردوبحیثیت قومی زبان ،اس کے اطلاق اوردیگرعلاقائی زبانوں کے معاملے پر بحث کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں زبان کی سیاست ابتداء ہی سے شروع ہوگئی تھی اردوکوواحد قومی زبان قراردیاگیااہل بنگال جواردوعبارت سے لکھے کاغذ کواحترام سے اٹھاتے تھے بعدمیں نفرت کرنے لگے جان بوجھ کواردوکودیگرعلاقائی زبانوں سے صف آرا کیاگیایہ سب شعوری تھاتاکہ انگریزی کوایک بہترمقام دلایاجائے۔
ان کاکہناتھاکہ اگرقانون کی کتابیں،عدالتوں کی کارروائی،دفتری فائلیں،حکومتی نوٹیفیکیشن اردومیں جاری ہونے لگیں اورقانون کوعام فہم بنادیاجائے توانقلاب آجائے غیاث الدین نے ہائی ویزپرلگے سائن بورڈزکی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے مزیدکہاکہ ٹریفک قوانین اورہدایت کے حوالے سے لگے بورڈزکونہ تو ڈرائیور ز سمجھتے ہیں اورنہ ہی پولیس اہلکاراسے پڑھ پاتے ہیں کیونکہ یہ انگریزی میں تحریرہوتے ہیں ہمارے مزدور’’لیبرایکٹ ‘‘سے ناواقف ہیں ریسٹورنٹس کے مالکان فوڈزکے قوانین سے ناآشناہیں جبکہ اراکین اسمبلی آئین سے بے خبر ،یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ قوانین جن کے لیے ہیں وہ انگریزی نہیں بلکہ اردوجانتے اورسمجھتے ہیں کراچی بارکے سیکریٹری منظورحمید آرائیں کاکہناتھاکہ اردوکووجہ تنازعہ نہیں بناناچاہیے یہ لوگوں میں تعلق پیداکرنے کاذریعہ ہے۔
سوشل میڈیاکے ذریعے اس کی ترویج ہورہی ہے اب ہمارے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر دوبارہ جالب اور پروین شاکرکوپڑھناشروع کردیاہے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سینئرصحافی غازی صلاح الدین کاکہناتھاکہ انگریزی طاقت کاذریعہ ہوگئی ہے تاہم انگریزی ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ’’انگریزی ہمارے سرکاتاج بھی ہے اورپاؤں کی زنجیربھی‘‘اس موقع پرریحان اللہ والاکاکہناتھاکہ سوشل میڈیاکے ذریعے اب ہم گلوبل سٹیزن بن چکے ہیں فیس بک ایک اجتماعی ذہن ہے یہاں ہمیں اجتماعی عقل ملتی ہے تاہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم سوشل میڈیا پردستاویزکی صورت میں کیاموادشامل کررہے ہیں۔
افتتاحی سیشن کے اختتام پرجامعہ کراچی کے رئیس کلیہ سماجی علوم پروفیسرڈاکٹرمونس احمر کاکہناتھاکہ آج ہونے والی دریافتوں میں ہماراحصہ نہیں ہے ہم صرف ان دریافتوں کااستعمال کررہے ہیں اوریہی کچھ سوشل میڈیاپربھی ہورہاہے ہمیںیہ نہیں معلوم کہ اس دریافت سے کس طرح انصاف کریں سوشل میڈیاسے علم سمیٹنے کی ضرورت ہے۔
جامعہ کراچی کے ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ’’سوشل میڈیا کے اردو زباں پر اثرات و کردار‘‘ کے موضوع پر سیشن منعقدہواجس سے معروف کالم نگار و سینئر صحافی وسعت اللہ خان ، صدر شعبہ ابلاغ عامہ پروفیسرمحمود غزنوی ودیگرنے اپنی رائے کااظہارکیا،وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ میڈیا دراصل ایک دکان ہے جس کے ہم کارندے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ملکی حالات انسان پر دو طرح کے اثرات مرتب کرتے ہیں جب آپ کے قریبی مررہے ہوتے ہیں ایسے میں آپ دبک کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر آپ کے دل سے خوف نکل جاتا ہے کہ مرنا تو ہے ہی تو کیوں نہ وہ کریں جو ہمارا دل چاہے، سوشل میڈیا بہت خطرناک ہے، اس پرنوجوان نسل طنز،مزاح،سنجیدہ بات میں تمیز کھو بیٹھے ہیں۔
اب اردو پڑھ کر نہیں سیکھی جاتی بلکہ سن کر سیکھی جاتی ہے تواس کاگلہ کرنے کے بجائے زندگی کی ترکیب سوچنی ہوگی،ان کا کہنا تھا کہ اردو ثانوی حیثیت رکھتی ہے ابلاغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، پروفیسرمحمود غزنوی کا کہنا تھا کہ میڈیا ایک داتا دربار کی مانند ہے جہاں پر یہ اصول رائج ہے کہ خود بھی کھائو اور ہمیں بھی کھانے دو، زبان اور ذہن ایک دوسرے کے متوازی ہیں۔
اگر زبان بگڑتی ہے تو ذہنیت بگڑتی ہے،ذہنیت بگڑتی ہے تو شخصیت بگڑتی ہے، اور جب شخصیت بگڑتی ہے تو ثقافت بگڑتی ہے ان کا کہنا تھا کہ دوسری ثقافتوں سے صرف لفظوں کی یلغار ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت بھی لاتے ہیں،آج میڈیا جو زبان استعمال کررہا ہے اس میں مذکر مونث تک کا خیال نہیں کیا جاتا،مقررین نے طلبہ کوتاکید کی کہ سوشل میڈیا بہترین پلیٹ فارم ہے اگراس کادرست استعمال کیاجائے تواظہاررائے کے لیے اس سے بہترین پلیٹ فارم موجود نہیں۔
سماجی ذرائع ابلاغ کی کانفرنس میں معروف کاروباری منصوبہ ساز و محقق کاشف حفیظ نے کہا کہ ہمارے ہاں لفظوں کا بہت مسئلہ ہے، ہم بہت سے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کے معنی سے لا علم ہوتے ہیں، نوجوان نسل اقبال اور فیض کی شاعری پر تبصرے تو بہت کرتی ہے، ان کی شاعری کے رموز سے آشنا بھی نہیں ، اس موقع پرکاشف حفیظ نے ’’نوجوان نسل کیا سوچتی ہے اور کیا چاہتی ہے‘‘کے حوالے سے اعداد و شمار پرمشتمل پریزنٹیشن بھی دی جس کاعنوان ’’جنریشن‘‘تھا ، اس پریزنٹیشن میں سن 2003، 2008 اور 2013 میں نوجوان نسل سے ایک جیسے سوالات کیے گئے تھے ۔
جس کا نتیجہ ہر بار یکساں ہی رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ وقت تو بدلا لیکن نوجوانوں کی سوچ اور خیالات ایک جیسے ہی رہے، ان کا کہنا تھا کہ اگراردو ہم سے دور ہوگئی تو یہ صرف زبان کا نقصان نہیں بلکہ اس سے ہم اپنی ثقافت وادب سے بھی دورہوجائیں گے اصل میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پراردوزبان کااستحصال ہورہاہے ،سینئر صحافی عامر احمد خان نے کہا کہ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو براڈکاسٹر بنا دیا ہے،سوشل میڈیا اب صرف دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی رائے کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔
یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے بہت سنجیدگی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ جس طرح 2013 سے پہلے اپنی تصویر اتارنے کے لیے’’سیلفی‘‘ جیسا کوئی لفظ موجود نہیں تھا لیکن جدیدیت کے باعث اس لفظ کو آکسفرڈ ڈکشنری میں شامل کیا گیا اسی طرح سوشل میڈیا کی وجہ سے اردوزبان میں بھی بے تحاشہ نئے الفاظ شامل ہوں گے۔
 
Top