رچرڈہالبروک کی آخری چیخ

واشنگٹن ہسپتال میں اس کی نگہداشت پر مصری ڈاکٹر البیومی مامور تھا، وہ ہیلری کلنٹن کا بھی خصوصی معالج ہے۔ ہارٹ سرجری ایک انتہائی حساس، پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اس میں بچنے کے امکانات نوے فیصد بھی ہوں تب بھی موت کے خوفناک سناٹے مریض کے اعصاب پر مسلط ہوتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں انسان جھوٹ نہیں بولتا، اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اس کے دل اور ضمیر کی صدا ہوتے ہیں۔ ہالبروک کو شدید تکلیف میں دیکھ کر ڈاکٹر نے اسے پرسکون رہنے کی نصیحت کی۔ ہالبروک نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کی کشیدہ صورتحال دیکھ کر پرسکون رہنا ممکن ہی نہیں۔ مرنے سے قبل ہالبروک کے آخری الفاظ تھے کہ ’افغان جنگ ختم کرنا ہو گی‘‘ یہ شکست خوردہ اور خزاں رسیدہ تاریخی الفاظ امریکی منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کی اکثریت ان الفاظ کو افغان جنگ ختم کرنے کی کال قرار دے رہے ہیں اور وہ لوگ بھی جو افغان جنگ کے حامی ہیں، اسے ہالبروک کی آخری خواہش سمجھ کر احترام کرنے لگے ہیں، لوگ ششدر ہیں کہ ہالبروک تو افغان جنگ کا شدید حامی تھا، مرتے وقت اس نے کیا کہ دیا، حقیقت یہ ہے کہ بش، اوباما، مائیک مولن، جنرل پیٹریاس اور جنرل میک کرسٹل سمیت ہر شخص دلی طور پر جنگ کا حامی نہیں ہے۔ امریکی شکست کو بھانپ کر سب یہی چاہتے ہیں کہ یہ جنگ بند ہو جائے مگر جنگ بند کر کے باعزت واپسی کیسے ممکن ہو گی اس کا حل تلاشنا سب کے لئے ناممکن بن چکاہے، اپنا سب کچھ پھونک کر اوباما بھی کئی بار کہہ چکا ہے کہ افغان جنگ میں مشکلات کا سامنا ہے اور افغانستان سے انخلاء جلد ہو گا… مگر کیسے؟ اس کا جواب دینا اس کے لئے بھی ناممکن بن چکا ہے، امریکی مدقوق معاشرے کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ فوج باعزت واپس آ جائے… مگر کیسے! اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں۔
اے بی سی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ ہفتے ٹیلی فونک سروے کیا، اس کے مطابق ساٹھ فیصد لوگ افغان جنگ کو لاحاصل قرار دیتے ہیں، آج تک دنیا کے سامنے عراق اور افغانستان کے جنگی حالات اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے والے امریکی کمانڈوز بھی شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، عراق میں پرتشدد علاقوں کی کمانڈ کرنے والے کمانڈر کا نام جنرل جیمز کانوائے ہے۔ یہ جنرل انتہائی سخت گیر، جنگجو اور منہ پھٹ ہے، امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب ’’اوباما کی جنگیں‘‘ میں لکھا ہے کہ جنرل جیمز کانوائے نے اوباما کو کہا کہ ’’اب خدا بھی ہمارے خلاف ہو چکا ہے اور دشمن کی مدد کر رہا ہے‘‘۔ یہ انتہائی چڑچڑا اور تلخ مگر مبنی برحقیقت جواب ہے۔ دیکھ لیجئے کبھی امریکا چیختا ہے کہ افغانستان میں اس کی حالت دگرگوں ہے، کبھی بھارت واویلا مچاتا ہے کہ لشکر طیبہ سے حملوں کا خوف ہے، ذرا سوچیے کہ کیا کبھی طالبان اور القاعدہ ارکان نے بھی ایسی دہائی دی ہے کہ ہمیں امریکا جیسی خونخوار اور بھارت جیسی عیار طاقت سے حملوں کا خطرہ ہے؟ یقینا یہ چھیل چھبیلے نوجوان اللہ کے سوا کسی طاقت سے خائف نہیں ہیں…؎
تلاطم خود بخود بے تاب رہتا ہے سلامی کو
اگر تیراک اچھا ہو تو دریا کچھ نہیں کہتا
اب یہ کوئی گنجلک اور پیچیدہ حقیقت نہیں رہی کہ وہ خون آشام صیاد جو عناد و مفاد کی صلیب کا طوق پہنے صلیبی جنگیں چھیڑ بیٹھا تھا، اس کا چھان بورا ہی باقی رہ چکا ہے، اس کے رگ و ریشے اب اس قدر دکھنے لگے ہیں کہ بار بار واپسی کا اعلان تو کر دیتاہے، مگر واپسی کی کوئی راہ اسے سجھائی نہیں دیتی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکا کی رسوا کن واپسی کا عمل پاکستان سے شروع ہو چکا ہے، امریکی قونصل جنرل الزبتھ رڈ طالبان کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہو کر بھاگ گئی۔ مجھے زیادہ ہنسی پاکستان میں تعینات سی آئی اے کے چیف جوناتھن بینکس پر آ رہی ہے کہ اسے دھمکی ملی ہی نہیں مگر پھر بھی موت کے خوف سے پاکستان سے نکل بھاگا۔
ایک ہارٹ سرجری رچرڈ ہالبروک کی ہوئی، یقینا اس میں زندہ بچ جانے کے امکانات ہوتے ہیں اور ایک سرجری افغانستان میں طالبان امریکا کی کر رہے ہیں اور اس سرجری میں اس کے بچنے کا امکان ایک فیصد بھی نہیں۔ ہالبروک نے سرجری سے قبل سچ بول دیا تھا مگر جو سرجری طالبان کر رہے ہیں، اس میں سچ بولنا امریکا کے لئے محال ہے، البتہ سرجری کے بعد دنیا کو ضرور پتہ لگ جائے گا کہ یہ سرجری کتنی خوفناک اور بھیانک تھی اور اس کو جہادی سرجری کہتے ہیں:…؎
جب ساز سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رسم ابھی تک باقی ہے وہ ریت ابھی تک جاری ہے
جب پرچم جاں لے کر نکلے۔ ہم خاک نشین مقتل مقتل
اس وقت سے لے کر آج تلک کفار پر دہشت طاری ہے



بشکریہ۔۔ہفت روزہ جرار
 

زینب

محفلین
بڑئ تاریخی الفاظ تھے جب اپنی کرتوتیں نظر انے لگین تو جاتے جاتے بڑک مار گیا۔۔۔۔۔بکواس نری بکواس۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہونے والا سب ویسا ہی رہے گا
 
Top