ریمنڈ کیس: تاریخ بنانے یا بگاڑنے کا موقع

ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ جتنا سادہ تھا اتنا ہی پیچیدہ کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی باوقار اور طاقتور ملک ہوتا تو بات سیدھی اور سادہ تھی کہ دن دیہاڑے بیچ چوراہے ایک امریکی نے انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا، تیسرے کو اس کی بلائی گاڑی نے کچل ڈالا، ایف آئی آر درج ہوئی اور ابتدائی تفتیش میں واضح ہو چکا کہ یہ ہرگز دفاع نہیں بلکہ قتل عمد ہے کیونکہ دفاع کے بھی کچھ انداز اور حدود قیود ہوتے ہیں۔ دفاع میں نہ تو پشت پہ گولیاں برسائی جاتی ہیں اور نہ بعدازاں مشن مکمل ہونے کی ویڈیو ہی بنائی جاتی ہے۔
امریکہ شاید اپنے شہریوں کے علاوہ کسی کو انسان ماننے کو تیار نہیں، ورنہ شہری کسی بھی ملک کا ہو وہ اس قدر بے لگام نہیں ہو سکتا کہ جہاں چاہے گن لہرائے اور چند لاشے گرا کر تنہا مسکراتا چلا جائے۔تاہم امریکہ نے دبائو اور بے انصافی کروانے کی حد کر ڈالی۔ حکومت پر اس قدر شدید دبائو ڈالا گیا گویا یہ اس کا ئنات کا آخری شخص ہے جو نہ بچ سکا تو دھرتی پہ کوئی انسان نہ بچے گا۔ بہرحال ماورائے عدالت ریمنڈ کو چھڑانے کی ہرممکن تدبیر بروئے کار لائی گئی اور ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا گیا۔ جب بات بنتی نظر نہ آئی تو اس قاتل کو پورا زور لگا کر سفارتکار ثابت کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
جیسا کہ خبریں آ رہی ہیں شاہ محمود قریشی آڑے آئے، اس سے پہلے دفتر خارجہ کے سیکرٹری اور عملہ آڑے آیا، انہیں سپریم کورٹ کا ڈر تھا، خوف خدا تھا یا ملی غیرت کا جذبہ کہ انہوں نے اس سفاک قاتل کو جعلی طور پر سفارتکار ثابت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ 20 جنوری تک کی دستاویزات کے مطابق کسی صورت بھی یہ سفارتکار نہ تھا، بالفرض ہو بھی تو بین الاقوامی قوانین کے ماہرین پورے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ ایک تو ویانا کنونشن کے تحت کسی سفارتکار کو بھی میزبان ملک میں قتل و غارت گری کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی۔ دوسرے ویانا کنونشن تب غیرموثر ہو جاتا ہے جب کسی ملک نے خود سے قانون سازی کر رکھی ہو اور ہمارا اپنا قانون اور آئین موجود، سو یہ ویانا کنونشن کے تحت نہیں ہمارے اپنے قانون کے تحت کیس کا سامنا کرے گا۔
یہ تو تب تھا اگر ریمنڈ واقعی سفارتکار ہوتا جبکہ حالات اور شواہد اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ریمنڈ سے دستیاب ہونے والے سامان میں سفارتکاری کے کاغذات نہیں بلکہ دہشت گردی کے آلات برآمد ہوئے ہیں۔ دفتر خارجہ کا باضابطہ بیان بھی ریکارڈ پہ ہے کہ جب سے ریمنڈ گرفتار ہوا ڈرون حملے بند ہو چکے ہیں۔ ریمنڈ اس سے قبل پشاور میں خفیہ ایجنسیوں کے ریکارڈ پر ناپسندیدہ شخص قرار پا چکا ہے۔ دربار میں دہشت گردی سے قبل یہ یہاں بھی دیکھا گیا۔ اس کے لئے بہت زور لگانے والے امریکہ نے اس کے صحیح کوائف بتانے سے انکار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ سفارتکار نہیں بلکہ خفیہ ایجنسی کا کارندہ ہے کیونکہ امریکی قانون کے تحت خفیہ ایجنٹوں کے اصل کوائف آشکار کرنا منع ہے۔ عسکری معاملات کے ماہرین اور بین الاقوامی امور کے جاننے والے بتا رہے ہیں کہ ریمنڈ دراصل اتنا بڑا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس پاکستان مخالف اتنے امریکی راز ہیں کہ جن کے افشا ہونے کا کسی صورت بھی امریکہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ امریکی جسم وجسد کی اس ریمنڈ نامی طوطے میں جان ہے۔ اگر ریمنڈ کا سر موڑا گیا تو امریکی غبارے سے بہت حد تک ہوا نکلنے کا معاملہ ہو گا سو امریکہ ہر صورت اس کی رہائی چاہتا ہے اب اس نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اس ساری بحث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ریمنڈ کی رہائی امریکہ کے لئے کس قدر ضروری اور پاکستان کے لئے کس قدر خطرناک ہو گی۔ ایک ایسا جاسوس جو پاکستان میں ڈرون حملوںکا ماسٹر، بلوچستان و سرحد میں دہشت گردی کے بیج بونے اور اس کی براہ راست مانیٹرنگ کرنے والا ہے۔ وہ پاکستان کی سلامتی کو جانے کتنے کھائو لگا چکا ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ بات جس طرح پھیل چکی ہے وہ اپنی تحقیقات اور اپنے دائرہ کار کو مزید بڑھائے۔ بات دو اشخاص کے قاتل سے آگے بڑھ کر وطن عزیز کے قاتل اور انتہائی مہلک دشمن ہونے تک جا پہنچی ہے۔چنانچہ معاملے کی پوری حساسیت کے تناظر میں نہایت جرأت سے موقف اپنایا جائے۔ پوری تفتیش کی جائے، ہر طرح کے دبائو کو پوری جوانمردی سے سامنا کیا جائے۔ کمزور معیشت کو دیکھ کر بزدل بننے کی بجائے اللہ پر توکل کرتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ کیا جائے۔ معیشت بھی تب ہی سودمند ہوتی ہے جب ملک موجود ہو اور ملک کے دشمن اپنے کیفر کردار تک پہنچیں وگرنہ حاکم بدہن اگر ملک نہ رہا تو کہاں کی معیشت اور کہاں کی اقتصادیات!
سو حکومت سے درخواست ہے کہ اپنے وزیروں کی قربانیاں دینے کے بجائے حالات و حقائق کا پوری دوراندیشی سے جائزہ لے۔ بات اب وزراء کی قربانیوں سے نہیں بنے گی، قوم بیدار ہے، معاملات کھل چکے ہیں، میڈیا نگرانی کر کے پل پل کی خبر عوام تک پہنچا رہا ہے۔ دینی جماعتیں اور محب وطن گر وہ پوری طرح سرگرم عمل ہیں ،اگر اب غیرت کا مظاہرہ نہ کیا گیا، ریمنڈ کے معاملے میں کوئی سی بھی سستی کی گئی تو پھر ملک کی سلامتی کا بھی نقصان ہو گا اور حکومتیں بھی قربان ہونے کے امکانات واضح ہیں اور دنیا کے حالات اس خدشے کی تائید کرتے ہیں۔ اللہ سمجھنے اور استقامت دکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بشکریہ،،،،ہفت روزہ جرار
 
Top