قدرت اللہ شہاب زبان اور غلامی

ثناءاللہ

محفلین
قاہرہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ مصر کی انقلابی حکومت نے حاجیوں کی آمد ورفت کے لئے نہایت اعلٰی درجہ کے انتظامات کر رکھے ہیں حاجیوں کو لے کر ہر روز دو ہوائی جہاز پرواز کرتے تھے۔ ہر تیسرے روز ایک سمندری جہاز بھی جدہ کے لئے روانہ ہوتا تھا۔ وزارت خارجہ کا جو افسر ان انتظامات کی دیکھ بھال پر مامور تھا وہ میری درخواست دیکھ کر بڑا چیں بجبیں ہوا۔
"آپ پاکستانی ہوکر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں؟ " اس نے میری جواب طلبی کی
میں معذرت کی کہ مجھے عربی نہیں آتی، اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑھی۔
"آپ کی زبان کیا ہے؟" افسر نے پوچھا
"اردو" میں نے جواب دیا۔
پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے؟" افسر نے طنزیہ پوچھا۔
میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں یہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے۔
میرا یہ اقبالِ جرم سن کر افسر مطمئن ہو گیا اور بولا" اس صورت میں بہتر تھا کہ آپ اپنی درخواست اردو ہی میں لکھتے"۔ پھر اس نے کچھ عرصہ تک ہر ملک کی قومی زبان کی اہمیت پر زور دیا۔ غلامی کے دور کی یادگاروں کی مذمت کی، ذہنی غلامی کواپنانا تذلیل قرار دیا اور پھرانقلاب مصر کے حوالے سے عرب نیشنلزم کی فضیلت پر ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس کے بعد اس نے بڑی خندہ پیشانی سے مجھے ایک مصری جہاز "السوڈان" میں جدّہ تک سفر کرنے کی اجازت دے دی۔

(شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب)
 
Top