رے بیز ---- ایک جان لیوا بیماری

رے بیز ---- ایک جان لیوا بیماری
[FONT="Nafees Naskh[FONT="Urdu Naskh Asiatype"]"]قدیم زمانے سے ہی کتا انسان کا وفادار جانور رہا ہے لیکن یہی محافظ ہمارے جان لیوا دشمن کا روپ بھی دھار سکتا ہے ۔ رے بیز (Rabies) یا سگ گزیدگی ایک ایسی موذی بیماری ہے جو عموماً پاگل کتے کے لعاب میں موجود وائرس سے ہوتی ہے اور ایسے کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں پھیل جاتی ہے ۔ رے بیز سنسکرت زبان کے لفظ ''ربھاس'' سے اخذ کیا گیا ہے ، جس کے معنی تشدد ہیں ۔ اس بیماری کا پہلے کوئی قابل اعتماد علاج نہ تھا ۔ 6 جولائی 1885 میں لوئی پاسچرنامی سائنسدان نے رے بیز میں مبتلا پہلے انسان کا علاج کیا جو کامیاب رہا اور پھر آہستہ آہستہ سائنس نے ترقی کے مراحل طے کئے۔
رے بیز کی مہلک بیماری انسانوں میں دودھ پلانے والے جانوروں خاص طور پر کتے ، بلی ، چمگادڑ ، لومڑی ، گیدڑ اور نیولے کے کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے ۔ ہمارے ارد گرد کتے خاص تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اکثر افراد اس کے کاٹنے کی شکایت کے ساتھ اسپتالوں کارُخ کرتے ہیں۔ رے بیز کا وائرس (Rhabdoviridae) کی فیملی Lyssavirus سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وائرس کی شکل پستول کی گولی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ وائرس رے بیز کی بیماری میں مبتلا جانور جس کو پاگل (Rabid) کہا جاتا ہے کہ منہ کی رطوبت میں پایا جاتا ہے ۔ جب بیماری میں مبتلا جانور انسان کو کاٹتا ہے تو یہ وائرس اس رطوبت کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر انسان بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
رے بیز کا وائرس انسانی جسم میں خون کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعصاب (Never Fibres) کے ذریعے سفر کرتاہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یہ وائرس 2.3 ملی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے ، اس لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کاٹنے کا زخم دماغ سے جتنا قریب ہوگامریض کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔ رے بیز وائرس انسانی جسم میں برسوں تک زندہ ر ہ سکتا ہے اور اپنی علامات دس دن سے ایک سال کی مدت میں ظاہر کرسکتاہے ۔
رے بیز کی بیماری کی علامات کے اعتبار سے دو اقسام ہیں ۔(01) فیورس(Furious) ، (02) ڈمپ(Dumb) ۔ پہلی قسم میںمریض کے دماغ میں سوزش ہونے کے باعث وہ ڈپریشن اور بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری قسم میں مریض اعضاء کے پٹھوں کی کمزوری اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جوکہ کافی خطرناک ہوتی ہے ۔ رے بیز کی پہلی علامت کتے کے کاٹنے کے دو سے چار دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے پہلے مرحلے میں مریض کو زخم کے ارد گرد چبھن ، خارش اور درد محسوس ہوتا ہے ۔ مریض بے چینی ، تھکاوٹ ، سردرد اور بخار محسوس کرتاہے ۔ جب رے بیز کا وائرس دماغ تک پہنچ جاتا ہے تو اس پر ہیجانی دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مریض کو پانی پینے اور دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے ۔ سانس لینے میں دشواری او رکاوٹ ہوتی ہے ۔ آنکھوں کی پتلی ٹھہر جاتی ہے ۔ یہ تمام علامات فیوریس رے بیز کی ہیں ۔ ایسے مریضوں کو فوری طور پر کسی علیحدہ اور محفوظ جگہ پر منتقل کردینا چاہیے ،کیونکہ رے بیز کی بیماری میں مبتلا شخص کے کاٹنے سے یہ بیماری دوسروں تک منتقل ہوسکتی ہے ۔ دوسری قسم ڈمب رے بیز میں مریض بالکل بے سدھ اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ غشی و نیم بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
رے بیز کی موذی بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔ وہ افراد جو کتوں کو پالتے ہیں یا وہ افراد جو ان جانوروں کے علاج معالجے سے منسلک ہیں یا ایسے فارم جہاں ان جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے ، انہیں چاہیے کہ اپنے پالتو کتوں کو رے بیز سے بچاؤ کے ٹیکے ''ویکسین'' لگوائیں اور خود بھی اس موذی مرض سے بچاؤ کے ٹیکوں کا کورس کروائیں۔
عالمی ادارہئ صحت(WHO) کے مطابق رے بیز سے بچاؤ کے لئے صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے جو پہلے دن ، ساتویں دن اوراٹھائیسویں دن لگتا ہے ۔ اس کے بعد حفاظتی اقدام کے طور پر ایک سال کے بعد ایک ٹیکہ اور پانچ سال کے عرصے میں اس کی حفاظت کے لئے ایک ٹیکہ دیا جاتا ہے ۔ اس طرح ہر پانچ سال کے بعد یہ ٹیکہ لگانے سے ساری زندگی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔
رے بیز کی بیماری کے طریقہ ئ علاج کے سلسلے میں چند ضروری باتیں یاد رکھنی چاہیے ۔ مذکورہ تمام جانوروں خاص طور پر کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد متاثرہ شخص کے زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے اچھی طرح دھوئیں ۔ اگرجراثیم کش لکوڈ موجود ہو تو اس سے اچھی طرح زخم صاف کریں ۔ زخم کو ٹانکوں یا پٹی کی مدد سے بند نہ کریں بلکہ کھلا رہنے دیں ۔ اگر خون زیادہ بہہ رہا ہو تو صرف ڈھیلی سی پٹی کر دیں تاکہ خون رُک جائے اور متاثرہ شخص کو فور ی طور پر قریبی اسپتال پہنچادیں۔
عام تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو ہم دس بارہ دن تک دیکھیں ، اگر وہ مرجائے تب ویکسین لگوائیں اور اگر وہ نہ مرے تو نہ لگوائیں۔ یہ تصوربالکل غلط ہے ۔ متاثرہ شخص کو دس دن سے پہلے تین حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کروادینا چاہیے تاکہ متاثرہ شخص اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہ سکے۔ اگر کاٹنے والے کتے کی نگرانی نہیں کرسکتے تو پھر رے بیز سے بچاؤ کے پانچ ٹیکوں کا مکمل کورس کروانا انتہائی ضروری ہے ۔ رے بیز سے بچاؤ کی ویکسین ''ویروریب ۔۔(Vero Rab) کے نام سے مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے اور اس کے صرف پانچ ٹیکے کاٹنے سے پہلے دن ، تیسرے دن ، ساتویں دن ، چودھویں دن اور اٹھائیسویں دن بازو میںلگتے ہیں ۔ یہ ویکسین نتائج کے اعتبار سے بہترین ہے ۔ ہمارے ملک کے کچھ اسپتالوں میں آج بھی 14 انجکشن پیٹ میں لگائے جاتے ہیں جو پرانا طریقہ علاج ہے اور عالمی ادارہئ صحت (WHO) نے اسے ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ رے بیز کی ویکسین کے ساتھ ساتھ رے بیز امینو گلو بیولین (RIG) بھی لگوانا بے حد ضروری ہے ۔ اس سے متاثرہ شخص کو فوری طور پر رے بیز وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت حاصل ہوجاتی ہے او روائرس کو متاثرہ جگہ سے ختم کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔
دنیابھر میں رے بیز کا یا تو خاتمہ کیا جاچکا ہے یا وہ اپنے زوال پر ہے ، خاص طور پر شمالی امریکہ اور یورپ بلکہ ایشیاء کے کچھ اعلیٰ معیارات کے حامل ممالک بھی اس کی دسترس سے دور ہورہے ہیںجس کے نتیجے میں تھائی لینڈ، سری لنکا ، کوریا اور ویت نام میں ہر سال رے بیز کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد چند ایک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ دنیا بھر میں اس جان لیوا مرض میں بدقسمتی سے دو ممالک پاکستان اور بھارت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس افسوسناک صورتحال کی بڑی وجہ مرض اور اس کے علاج سے لا علمی کے ساتھ ان مریضوں کا غلط رویہ ہے ، جو علاج کے لئے گھریلو ٹوٹکے یا متبادل ادویہ استعمال کرتے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ این آئی ایچ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ'' جدید تجربہ گار کے قیام کے ساتھ تربیت یافتہ سائنسدانوں کا بھی تقرر کرے اور کوالٹی کنٹرول کے مفصل اور جامع طریقہ کار کا بھی اطلاق کرے۔ انہیں بین الاقوامی اعلیٰ معیار کی تیاری کی سطح تک پہنچنا چاہیے ، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور کچھ قابل عمل پروگرام مرتب کیے جائی تو دیگر ممالک کی طرح جیسا کہ ملائیشیانے کتوں کی آبادی پر قابو اور ویکسی نیشن کو لازمی قرار دے کر اس بیماری سے اپنے ملک کو نجات دلادی ہے ۔ تھائی لینڈ کی وسیع سرحد سے اس مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے ، پاکستان بھی اس موذی بیماری سے نجات حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے ۔ اگرکتے کے کاٹے کا ابتداء ہی میں بہتر علاج کرلیاجائے تو اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم علاج میں لاپروائی کی صورت میں بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ، جو مریض کی موت کا سبب تک بن سکتے ہیں۔
[/FONT][/FONT]
 

فرضی

محفلین
بہت مفید معلومات ہیں۔ مجھے دو بار کتے کاٹ چکے ہیں۔۔ لیکن خوش قسمتی سے دونوں ریبڈ نہیں تھے۔۔ ایک بار بچپن میں کتے نے کاٹا تو کتے کے مالکان نے زخم پر سرمہ لگا کر پٹی لگا دی۔۔ بس اللہ اللہ خیر سلا ۔۔ دوسری بار ایک چھوٹا کتا ایک گڑھے میں گر گیا تھا اور بری طرح رو رہاتھا۔۔ مجھے ہیرو بننے کا شوق چرایا اور اسے باہر نکالنے کے لیے گڑھے میں کود گیا۔۔ اس نے پہلا کام یہی کیا کہ مجھ پر دانت صاف کر لیے۔۔ اب کی بار ہسپتال میں احتیاطاً ریبیز سے بچاؤ کے 3 ٹیکوں کا کورس کیا۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
چند ماہ قبل یہاں ایک پروگرام تھا ٹی وی پر۔ ایک امریکی ڈاکٹر نے ایک چھوٹی بچی کو بیہوش رکھ کر اسے غذا وغیرہ مصنوعی طور پر دیتا رہا۔ وائرس اپنا دورانِ حیات پورا کر کے ختم ہو گیا۔ اس کے بعد اس ڈاکٹر نے بچی کو ہوش دلایا اور وہ بچ گئی۔ لیکن یہی طریقہ اس نے جب ایک بالغ شخص پر اپنایا تو یہ ناکام رہا
 

جیا راؤ

محفلین
رے بیز ---- ایک جان لیوا بیماری
[FONT="Nafees Naskh[FONT="Urdu Naskh Asiatype"]"]قدیم زمانے سے ہی کتا انسان کا وفادار جانور رہا ہے لیکن یہی محافظ ہمارے جان لیوا دشمن کا روپ بھی دھار سکتا ہے ۔ رے بیز (Rabies) یا سگ گزیدگی ایک ایسی موذی بیماری ہے جو عموماً پاگل کتے کے لعاب میں موجود وائرس سے ہوتی ہے اور ایسے کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں پھیل جاتی ہے ۔ رے بیز سنسکرت زبان کے لفظ ''ربھاس'' سے اخذ کیا گیا ہے ، جس کے معنی تشدد ہیں ۔ اس بیماری کا پہلے کوئی قابل اعتماد علاج نہ تھا ۔ 6 جولائی 1885 میں لوئی پاسچرنامی سائنسدان نے رے بیز میں مبتلا پہلے انسان کا علاج کیا جو کامیاب رہا اور پھر آہستہ آہستہ سائنس نے ترقی کے مراحل طے کئے۔
رے بیز کی مہلک بیماری انسانوں میں دودھ پلانے والے جانوروں خاص طور پر کتے ، بلی ، چمگادڑ ، لومڑی ، گیدڑ اور نیولے کے کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے ۔ ہمارے ارد گرد کتے خاص تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اکثر افراد اس کے کاٹنے کی شکایت کے ساتھ اسپتالوں کارُخ کرتے ہیں۔ رے بیز کا وائرس (Rhabdoviridae) کی فیملی Lyssavirus سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وائرس کی شکل پستول کی گولی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ وائرس رے بیز کی بیماری میں مبتلا جانور جس کو پاگل (Rabid) کہا جاتا ہے کہ منہ کی رطوبت میں پایا جاتا ہے ۔ جب بیماری میں مبتلا جانور انسان کو کاٹتا ہے تو یہ وائرس اس رطوبت کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر انسان بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
رے بیز کا وائرس انسانی جسم میں خون کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعصاب (Never Fibres) کے ذریعے سفر کرتاہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یہ وائرس 2.3 ملی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے ، اس لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کاٹنے کا زخم دماغ سے جتنا قریب ہوگامریض کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔ رے بیز وائرس انسانی جسم میں برسوں تک زندہ ر ہ سکتا ہے اور اپنی علامات دس دن سے ایک سال کی مدت میں ظاہر کرسکتاہے ۔
رے بیز کی بیماری کی علامات کے اعتبار سے دو اقسام ہیں ۔(01) فیورس(Furious) ، (02) ڈمپ(Dumb) ۔ پہلی قسم میںمریض کے دماغ میں سوزش ہونے کے باعث وہ ڈپریشن اور بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری قسم میں مریض اعضاء کے پٹھوں کی کمزوری اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جوکہ کافی خطرناک ہوتی ہے ۔ رے بیز کی پہلی علامت کتے کے کاٹنے کے دو سے چار دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے پہلے مرحلے میں مریض کو زخم کے ارد گرد چبھن ، خارش اور درد محسوس ہوتا ہے ۔ مریض بے چینی ، تھکاوٹ ، سردرد اور بخار محسوس کرتاہے ۔ جب رے بیز کا وائرس دماغ تک پہنچ جاتا ہے تو اس پر ہیجانی دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مریض کو پانی پینے اور دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے ۔ سانس لینے میں دشواری او رکاوٹ ہوتی ہے ۔ آنکھوں کی پتلی ٹھہر جاتی ہے ۔ یہ تمام علامات فیوریس رے بیز کی ہیں ۔ ایسے مریضوں کو فوری طور پر کسی علیحدہ اور محفوظ جگہ پر منتقل کردینا چاہیے ،کیونکہ رے بیز کی بیماری میں مبتلا شخص کے کاٹنے سے یہ بیماری دوسروں تک منتقل ہوسکتی ہے ۔ دوسری قسم ڈمب رے بیز میں مریض بالکل بے سدھ اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ غشی و نیم بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
رے بیز کی موذی بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔ وہ افراد جو کتوں کو پالتے ہیں یا وہ افراد جو ان جانوروں کے علاج معالجے سے منسلک ہیں یا ایسے فارم جہاں ان جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے ، انہیں چاہیے کہ اپنے پالتو کتوں کو رے بیز سے بچاؤ کے ٹیکے ''ویکسین'' لگوائیں اور خود بھی اس موذی مرض سے بچاؤ کے ٹیکوں کا کورس کروائیں۔
عالمی ادارہئ صحت(WHO) کے مطابق رے بیز سے بچاؤ کے لئے صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے جو پہلے دن ، ساتویں دن اوراٹھائیسویں دن لگتا ہے ۔ اس کے بعد حفاظتی اقدام کے طور پر ایک سال کے بعد ایک ٹیکہ اور پانچ سال کے عرصے میں اس کی حفاظت کے لئے ایک ٹیکہ دیا جاتا ہے ۔ اس طرح ہر پانچ سال کے بعد یہ ٹیکہ لگانے سے ساری زندگی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔
رے بیز کی بیماری کے طریقہ ئ علاج کے سلسلے میں چند ضروری باتیں یاد رکھنی چاہیے ۔ مذکورہ تمام جانوروں خاص طور پر کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد متاثرہ شخص کے زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے اچھی طرح دھوئیں ۔ اگرجراثیم کش لکوڈ موجود ہو تو اس سے اچھی طرح زخم صاف کریں ۔ زخم کو ٹانکوں یا پٹی کی مدد سے بند نہ کریں بلکہ کھلا رہنے دیں ۔ اگر خون زیادہ بہہ رہا ہو تو صرف ڈھیلی سی پٹی کر دیں تاکہ خون رُک جائے اور متاثرہ شخص کو فور ی طور پر قریبی اسپتال پہنچادیں۔
عام تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو ہم دس بارہ دن تک دیکھیں ، اگر وہ مرجائے تب ویکسین لگوائیں اور اگر وہ نہ مرے تو نہ لگوائیں۔ یہ تصوربالکل غلط ہے ۔ متاثرہ شخص کو دس دن سے پہلے تین حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کروادینا چاہیے تاکہ متاثرہ شخص اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہ سکے۔ اگر کاٹنے والے کتے کی نگرانی نہیں کرسکتے تو پھر رے بیز سے بچاؤ کے پانچ ٹیکوں کا مکمل کورس کروانا انتہائی ضروری ہے ۔ رے بیز سے بچاؤ کی ویکسین ''ویروریب ۔۔(Vero Rab) کے نام سے مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے اور اس کے صرف پانچ ٹیکے کاٹنے سے پہلے دن ، تیسرے دن ، ساتویں دن ، چودھویں دن اور اٹھائیسویں دن بازو میںلگتے ہیں ۔ یہ ویکسین نتائج کے اعتبار سے بہترین ہے ۔ ہمارے ملک کے کچھ اسپتالوں میں آج بھی 14 انجکشن پیٹ میں لگائے جاتے ہیں جو پرانا طریقہ علاج ہے اور عالمی ادارہئ صحت (WHO) نے اسے ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ رے بیز کی ویکسین کے ساتھ ساتھ رے بیز امینو گلو بیولین (RIG) بھی لگوانا بے حد ضروری ہے ۔ اس سے متاثرہ شخص کو فوری طور پر رے بیز وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت حاصل ہوجاتی ہے او روائرس کو متاثرہ جگہ سے ختم کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔
دنیابھر میں رے بیز کا یا تو خاتمہ کیا جاچکا ہے یا وہ اپنے زوال پر ہے ، خاص طور پر شمالی امریکہ اور یورپ بلکہ ایشیاء کے کچھ اعلیٰ معیارات کے حامل ممالک بھی اس کی دسترس سے دور ہورہے ہیںجس کے نتیجے میں تھائی لینڈ، سری لنکا ، کوریا اور ویت نام میں ہر سال رے بیز کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد چند ایک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ دنیا بھر میں اس جان لیوا مرض میں بدقسمتی سے دو ممالک پاکستان اور بھارت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس افسوسناک صورتحال کی بڑی وجہ مرض اور اس کے علاج سے لا علمی کے ساتھ ان مریضوں کا غلط رویہ ہے ، جو علاج کے لئے گھریلو ٹوٹکے یا متبادل ادویہ استعمال کرتے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ این آئی ایچ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ'' جدید تجربہ گار کے قیام کے ساتھ تربیت یافتہ سائنسدانوں کا بھی تقرر کرے اور کوالٹی کنٹرول کے مفصل اور جامع طریقہ کار کا بھی اطلاق کرے۔ انہیں بین الاقوامی اعلیٰ معیار کی تیاری کی سطح تک پہنچنا چاہیے ، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور کچھ قابل عمل پروگرام مرتب کیے جائی تو دیگر ممالک کی طرح جیسا کہ ملائیشیانے کتوں کی آبادی پر قابو اور ویکسی نیشن کو لازمی قرار دے کر اس بیماری سے اپنے ملک کو نجات دلادی ہے ۔ تھائی لینڈ کی وسیع سرحد سے اس مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے ، پاکستان بھی اس موذی بیماری سے نجات حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے ۔ اگرکتے کے کاٹے کا ابتداء ہی میں بہتر علاج کرلیاجائے تو اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم علاج میں لاپروائی کی صورت میں بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ، جو مریض کی موت کا سبب تک بن سکتے ہیں۔
[/FONT][/FONT]

بہت ہی معلوماتی اور مفید مضمون ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک اور بات یاد رہے کہ رے بیز کا شکار کتے کے منہ کے لعاب اور اگلے پنجوں میں‌ بھی یہ وائرس پائے جاتے ہیں کیونکہ کتے کا لعاب اس کی اگلی ٹانگوں اور پنجوں‌ پر گرتا رہتا ہے
 
Top