روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

جاسم محمد

محفلین

روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

ویب ڈیسک جمعرات 21 اکتوبر 2021

ڈالر کے انٹربینک ریٹ اتارچڑھاؤ کے بعد 174 روپے سے بھی تجاوز کرگئے ہیں - فائل فوٹو

ڈالر کے انٹربینک ریٹ اتارچڑھاؤ کے بعد 174 روپے سے بھی تجاوز کرگئے ہیں - فائل فوٹو
کراچی: امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور جمعرات کے روز ایک امریکی ڈالر انٹر بینک میں174 روپے سے بھی تجاوز کرگیا۔
حکموت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے، بدھ کے روز انٹر بینک میں ڈالر کی قدر 173 روپے 47 پیسے پر بند ہوا تھا۔ جمعرات کے روز بھی روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور ایک وقت میں ڈالر 174 روپے 10 پیسے تک جاپہنچا تاہم بعد میں ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ایک ڈالر 49 پیسے اضافے کے بعد 173 روپے 96 پر بند ہوا۔
ڈالر کی قدر کے حوالے سے سیکریٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات اور ترسیلاتِ زر کی آمد کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہیں، زرِمبادلہ ذخائر اور ترسیلات میں بہتری کے باعث ڈالر کی قدر 150 سے 155 تک ہونی چاہیے، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں تاخیرکی اطلاعات سے درآمدکنندگان کی جانب سے ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے، آئی ایم ایف کے سخت مطالبات سے محسوس ہوتا ہے کہ روپے کو بے قدر کیا جائے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیما علی آپ کے بینک ذرائع کیا کہتے ہیں؟ ڈالر کی اونچی اُڑان میں کب تک کمی آسکتی ہے؟
ابھی اور اوپر جاسکتا ہے ۔۔۔

ڈالر کی بڑھتی قدر: گورنر سٹیٹ بینک کے متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید​

21 اکتوبر 2021
رضا باقر

،تصویر کا ذریعہRADIO PAKISTAN
پاکستان میں سیاست دانوں کے بیانات پر آئے روز تنقید اور بحث ہوتی رہتی ہے، کبھی ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ کا شور ہوتا ہے تو کبھی لیاقت علی خان کی پیدائش و وفات کراچی بتائی جاتی ہے لیکن یہ سب باتیں کچھ دیر کے ہنسی مذاق کے بعد نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
تاہم اگر ملک کے ایک اہم معاشی عہدے پر فائز شخص معیشت کے انتہائی سنجیدہ پہلو پر ایک غیر سنجیدہ بات کرے تو یقیناً بات صرف ہنسی مذاق تک نہیں رہتی بلکہ اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک بیان کی وجہ سے پاکستان کے سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر پر اس وقت سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
انھوں نے گذشتہ روز مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایکسیچینج ریٹ کے اوپر جانے سے کچھ لوگوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ تو جن لوگوں کو فائدہ ہوا ہے، انھیں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔‘۔۔۔۔
اس حوالے سے اکثر صارفین یہ سوال بھی پوچھتے دکھائی دیے کہ 'کیا یہ مذاق ہے؟' اس بیان کے حوالے سے جہاں اکثر صارفین معاشی اصولوں کے حساب سے اس کی منطق کے بارے میں سوال کر رہے ہیں وہیں کچھ صارفین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر کو صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کا خیال ہے، اور ملک کے باقی عوام کی فکر نہیں ہے۔
 

علی وقار

محفلین
کچھ لوگوں کا یقینی طور پر فائدہ ہو رہا ہے بلکہ ہر اس گھرانے کا فائدہ ہے جن کے کمانے والے دیار غیر میں مقیم ہیں اور وہ اپنی جمع پونجی پاکستان منتقل کر رہے ہیں مگر اس ملک میں رہنے بسنے والوں کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ موجودہ حکومت لوٹی ہوئی دولت پاکستان نہ لا سکی، عمران خان کی ٹیم سرمایہ کاروں کو بڑی تعداد میں پاکستان نہ لا سکی، بے روزگاری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ کچھ اقدامات بہتر سمت میں اٹھائے گئے مگر کرپشن پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ مجموعی طور پر موجودہ حکومت کچھ بھی ایسا نہ کر پائی کہ عوام ان سے مطمئن ہو پائے۔ عمران خان صاحب کیوں چاہیں گے کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہوں مگر بد قسمتی سے اُن کی ٹیم کو اُن کے اصل ایجنڈے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کے آنے سے قبل ملک کا معاشی نظام دگرگوں تھا مگر موجودہ حکومت کسی حد تک بہتری لا سکتی تھی۔ ایسا بھی نہ ہو پایا۔ کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ نئی حکومت سے بھی کوئی زیادہ توقع نہیں۔ حد سے حد شاید یہ ہو جائے کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک اگلی حکومتوں کو پھر سے بوجوہ ڈالرز عنایت فرما دیں۔ اس ملک کی معاشی بے سمتی، سیاسی بے یقینی اور وائٹ کالر کرائم کو کون روکے گا؟ میڈیا اور عدلیہ نے جو چیک اینڈ بیلنس رکھنا تھا، وہ بھی نظر نہیں آتا۔ انانیت، نرگسیت، مخالفین کو سیاسی عناد کے باعث کچل دینے کی پالیسی، تعویذوں، انگوٹھیوں کو پہن لینے، تسبیحیں پھیرنے اور گالم گلوچ سے کچھ سدھرنے والا نہیں۔ کیا یہ وہ نئی ٹیم تھی جس نے آ کر 2018 میں ملکی نظام کو راہ راست پر لانا تھا۔ ان کی تو زیادہ تر توجہ لا یعنی مسائل پر ہی مرتکز رہی اور اب بھی محض اقتدار میں رہنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور مخالفین زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
تسبیحیں پھیرنے اور گالم گلوچ سے کچھ سدھرنے والا نہیں۔ کیا یہ وہ نئی ٹیم تھی جس نے آ کر 2018 میں ملکی نظام کو راہ راست پر لانا تھا۔ ان کی تو زیادہ تر توجہ لا یعنی مسائل پر ہی مرتکز رہی اور اب بھی محض اقتدار میں رہنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور مخالفین زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
درست صد فی صد درست ۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
کچھ لوگوں کا یقینی طور پر فائدہ ہو رہا ہے بلکہ ہر اس گھرانے کا فائدہ ہے جن کے کمانے والے دیار غیر میں مقیم ہیں اور وہ اپنی جمع پونجی پاکستان منتقل کر رہے ہیں مگر اس ملک میں رہنے بسنے والوں کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ موجودہ حکومت لوٹی ہوئی دولت پاکستان نہ لا سکی، عمران خان کی ٹیم سرمایہ کاروں کو بڑی تعداد میں پاکستان نہ لا سکی، بے روزگاری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ کچھ اقدامات بہتر سمت میں اٹھائے گئے مگر کرپشن پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ مجموعی طور پر موجودہ حکومت کچھ بھی ایسا نہ کر پائی کہ عوام ان سے مطمئن ہو پائے۔ عمران خان صاحب کیوں چاہیں گے کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہوں مگر بد قسمتی سے اُن کی ٹیم کو اُن کے اصل ایجنڈے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کے آنے سے قبل ملک کا معاشی نظام دگرگوں تھا مگر موجودہ حکومت کسی حد تک بہتری لا سکتی تھی۔ ایسا بھی نہ ہو پایا۔ کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ نئی حکومت سے بھی کوئی زیادہ توقع نہیں۔ حد سے حد شاید یہ ہو جائے کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک اگلی حکومتوں کو پھر سے بوجوہ ڈالرز عنایت فرما دیں۔ اس ملک کی معاشی بے سمتی، سیاسی بے یقینی اور وائٹ کالر کرائم کو کون روکے گا؟ میڈیا اور عدلیہ نے جو چیک اینڈ بیلنس رکھنا تھا، وہ بھی نظر نہیں آتا۔ انانیت، نرگسیت، مخالفین کو سیاسی عناد کے باعث کچل دینے کی پالیسی، تعویذوں، انگوٹھیوں کو پہن لینے، تسبیحیں پھیرنے اور گالم گلوچ سے کچھ سدھرنے والا نہیں۔ کیا یہ وہ نئی ٹیم تھی جس نے آ کر 2018 میں ملکی نظام کو راہ راست پر لانا تھا۔ ان کی تو زیادہ تر توجہ لا یعنی مسائل پر ہی مرتکز رہی اور اب بھی محض اقتدار میں رہنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور مخالفین زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
درست صد فی صد درست ۔۔۔۔۔
امسال اپریل تک معاشی و مالی استحکام آچکا تھا۔ معیشت ۴ فیصد پر بڑھ رہی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے۔ ڈالر ۱۵۳ روپے تک گر چکا تھا۔ مگر خان صاحب کیلئے یہ سب کافی نہیں تھا۔ ان کو اگلا الیکشن جیتنا تھا جس کیلئے حفیظ شیخ کو ہٹا کر شوکت ترین کو لایا گیا۔ جس نے آتے ساتھ اپنی کمال پالیسیوں کی بدولت اس حکومت کی تین سالہ محنت پر پانی پھیر دیا

 

علی وقار

محفلین
امسال اپریل تک معاشی و مالی استحکام آچکا تھا۔ معیشت ۴ فیصد پر بڑھ رہی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے۔ ڈالر ۱۵۳ روپے تک گر چکا تھا۔ مگر خان صاحب کیلئے یہ سب کافی نہیں تھا۔ ان کو اگلا الیکشن جیتنا تھا جس کیلئے حفیظ شیخ کو ہٹا کر شوکت ترین کو لایا گیا۔ جس نے آتے ساتھ اپنی کمال پالیسیوں کی بدولت اس حکومت کی تین سالہ محنت پر پانی پھیر دیا

اس وقت حکومت غیر مقبول ہے اور مجھے قریب قریب یقین ہے کہ کوئی اور حکومت ہوتی تو شاید اُس کا بھی یہی حال ہوتا یا شاید اس سے بھی بد تر ہوتا مگر موجودہ حکومت سے یہ توقع نہ تھی کہ اس قدر بری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ خان صاحب کے نام پر 2018 میں لوگ بے پناہ رقم نچھاور کرنے کو تیار تھے۔ مگر جن لوگوں کے ساتھ انہیں اقتدار سپرد کیا گیا، اُن میں سے اکثریت چلے ہوئے کارتوسوں اور شاید کرپٹ افراد کی تھی، اور وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی چاہنے والوں کو نیا پاکستان کا کوئی خاص رنگ ڈھنگ نظر نہ آیا۔ وہی دقیانوسی چہرے چھائے ہوئے ہیں اور وہی روایتی رنگ چہار سو بکھرا دکھائی دیتا ہے۔ خان صاحب کو ایک سال بعد ہی یہ سب حالات دیکھ کر اقتدار سے باہر آ جانا چاہیے تھا۔ یہ جو دو سال سے ایکسٹرا جھولے کرسی کے لیے گئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب بھی محض مخالفین کو رگید کر خوش ہو جاتے ہیں اور ان کا مطمع نظر پاکستانیوں کی زندگیوں میں ٰبڑی ٰتبدیلی لانا نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ لوگوں کا یقینی طور پر فائدہ ہو رہا ہے بلکہ ہر اس گھرانے کا فائدہ ہے جن کے کمانے والے دیار غیر میں مقیم ہیں اور وہ اپنی جمع پونجی پاکستان منتقل کر رہے ہیں مگر اس ملک میں رہنے بسنے والوں کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ موجودہ حکومت لوٹی ہوئی دولت پاکستان نہ لا سکی، عمران خان کی ٹیم سرمایہ کاروں کو بڑی تعداد میں پاکستان نہ لا سکی، بے روزگاری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ کچھ اقدامات بہتر سمت میں اٹھائے گئے مگر کرپشن پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ مجموعی طور پر موجودہ حکومت کچھ بھی ایسا نہ کر پائی کہ عوام ان سے مطمئن ہو پائے۔ عمران خان صاحب کیوں چاہیں گے کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہوں مگر بد قسمتی سے اُن کی ٹیم کو اُن کے اصل ایجنڈے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کے آنے سے قبل ملک کا معاشی نظام دگرگوں تھا مگر موجودہ حکومت کسی حد تک بہتری لا سکتی تھی۔ ایسا بھی نہ ہو پایا۔ کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ نئی حکومت سے بھی کوئی زیادہ توقع نہیں۔ حد سے حد شاید یہ ہو جائے کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک اگلی حکومتوں کو پھر سے بوجوہ ڈالرز عنایت فرما دیں۔ اس ملک کی معاشی بے سمتی، سیاسی بے یقینی اور وائٹ کالر کرائم کو کون روکے گا؟ میڈیا اور عدلیہ نے جو چیک اینڈ بیلنس رکھنا تھا، وہ بھی نظر نہیں آتا۔ انانیت، نرگسیت، مخالفین کو سیاسی عناد کے باعث کچل دینے کی پالیسی، تعویذوں، انگوٹھیوں کو پہن لینے، تسبیحیں پھیرنے اور گالم گلوچ سے کچھ سدھرنے والا نہیں۔ کیا یہ وہ نئی ٹیم تھی جس نے آ کر 2018 میں ملکی نظام کو راہ راست پر لانا تھا۔ ان کی تو زیادہ تر توجہ لا یعنی مسائل پر ہی مرتکز رہی اور اب بھی محض اقتدار میں رہنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور مخالفین زور پکڑتے جا رہے ہیں۔

ملک کے عمومی و معاشی حالات کا بہت خوب احاطہ کیا آپ نے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت حکومت غیر مقبول ہے اور مجھے قریب قریب یقین ہے کہ کوئی اور حکومت ہوتی تو شاید اُس کا بھی یہی حال ہوتا یا شاید اس سے بھی بد تر ہوتا مگر موجودہ حکومت سے یہ توقع نہ تھی کہ اس قدر بری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ خان صاحب کے نام پر 2018 میں لوگ بے پناہ رقم نچھاور کرنے کو تیار تھے۔ مگر جن لوگوں کے ساتھ انہیں اقتدار سپرد کیا گیا، اُن میں سے اکثریت چلے ہوئے کارتوسوں اور شاید کرپٹ افراد کی تھی، اور وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی چاہنے والوں کو نیا پاکستان کا کوئی خاص رنگ ڈھنگ نظر نہ آیا۔ وہی دقیانوسی چہرے چھائے ہوئے ہیں اور وہی روایتی رنگ چہار سو بکھرا دکھائی دیتا ہے۔ خان صاحب کو ایک سال بعد ہی یہ سب حالات دیکھ کر اقتدار سے باہر آ جانا چاہیے تھا۔ یہ جو دو سال سے ایکسٹرا جھولے کرسی کے لیے گئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب بھی محض مخالفین کو رگید کر خوش ہو جاتے ہیں اور ان کا مطمع نظر پاکستانیوں کی زندگیوں میں ٰبڑی ٰتبدیلی لانا نہیں ہے۔
ملک کے عمومی و معاشی حالات کا بہت خوب احاطہ کیا آپ نے۔
شوکت ترین غالباً جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ اپنا کام ٹھیک کر رہے ہیں۔
یہاں مسئلہ لیڈر سے زیادہ نظام کا ہے۔ نظام حکومت ریاستی مشینری یعنی بیروکریسی چلاتی ہے۔ جو کرپٹ لوگ بیروکریسی میں عمران خان کی آمد سے پہلے بیٹھے تھے وہی لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں۔ عدلیہ و میڈیا میں جو پنیری مشرف، نواز، زرداری لگا کر گیا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ ان حالات میں اگر عمران خان کے پاس دو تہائی اکثریت بھی ہوتی تو بھی وہ کچھ نہ کر سکتا کیونکہ خالی قوانین بدل دینے سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ جب تک ان قوانین کو نافذ العمل کروانے والا سارا ریاستی ڈھانچہ کرپشن اور نااہلی کی گندگی سے پاک صاف نہیں کر دیا جاتا۔
 

علی وقار

محفلین
یہاں مسئلہ لیڈر سے زیادہ نظام کا ہے۔ نظام حکومت ریاستی مشینری یعنی بیروکریسی چلاتی ہے۔ جو کرپٹ لوگ بیروکریسی میں عمران خان کی آمد سے پہلے بیٹھے تھے وہی لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں۔ عدلیہ و میڈیا میں جو پنیری مشرف، نواز، زرداری لگا کر گیا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ ان حالات میں اگر عمران خان کے پاس دو تہائی اکثریت بھی ہوتی تو بھی وہ کچھ نہ کر سکتا کیونکہ خالی قوانین بدل دینے سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ جب تک ان قوانین کو نافذ العمل کروانے والا سارا ریاستی ڈھانچہ کرپشن اور نااہلی کی گندگی سے پاک صاف نہیں کر دیا جاتا۔
ایکسٹرا جھولے جو دو سال لیے گئے، کاش یہ نہ لیے جاتے! تمام تر ملبہ سسٹم پر ڈال دینا دراصل جان چھڑانے کے مترادف ہے۔ اگر خان اعظم کو ایک سال بعد معلوم ہو چکا تھا کہ ان چلے ہوئے کارتوسوں سے کچھ نہیں بننے والا تو استعفیٰ دے کر عوام میں آ جاتے۔ ایسا نہیں کہ انہیں تب یہ مشورہ نہیں دیا گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایکسٹرا جھولے جو دو سال لیے گئے، کاش یہ نہ لیے جاتے! تمام تر ملبہ سسٹم پر ڈال دینا دراصل جان چھڑانے کے مترادف ہے۔ اگر خان اعظم کو ایک سال بعد معلوم ہو چکا تھا کہ ان چلے ہوئے کارتوسوں سے کچھ نہیں بننے والا تو استعفیٰ دے کر عوام میں آ جاتے۔ ایسا نہیں کہ انہیں تب یہ مشورہ نہیں دیا گیا تھا۔
ایک سال بعد ہی ہار مان کر واپس عوام میں آجاتے تو 22 سالہ جدو جہد کا الٹا مذاق بن جاتا۔ اب کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان تین سالوں میں نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ویسے بھی آئینی مدت 5 سال ہوتی ہے اور حکومت جب چاہے اسمبلی توڑ کر نیا الیکشن کر وا سکتی ہے۔
میری نظر میں تو سب سے بڑی غلطی خان صاحب کا نیچے سے کونسلر، صوبائی وزیر، وفاقی وزیر بنے بغیر سیدھا وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونا تھا۔ اگر وہ مرحلہ وار نچلی وزارتوں سے گزر کر اوپر آتے تو بیروکریسی کے مزاج اور ان کی اہلیت کا اندازہ رکھتے ہوئے اپنی حکومت کا منشور سیٹ کرتے۔ غالباجنرل ضیا اور بعد میں نواز شریف بھی ان کو اپنی حکومت میں وزیر بنانے کی پیشکش کر چکے تھے مگر موصوف کسی کے نیچے کام کرنے کے عادی ہی نہیں تھے۔ اسی لئے 22 سال انتظار کر لیا مگر وزیر اعظم سے کم عہدہ قبول کرنا اپنی شان کیخلاف سمجھا۔ اب تین سال سے اسے کوس رہے ہیں :)
 

سیما علی

لائبریرین
وزیر اعظم سے کم عہدہ قبول کرنا اپنی شان کیخلاف سمجھا۔ اب تین سال سے اسے کوس رہے ہیں :)
دراصل جب بھی کوئی انسان اپنے آپ کو عقل کلُ سمجھنے لگے تو زوال کا آغاز ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو بھی یہ گمان تھا کہ وہ عقلِ کل ہیں 🥲
اور وزیر و مشیر سب اچھا ہے اچھا ہے کہہ رہے ہیں ۔۔۔22 سال جد وجہد کے ساتھ ہوم ورک 0% ———
 

محمداحمد

لائبریرین
وہی شیخ رشید صاحب جو کہتے سب کچھ اچھا ہے اور وہی باتیں جو پندرہ سال پہلے کرتے تھے اب بھی کرتے ہیں !!! !
شیخ رشید ہوں، عمران خان یا نواز شریف اور اِن سب کے حواری! یہ لوگ جو بات اپوزیشن میں بیٹھ کر کہتے ہیں وہ حکومت میں آ کر نہیں کہتے۔

یہی تضاد بتاتا ہےکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
غالباً پہلے کی طرح سعودی عرب نے کچھ پیسے دیے ہیں ریزروز کو سہارا دینے کے لئے۔
یعنی اس حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھنے پر ماضی کی طرح سینٹرل بینک کے ریزرو مارکیٹ میں نہیں پھینکے بلکہ مزید ریزروز سعودیہ سے مانگ لئے جس سے ڈالر کی اڑان رک گئی۔ یہی اسٹریٹجی پچھلی حکومتوں کے پاس کیوں نہیں تھی؟
 
Top