نصیر ترابی رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا

سیما علی

لائبریرین
رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا
گئے دنوں کی رتوں کا زیاں ثواب ہوا

گزر گیا تو پس موج بے کناری تھی
ٹھہر گیا تو وہ دریا مجھے سراب ہوا

سپردگی کے تقاضے کہاں کہاں سے پڑھوں
ہنر کے باب میں پیکر ترا کتاب ہوا

ہر آرزو مری آنکھوں کی روشنی ٹھہری
چراغ سوچ میں گم ہیں یہ کیا عذاب ہوا

کچھ اجنبی سے لگے آشنا دریچے بھی
کرن کرن جو اجالوں کا احتساب ہوا

وہ یخ مزاج رہا فاصلوں کے رشتوں سے
مگر گلے سے لگایا تو آب آب ہوا

وہ پیڑ جس کے تلے روح گنگناتی تھی
اسی کی چھاؤں سے اب مجھ کو اجتناب ہوا

ان آندھیوں میں کسے مہلت قیام یہاں
کہ ایک خیمۂ جاں تھا سو بے طناب ہوا

صلیب سنگ ہو یا پیرہن کے رنگ نصیرؔ
ہمارے نام سے کیا کیا نہ انتساب ہوا
 
Top