رو ئے زمین کا سب سے زیادہ نشیبی حصہ (علاق

راجہ صاحب

محفلین
ارشاد ربانی ھے ۔{ غلبت الروم (2) فی أدنى الأرض وهم من بعد غلبهم سيغلبون(3) فى بضع سنين لله الأمر من قبل ومن بعد ويومئذ يفرح المؤمنون(4)} سورة الروم.

روم زمین کے ادنی حصہ میں مغلوب ھونگےاور مغلوبیت کے بعدچند سال کےاندر پھرغالب ھونگے۔پہلے اور بعدکےتمام حکم اللہ ھی کے ہاتھ۔ میں ھے اور اس روز مؤمنین خوشی منائیں گے۔

سائنسی حقیقت:

تاریخی مصادر میں مملکت بیزنطیہ ۔ جو رومی سلطنت کا مشرقی حصہ ھے۔کے درمیان ھونے والی جنگ کا تذکرہ ھے ۔ اوریہ جگہ مقام اذرعات اور بصری کےدرمیان بحرمیت کےقریب ھے۔۔ سنہ619ء میں ھونے والی جنگ مین فارسیوں نے روم پرعظیم فتح حاصل کی۔

اور بیزنطینی رومیوں کو اس جنگ میں زبردست نقصان برداشت کرنا بڑا۔ ان تمام معاصرین کو اس جنگ کے نتیجہ میں اس کا اندیشہ تھا۔ کہ مملکت بازنطینیہ اس معرکہ کے بعد بالکل ختم ھو جائےگی ۔ لیکن غیر متوقع طور پر دسمبر 627 ء میں بازنطینیوں اور فارسیوں کے درمیہن نینوا کےمقام پر ایک اور جنگ ھوئی جس میں رومیوں نے فارس کوشکست دی۔اور چند ماہ کےبعد فارسی لوگ بازنطینہ کےساتھ۔ معاھدہ کرنے پر مجبور ھوگئے۔ جس کی بنیاد پر وہ تمام علاقےان کو واپس کرنے پڑے جو انھوں نے گذشتہ جنگ میں حاصل کئےتھے۔

عالمی پیمانے پر نشیبی زمین کی جغرافیا‏ئی تصویریں اس بات کی وضاحت کرتی ہيں کہ زمین کاسب سےنشیبی حصہ وہ حصہ ھےجو بحر میت کےقریب فلسطین میں ھے۔ جو سطح سمندر سے 395 میٹر گھرا ھے۔

سبب اعجاز:

مندرجہ بالا آیات میں معجزہ کے دو اسباب ھیں۔ پہلا یہ کہ قرآن کریم نے روم کی شکست فاش کے چند سال بعد پھر فارس پر ان کےغلبہ اور فتح کی پیشین گوئي کی ھے۔جس کے لئے قرآن میں بضع کا لفظ استعمال ھوا ھے۔ اور یہ کلمہ عربی زبان میں پانچ اور سات یا ایک اور نو کے عدد کے درمیان کیلئے استعمال کیا جاتا ھے۔ اور قرآن کریم کی پیشین گوئی سات سال کے بعد پوری ھوئی، اور فارس اور روم کے درمیان 627 ء میں دوسری جنگ ھوئی جس میں روم کو فتح حاصل ھوئی، اس کے ساتھ۔ اگر غزوۂ بدر میں مشرکین قریش پر مسلمانوں کی فتح کو جوڑ کر دیکھا جائے جو مشرکین عرب کے نزدیک ایک نا ممکن بات تھی یہاں تک کہ انھوں نے قرآن کریم کی ان آیات کا مزاق اڑایا، اور مسلمانوں کے لئےاس گمان شدہ فتح پر رھن دیے تک کا خطرہ مول لیا، لیکن ان کے تمام گمان غلط ھوئے اور قرآن کریم کا معجزہ اس وقت سامنے آگیا جب لوگوں نے پھلے سے روم کی فتح کی خبر دی۔

آیات میں معجزہ کا دوسرا سبب یہ ھے کہ قرآن کریم نے ایک جغرافی حقیقت کا اس وقت انکشاف کیا جب لوگ اس سے بالکل نا واقف تھے۔ قرآن کریم کے مطابق رومیوں کو زمین کے "ادنى" علاقہ میں شکست ھوئی اور لفظ "أدنى" عربی میں اقرب، اور سب سے زیادہ نشیبی، دونوں معنوں میں آتا ھے تو ایک اعتبار سے یہ علاقہ جزیرةالعرب کےسب سے زیادہ قریب ھے، اور دوسرے اعتبار سے یہ زمیں کا سب سے زیادہ نشیبی علاقہ ھے۔ جو سطح سمندر سے 1321 فیٹ (تقریبا 400 میٹر) گھرا ھے، اور سٹلائٹ کے انکشاف کے اعتبار سے خشکی پر یہ سب سے زیادہ نشیبی علاقہ ھے ، جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں مذکور ھے۔ تاریخ بھی اس پر شاھد ھے کہ یہ جنگ بحر میت کے گھرے حصہ میں ایسی جگہ ھوئی جو سب سے زیادہ نشیب میں ھے۔ جو عصر جدید کے آلات سے بھی جس کا صحیح اندازہ نھیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اس وقت یہ نا ممکن چیز تھی کہ یہ دنیا کا سب سے نشیبی حصہ ھے، کیا یہ اس بات کی دلیل نھیں ھے۔ کہ قرآن کریم اللہ کی جانب سے نازل شدہ وحی ھے ۔ ارشاد ربانی ھے،( وقل الحمد لله سيريكم آياته فتعرفونها ) ئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ فرما دیجئے کہ شکرھے اس اللہ جل شانہ کا جو عنقریب تم سب کو اپنی نشانیاں دکھا دیگا، پس تم عنقریب اس کو جان جاؤکے۔
15-1.jpg


قرآن اور سنت ميں علمى اعجاز كى بين الاقوامى تنظيم
 
Top