زاویہ ۳

قیصرانی

لائبریرین
سب دا بھلا سب دی خیر​

ہم اہلِ زاویہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔
ہم زاویہ کے اپنے پروگراموں میں اس سے پہلے بھی " دعا " کے حوالے سے گفتگو کرتے رہی ہیں۔یہ اتنا طویل موضوع ہے کہ اختتام پذیر ہی نہیں ہو سکتا۔اِس سے قبل جب اِس ہی پروگرام میں "دعا" کے حوالے سے بات ہوئی تو اُس کے بعد بہت سے لوگ اس موضوع پر بحث مبا حثہ کرتے رہے اور مجھ سے بھی بار بار پوچھتے رہے۔
]میں اس کا کوئی ایسا ماہر تو نہیں ہوں اور نہ ہی دعا کے حقیقی اسرار سے مجھے آشنائی ہےلیکن ایک عام شخص کے بطور مجھے یہ علم تو ہے ہی کہ دعا کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اگر اچانک بیٹھے بیٹھے یا راہ چلتے ہم پر کوئی افتاد آن پڑے ےتو اُس سے پہلے کہ ہم کوئی تدبیر یا اس کے حل کے لیے ترکیب لڑائیں ہمارے منہ سے فوراً دعا نکلتی ہےکہ " اے اللہ ایسا کر دے "۔
خواتین و حضرات میں سمجھتا ہوں کہ یہ طریقہ بھی کوئی غلط نہیں ہےخدا سے محبت اور اس پر یقین کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ ناگہانی صورتحال میں اسے ہی یاد کرتے ہیں چاہے ' خوشی یا خوشحالی میں نہ یاد کریں۔
فرض کریں کہ ہم نے شیشہ پکڑا ہوا ہو اور وہ ہمارے ہاتھ سے اچانک گرنے لگے تو جو بھی پاس کھڑا ہو کہے گا " اللہ خیر"۔
اس کے بعد ڈانٹ ڈپٹ کرے گا کہ اندھا ہے ' سنبھال کر اور مضبوطی سے کیوں نہیں پکڑا۔ ہماری بڑی بوڑھیوں میں یہ بات بڑی تھی کہ ہر وقت خدا سے خیر طلب کرتی رہتی تھیں۔یہ بھی دعا کا ایک اپنا رنگ اور نرالا اندازہے۔گزشتہ پروگرام میں میں نے ایک تجویز پیش کی تھی کہ دعا کو بجائے اس کے ہم زبانی مانگیں کسی کاغذ پر لکھ لیا جائے تو بھی ایک اچھا انداز ہے ۔میرے سوچنے کی ایک وجہ یہ تھی کی پوری نماز میں یا عبادت میں ہم جب دعا کے مقام پر پہنچتے ہیں تو ہم بہت تیزی میں ہوتے ہیں اور بڑے اُتاولے ( جلد بازی) ہو کر دعا مانگتے ہیں۔ایک پا ؤں جوتے میں ہوتا ہے اور ایک زمین پر ‘ہم دعا مانگ کر چلتے بنتے ہیں۔اس طرح وہ تعلق اور رشتہ جو خدا اور انسان کا دعا سے قائم ہوتا ہے ‘وہ قائم نہیں ہو پاتا۔
ہمارے ایک بابا نے یہ ترکیب سوچی تھی کہ دعا مانگتے وقت آدمی پورے خشوع وخضوع کے ساتھ،پوری توجہ اور مکمل توجہ کے ساتھ دعا کی طرف توجہ دےاور جو اس کا نفسِ مضمون ہو اس کو ذہن میں اُتار کر‘اسے تکلمّ میں ڈھال کر آگے چلا جائےاور اس طرح سے اس بارگاہ میں عاجزی سے دعا مانگے کہ انسان کے اپنے دل کو بھی معلوم ہو کہ واقعی دعا مانگ رہا ہے۔دعا اور انسان کا آپس میں بڑا پرانا اور گہرا تعلق ہے۔میرے ایک دوست ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ دعا کاغذ پر لکھنے کی بجائے ایک اور کام کیا ہے۔
میرے اس دوست کا نام افضل صاحب ہے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک ریجسٹر بنا لیا ہے جس پر وہ اپنی دعا بڑی توجہ کے ساتھ لکھتے ہیں‘ساتھ تاریخ کا اندراج کرتے ہی۔جتنی دعا زیادہ جلدی قبول کروانا درکار ہوتی ہے‘اس کو اتنی ہی تفصیل سے اس رجسٹر پر درج کرتے ہیں اور دعا کو مختلف رنگوں میں دیدہ زیب انداز میں لکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اور کوشش کرتے ہیں کہ اس دعا کو لکھتے وقت اپنے اوپر وہی کیفیت طاری کریں جو اس ہستی کو بھا جائےجس سے دعا کی جا رہی ہے۔افضل صاحب کے اس رجسٹر بنانے کا بڑا فا ئدہ تھا اور ان کا تعلق اپنی ذات اپنے اللہ کے ساتھ بڑا جُڑا ہوا تھا۔اکثر و بیشتر ہم شکایت کرتے ہیں کہ جی بڑی دعائیں مانگی تھیں جی قبول نہیں ہوئیں۔او جی ہماری تو دعائیں پوری نہیں ہوتی ہیں۔
خواتین و حضرات ! دعا کا طریقہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نلکا " گیڑ " کر پانی نکالنے کا ہےجو ہینڈ پمپ یا نلکا چلتا رہے اور بار بار "گڑ تا" رہے ‘اس میں سے تو بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے لیکن جو ہینڈ پمپ سوکھا ہوا ہو اور اس پر " گیڑے " جانے والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو تو چاہے آپ اس پر کتنا بھی زور لگا لیں ‘اس میں سے پانی نہیں نکلتا۔اس لیے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ آپ ہر وقت دعا مانگتے چلے جائیں اور مانگیں توجہ کے ساتھ۔جس طرح ہم نے کسی سے اُدھار لینا ہویا کسی نے ہم سے تو ‘ادھار لینے والے کو قرض خواہ بڑا یا د ہوتا ہے۔اس کی صحت و سلامی اور وعدہ پر پکا رہنے کے لیے دعائیں کرتا ہے ۔دعا کا طریقہ بھی اسی طرح کا ہونا چاہئیے کہ ہم دعا کو ہر وقت دل کے نہاں خانوں میں رکھیں اور اپنی اللہ ‘اپنے پروردگار کے پیچھے پڑے رہیں کہ "یا اللہ ہمیں یہ چیز چاہئیے اور بس۔۔۔ ! اللہ میاں سے بضد رہیں اور خود کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں"۔
ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ " دعاؤں کے دائرے سے کبھی نہ نکلا کرو۔اگر اپنی لیے دعا نہیں کر رہے اور آپ پر خدا کی بڑی مہربانیاں ہیں تو خدا کے لیے دوسروں کے لیے دعا کرتے رہا کریں "۔
بابے کہا کرتے ہیں کہ " جو شخص کسی کو دھوکہ دیتا ہے حقیقت میں خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہےلیکن وہ خیال کرتا ہے کہ وہ کسی اور کو دھوکہ دے رہا ہے اور جو کسی کی خیر اور بھلائی مانگ رہا ہوتا ہے وہ حقیقت میں اپنی بھلائی چاہ رہا ہوتا ہے۔" کیونکہ دعائے خیر کرنے والا یا دھوکہ کرنے والا بھی اس دنیا سے جڑُا ہوا ہے۔
خواتین و حضرات ! دعا خط و کتابت نہیں ہے ۔ ایک چٹّھی نہیں ہے ، عرضی خدا کے حضور ڈال کر مطمئن ہو کر بیٹھنے کا اور اس ذات پر اعتماد اور بھروسے کا نام ہے۔
کچھ ہماری دعائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اگر قبول ہو جائیں تو ہمیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن ہم خدا سے شکوہ کرتے ہیں کہ اللہ آپ نے ہماری دعا قبول نہیں کی۔ بلکہ آپ جب بھی دعا کریں ‘اس میں یہ جملہ ضرور شامل کریں " اے اللہ ہمیں وہ عطا فرما جو ہمارے حق میں بہتر ہے۔"
ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا ہمیں پھولوں سے بھرا ٹوکرا عطا کرنے کے مُوڈ میں ہوتا ہے اور ہم صرف ایک پھول کی ضد لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
آپ نے گلی میں شام کو گزرنے والے ان فقیروں کو صدا لگاتے ضرور سنا ہو گا "کلُ عالم دا بھلا کلُ عالم دی خیر "۔یہ اندازِ دعا ہے جو سب سے بھلاہے کیونکہ کلُ عالم میں آپ بھی شامل ہیں۔ہم بھی ایسے ہیں کہ پھولوں کے ٹوکرے کو ٹھوکر مار رہے ہوتے ہیں اور ایک پھول کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شمولیت کا تقاضا ضرور کریں۔دعا کریں کہ اللہ میرا کچھ تقاضا بشری ہےمجھے فلاں چیز چاہیے لیکن اس میں آپ کی رحمت بھی شامل ہونی چاہیےاور دعا کی قبولیت اس انداز میں ہونی چاہیے کہ آس پاس کے لوگوں کو بھی پسند آئے۔
اگر آپ خدا سے دعا کریں کہ اے اللہ جو تو چاہتا ہے ہمیں وہی عطا کر وہی ٹھیک ہے ‘یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ کو فقیری عطا کر دے جبکہ آپ کی سی ایس ایس افسر بننے یا بڑا افسر بننے کی خواہش ہے۔آپ ڈپٹی کمشنر کی جگہ ٹاؤن ہال میں کلرک لگ جائیں۔اللہ سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ مجھے ڈپٹی کمشنر بھی بنا دے اور پھر ویسا نیک بھی رکھ کہ رہتی دنیا تک لوگ مجھے یاد کریں کہ با وصف کی اس کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی ‘بڑے اختیارات حاصل تھے لیکن وہ نیک اور دیانتدار ضلع ناظم تھا۔ اور وہ اپنے منصب پر پورا اتراہے۔ایک بات آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیںاور مجھے یہ بات میرے بابوں نےبتائی ہے ۔میں تو اس بات پر اس طرح سے یقین نہیں کر پایا لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے اور خدا کی ذات پر بھروسہ کرنے والے بچے ہیں ۔آپ ضرور اس پر یقین کامل رکھیں گے کہ " دعا بذاتِ خود ایک بڑی نعمت اور دولت ہے ۔یہ معمولی سا لفظ اپنے اندر بڑی وسعتیں سموئے ہوئے ہے۔"
خواتین و حضرایت ! دعائیں ایک مناسب اور ٹھیک وقت پر قبول کی جاتی ہیں۔آپ دعا کو خدا کے لیے کوئی معمولی نہ سمجھیں۔ یہ پروردگار سے رابطے کا ایک سب سے مؤ ثر ذریعہ ہے۔میں اور ممتاز مفتی ایک بار ایک ایسے سفر پر گئے جب ہمیں صحرا سے گزرنا پڑا۔ہمیں وہاں بڑی مشکل ہو گئی ۔نہ پانی تھا نہ کھانے کو کچھ اور……ممتاز مفتی مجھے کوسنے لگا اور میں ان سے کہنے لگا کہ میں نے نہ کہا تھا کہ یہ راستہ اختیار نہ کرو۔بہرحال ہم چلتے گئےاور اس جانب چلے جس طرف دور ایک جھونپڑی سی بنی دکھائ پڑتی تھی ۔ہم تھکے ہارے اس جھونپڑی میں پہینچے تو وہاں ایک سندھی ٹوپی پہنے کندھوں پر شال ڈالے ایک بڑی عمر کے شخص بیٹھے تھے ۔ان کی خستہ حالی تو ہم پر عیاں ہو رہی تھی لیکن ان میں ایک عجیب طرح کا اعتماد تھا۔ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دبا دبا کر گلے ملے ۔کنستر سے پانی کا لوٹا بھرا ہمارے منہ ہاتھ دھلائے ۔ ان کی جھونپڑی میں ایک صف سی بچھی ہوئی تھی ۔اس پر ہمیں ایسے بٹھایا کہ جیسے وہ ہمارا انتظار کر رہے ہوں۔ ہم نے ان سے کہا کہ " بڑے میاں آپ اس بیا بان میں کیسے رہ رہے ہیں ؟"
وہ بولے کہ " کیا خدا نے اپنی مخلوق سے رزق کا وعدہ نہیں کر رکھا ! "
ہم نے یک زبان ہو کر کہا " ہاں کر رکھا ہے ۔"
ہم نے اس سے دریافت کیا" آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟"
وہ کہنے لگا کہ " اس کے خیال میں اس کا ذریعہ معاش ایک دوسرا آدمی ہے۔"
میں ہر نماز کے وقت اٹھتے بیٹھتے اپنے پروردگار سے یہ دعا کرتا ہوں کہ " اے میرے رب ‘مجھے کبھی اس کیفیت میں نہ رکھنا کہ میں اکیلا کسی وقت کھانا کھاؤں ۔آپ مجھ پر اپنی رحمت کرنا اور جب بھی کھانے کا وقت ہو کوئی دوسرا تیسرا بندہ بھی ہو جس کے ساتھ بیٹھ کر میں کھانا کھاوں۔اس نےبتایا کہ اسے یاد نہیں پڑتا کہ اس نے کبھی اکیلے کھانا کھایا ھو۔کھانے کے وقت کوئی نہ کوئی انسان ضرور آجاتا ہے۔آج کھانے کا وقت نکلا جا رہا تھا اور میں پریشان تھا کہ آج میں اکیلا کیسے کھانا کھاؤں گا۔اس نے دو تین سوکھی سی روٹیاں نکالیں۔گھڑے کا پانی لایا اور کھانا شروع کر دیا۔میں نے ممتاز مفتی کو کہنی ماری کہ " سودا نکالو"۔
ہم نے چلتے وقت بھُنے ہوئے چنے رکھ لیے تھے کہ وہ بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ اس نے روٹیاں نکالیں ۔ہم نے چنے نکالے اور سب نے مزے سے باتیں کرتے ہوئے کھانا کھایا ۔
خواتین وحضرات آپ یقین کریں کہ اس کھانے میں ایک روٹی بچ گئی اور ہمارے چنے بھی کافی سارے بچ گئے اور ہم سیر شکم ہو گئے۔اس شخص نے بتایا کہ یہاں سے شہر زیادہ دور نہیں ہے ۔چند کوس کے فاصلے پر ہے۔یہاں سے اونٹ چرانے والوں کے قافلے گزرتے ہیں۔آپ ان کے ساتھ شہر چلے جائیے گا۔ہم نے اپنے باقی چنے وہیں چھوڑ دیئے اور ایک قافلے کے ساتھ شہر پہنچ گئے۔
بچو یہ بھی دعا تھی ‘ہو سکتا ہے کسی دوسرے کے رزق کے باعث اس شخص کو بھی کھانا میسر ہوتا ہو۔ممتاز مفتی مجھ سے کہنے لگا کہ یہ شخص بڑا سیانا ہے۔کسی کے لیے دعا مانگتا ہے اور کھانا خود مزے سے کھاتا ہے اور ہم بس اپنے لیے دعا کرتے ہیں ۔پھر بھی بھوکے مرتے ہیں ( مسکراتے ہوئے )۔
خواتین و حضرات ! دعا کے حوالے سے ہم اپنے آئندہ پروگراموں میں بھی بات کرتے رہیں گے ‘جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ بڑا طویل موضوع ہے اور ختم ہونے کو نہیں آتا۔ اب مجھے امید ہے کہ آپ بھی " سب دا بھلا سب دی خیر " کے فارمولے پر کاربند رہیں گے۔
اللہ آپ کوآسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔اللہ حافظ۔


بیا
 
Top