" رُل تے گئے آں۔۔ پر چس بڑی آئی اے" کالم نگار | مطیع اللہ جان

" رُل تے گئے آں۔۔ پر چس بڑی آئی اے"
کالم نگار | مطیع اللہ جان....ازخودی
جنگ ستمبر جس نے بھی شروع کی یا نقصان جو بھی ہوااور جس کا ہوا، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر کے مزا آگیا۔اس جنگ کی گولڈن جوبلی پر اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراج ِ تحسین پیش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ سیاست اور مصلحت سے عاری پاک فوج کے ان عظیم سپوتوں نے اپنی جان پر کھیل کر پاک سرزمین کی طرف بڑھتے ہوئے دشمن کے قدموں کو روکا۔ہمارے یہی وہ قومی ہیرو ہیں جو ہماری نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔اپنی مٹی کی خاطر جان قربان کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا،کسی مباحثے میں نہیں الجھے، اخباروں میں اپنی تقاریر اور تصاویرکی تشہیر نہیں کروائی ،بس خاموشی سے کسی لالچ اور غرض کے بغیر اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دی۔زندہ قوموں کو اپنے ایسے شہیدوں پر بجا طور پر فخر ہوتا ہے اور یہی وہ شہید اور غازی ہیں جو ملک اور آئین پاکستان کے دفاع کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنے آئینی حلف کی بہترین انداز میں پاسداری کرتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان شہیدوں اور غازیوں کوخراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ایک طریقہ تو رسمی سرکاری طریقہ ہے جس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔بڑی بڑی تقریبات ،قبروں پر پھول چڑھانا،فضائی کرتب، پریڈیں، ملی نغمے، اشتہارات اور بیانات ۔ کیا ہمارے شہیدوں نے جنگ ستمبر میں جو قربانی دی تھی وہ اس پاکستان کے لئے تھی جس کی جھلک ہمیں بلوچستان ، سندھ اور سپریم کورٹ میں جاری ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی سے متعلق مقدمات کی سماعت میں نظر آتی ہے؟ حکومتی، عسکری، میڈیا اور سیاست کے شعبوں میں موجود چند کم عقل عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی عوام پر فوج کی حکمرانی یا برتری ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ اسلام ، دھرتی ماں ، آئین ، قانون اور پاکستانی قوم کی برتری ثابت کرنے کے لئے دی تھی۔ایسے ایسے بے شرم تجزیہ کار بھی سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان شہیدوں کی قربانیوں کو فوج کی قربانی تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج کے سپوتوں کی قربانیاں پوری پاکستانی قوم کی قربانیاں ہیں۔ان جوانوں کا لہو کسی ادارے یا فوجی آمر کی خاطر نہیں بلکہ مملکت خدا داد پاکستان کے تحفظ کی خاطر بہا ہے۔کافی عرصے سے ہر سول منتخب حکومت کے خلاف تسلسل سے ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد محض یہ ثابت کرنا ہے کہ ملک کی سول اور سیاسی قیادت نا اہل، کرپٹ اور غیر وفادار ہے اور اس کے مقابلے میں فوج ہی ملکی تحفظ کی واحد ذمہ دار و ضامن ہے۔

ان عظیم شہیدوں کے تو وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کی قربانی کو سیاسی عزائم یا سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بطور دلیل پیش کیا جائے گا۔ کوئی بھی پیشہ ور سپاہی شہرت یا مقبولیت کا بھوکا نہیں ہوتا۔ جو تجزیہ کار یا عناصر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقبولیت (جس میں کوئی شک نہیں ) کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے سول حکومت کی "غیر مقبولیت" سے موازنہ کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر موجودہ سپہ سالار کو تو گمراہ نہیں کر پائیں گے مگر ان کے بعد میں آنے والا سپہ سالار کیا کرے گا کوئی نہیں جانتا۔اس میں واضح قصور ہمارے سیاست دانوں کا بھی ہے۔جمہوریت پسند"عناصر ©"جو سیاسی عمل کے تسلسل اور سیاسی قیادت کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ان کا ہمیشہ سے یہ گلہ رہا کہ سیاسی حکومتیں وزارت خارجہ اور وزارت دفاع فوج کے حوالے کر دیتی ہیں مگر آج حالات یہ ہیں کہ وزارت قانون اور وزارت داخلہ بھی سیاسی حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہی۔پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم کے ذریعے عدل اور انتظامیہ کے دو بازو بھی کاٹ کر گبر سنگھ کے حوالے کر دیے ہیں ۔ایسے میں مدعی حکومت سست اور گواہ تجزیہ کار چست کے مترادف جمہوریت پسند "عناصر"بھی کیا کریں۔ایک طرف فوجی عدالتیں ©"انصاف"فراہم کر رہی ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈی ایچ اے لاہور نے ازخودہی "قانون سازی"کر کے شہر لاہور کے تقریبا آدھے حصے کو اپنے لئے مختص قرار دے دیا ہے۔اس حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلٰی کو حقیقی خادم اعلٰی تصور کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے تحفظات کوبھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔ایسی صورت میں جنگ کی کامیابی کا سہرا گھوڑے کے سر اور ناکامی کا طوق ہمیشہ گھڑ سوار کے گلے ڈالا جاتا ہے۔ کارگل کی جنگ اس کی ایک عمدہ مثال تھی اور ہے ۔مگر جنگ جو بھی شروع کرے جب قوم پر تھوپ دی جائے تو اس کے لئے لڑنا اور جان قربان کرنا قومی فرض ہے۔ باقی باتیں جنگ کے بعد کی جاتی ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے بطور قوم ان "باقی باتوں "کے لئے کبھی وقت ہی نہیں نکالا ۔
کہاں ہمارے جری بہادر شہید جنہوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور کہاں ہمارے سول و فوجی حکمران جنہوں نے کبھی اپنی جنگی حکمت عملی پر تنقیدی جائزہ لینے کی بھی اخلاقی جرا ت نہیں کی۔ کہاں پاک فوج کے جری بہادر لالک جان اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید جنہوں نے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیااور کہاں ہمارے فوجی آمر اور منتخب وزراءاعظم جنہوں نے اپنی نوکری اور اقتدار کی خاطر آئین اور جمہوریت کا سر قلم کرتے ہوئے آج تک یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی ہے کہ کارگل کی جنگ ضروری تھی یا نہیں اور اس سے ہمیں کیا حاصل ہوا، کتنا نقصان ہوا؟کہاں جنگ ستمبر کے وہ بہادر فوجی سپاہی و افسران جنہوں نے سینوں پر ٹینکوں کے گولے کھائے اور بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں تلے لیٹ گئے اور کہاں وہ بزدل قائدین جو آج تک ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو بھی منظر عام پر لانے سے گریزاں ہیں اور غفلت کے مرتکب حکام کو سزا دینا تو دور کی بات انہیں مدت ملازمتوں میں تین تین سال کی توسیع دی گئی ، ایسی توسیع دینے اور لینے والے آج جنگ ستمبر کے ان شہیدوں کو کس منہ سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ان عظیم شہیدوں کو ایسے حکمرانوں کی تحسین اور پھولوں کی چادروں کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں قوم کے شہیدوں اور جنگ کی فتح کو ضرور یاد رکھنا چاہئیے مگر بحیثیت قوم اور ایٹمی قوت غیر ضروری جنگوں میں خود ساختہ فتوحات اور مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے شہیدوں کی قبروں کی اوٹ نہیں لینی چاہئیے۔ایسا تبھی ممکن ہو گا کہ ہم اپنی فتوحات کے جشن کے ساتھ ساتھ کھلے دل و دماغ سے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان سے سبق سیکھیں۔ جنگیں دو قوموں کے درمیان ہوتی ہیں نہ کہ فوجوں کے درمیان تو اسکا فیصلہ بھی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو کرنا چاہیئے وگرنہ پھر ہو گا وہی جو ہوتا آیا ہے۔یعنی عوام پر جنگیں تھوپی جائیں گی، شہیدوں کی لاشوں پر فتوحات کاجشن منایا جائے گا اور چند غازی لوگ(سب نہیں ) اقتدار کا میڈل سینے پر سجا لیں گے۔ جنگ ستمبر کی تقریبات اور جشن دیکھ کر سرائیکی کا ایک معروف لوک گیت یاد آتا ہے ۔۔۔
" سوہنیاں دے نال اساں کیتی بے وفائی اے
رُل تے گئے آں ۔۔پر چس بڑی آئی اے"
 
Top