رہے منتظر ہم تو خود کو سجائے---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
فلسفی
@خلیل الر حمن
------------
فعولن فعولن فعولن فعولن
--------------
رہے منتظر ہم تو خود کو سجائے
مگر تم تو ظالم نہ ملنے کو آئے
-----------
محبّت سے اپنی کھلائیں گے تم کو
بڑے پیار سے تھے پراٹھے بنائے
--------------
شبِ ہجر ہے اور ہیں یادیں تمہاری
کروں یاد دل میں زباں پر ہے ہائے
---------------
تمہیں نے لگائی ہے آتش یہ دل میں
تمہارے سوا کون اس کو بجھائے
--------------
بسی میرے دل میں ہے صورت تمہاری
تمہارے ہی دل میں ہیں سپنے سجھائے
--------------
تجھے دل نے سمجھا ہے محبوب اپنا
ترے منتظر ہیں نگاہیں جمائے
-----------------
ہوا حال جیسا ہے ارشد تمہارا
کسی کو خدا یوں نہ مجنوں بنائے
------------------
 

الف عین

لائبریرین
رہے منتظر ہم تو خود کو سجائے
مگر تم تو ظالم نہ ملنے کو آئے
----------- عورتیں خود سج کر محبوب کا انتظار کرتی ہیں، عاشق کا ایسا کرنا؟
دوسرا مصرع سمجھنا مشکل ہے

محبّت سے اپنی کھلائیں گے تم کو
بڑے پیار سے تھے پراٹھے بنائے
-------------- پراٹھے بنانے تھے یا ہیں؟ مستقبل میں کھانے کے لیے تو حال ہی میں بنائے ہوں گے! (باسی ہی کھلانا مقصد ہو تو اور بات ہے)

شبِ ہجر ہے اور ہیں یادیں تمہاری
کروں یاد دل میں زباں پر ہے ہائے
--------------- اور ہیں' کو اُرہے' بن جانا اچھا نہیں محض اور کافی ہے
دوسرے مصرع میں ایک ٹکڑا میں فاعل کے ساتھ اور دوسرا بغیر فاعل کے بھی فصیح نہیں، یاد بھی دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا اچھا نہیں لگتا
تصور میں تم ہو، لبوں پر ہے ہائے

تمہیں نے لگائی ہے آتش یہ دل میں
تمہارے سوا کون اس کو بجھائے
-------------- درست، لیکن 'دل میں یہ آتش' بہتر ہے

بسی میرے دل میں ہے صورت تمہاری
تمہارے ہی دل میں ہیں سپنے سجھائے
-------------- سمجھ نہیں سکا

تجھے دل نے سمجھا ہے محبوب اپنا
ترے منتظر ہیں نگاہیں جمائے
----------------- دو لخت ہے

ہوا حال جیسا ہے ارشد تمہارا
کسی کو خدا یوں نہ مجنوں بنائے
----------------- پہلا مصرع بے معنی لگتا ہے
یوں کہو تو بات بنے
ذرا اپنے ارشد کی دیکھو تو حالت
یا اس قسم کا کوئی اور مصرع۔

مختصر یہ کہ اس غزل کو بھی کہنے کے فوراً بعد پیش کر دیا گیا ہے، کیا یہ ضروری ہے کہ روزانہ ایک نئی غزل اصلاح کے لیے پوسٹ کی جائے بلکہ کہی جائے!
 
Top