زبانِ خلق پر آئی صدا رکتی نہیں ہے

ام اویس

محفلین
زبانِ خلق پر آئی صدا رکتی نہیں ہے
مری جاں ! دشت ہویا گھر ، ہوا رُکتی نہیں ہے

اترتے ہیں دلوں پر جب صحیفے روشنی کے
صلیبیں گاڑنے سے بھی وفا رُکتی نہیں ہے

فضا میں بہتے لمحے روز دیتے ہیں بشارت
سحر کے چاہنے والو ! ضیاء رُکتی نہیں ہے

تمہارا نام دشنامِ زمانہ ہو چکا ہے
کبھی تاریخ کی لکھی سزا رُکتی نہیں ہے

یہ سب کچھ آگ بن جانے سے پہلے سوچ لینا
حسن ناصر ! تعصب کی وبا رُکتی نہیں ہے
 
Top