روٹھے رب کو منا لو

ایک بزرگ فرماتے ہے کہ ایک بار نصف رات گزر جانے کے بعد میں جنگل کی طرف جانے لگا۔ راستے میں میں نے دیکھا کہ چار آدمی ایک جنازہ اٹھائے جا رہے ہیں میں سمجھا کہ شاید انھوں نے اسے قتل کردیا ہے اور اب لاش ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ جب وہ میں انکے نزدیک ہوا تو میں نے ہمت کرکہ پوچھا
" اللہ کا جو حق تم پر اسکو سامنے رکھ کر میرے سوال کا جواب دو کیا تم نے خود اسکو قتل کیا یا کسی اور نے ؟ اور اب تم اسکی لاش کہاں ٹھکانے لگانے لیں جارہے ہو"
انھوں نے کہا
" ہم نے نہ خود اسکو قتل کیا اور نہ یہ مقتول ہے۔بلکہ یم تو مزدور ہے اور اسکی ماں نے ہم کو مزدوری دینی ہے وہ اسکی قبر کے ساتھ ہمارا انتظار کررہی ہے آو تم بھی ہمارا ساتھ دو۔"
میں تجسس کی وجہ سے انکے ساتھ ہوگیا قبرستان پہنچے تو دیکھا واقعی تازی قبر کھودی گئ تھی اور ایک بوڑھی خاتون اسکے پاس کھڑی تھی میں ان کے قریب گیا اور پوچھا
" اماں جان آپ اپنے بیٹے کے جنازے کو دن کے وقت یہاں کیوں نہ لائی تاکہ اور بھی لوگ انکی کفن دفن میں مصروف ہوجاتے"
اس خاتون نے کہا
" یہ جنازہ میرے بیٹے کا ہے میرا یہ بیٹا بڑا شرابی اور بد کردار تھا ہر عقت شراب کے نشے اور گناہ کے دلدل میں گرق رہتا تھا ۔ جب اسکی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے مجھے بلا کر تین چیزوں کی وصیت کی
پہلا یہ کہ جب میں مر جاوں تو میرے گلے میں رسی ڈال کر مجھے گھر کے اردگرد گھسیٹنا اور لوگوں کو کہنا کہ گناہگاروں اور نافرمانون کی یہی سزا ہے
دوسرا یہ کہ مجھے رات کے وقت دفن کرنا ، دن کے وقت دفن کروگی تو جو بھی دیکھے گا لعن طعن کرے گا
تیسری وصیت یہ کہ امی جان جب مجھے قبر میں رکھو تو میرے پاس اپنا ایک سفید بال بھی رکھنا کہ اللہ سفید بالوں سے حیا کرتا ہےہوسکتا ہے آپکے سفید بال کی وجہ سے اللہ حیا کریں اور مجھے غذاب نہ دیں"
جب یہ فوت ہوگیا تو میں نے اسکی پہلی وصیت کے مطابق اسکے گلے میں رسی ڈالی اور خوب گھسٹا کہ ہاتف غیبی سے آواز آئی
" اے خاتون اسکو یوں نہ گھسیٹو کہ اسکی گناہوں پر ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اللہ پاک نے اسکو معاف کرکہ اسکی مغفرت کردی ہے"
میں نے جب یہ بات سنی تو اسکی نماز جنازہ ادا کی اسکو قبر میں رکھا اور وصیت کے مطابق اسکی ماں کے سر کا سفید بال اسکے ساتھ رکھا تمام کامون سے فراغ ہوجانے کے بعد جب قبر کو بند کرنے لگے تو اچانک اسکے بیٹے کے جسم میں حرکت ہوئی ہاتھ کفن سے نکال کر بلند کیا اور آنکھیں کھول دی ہم سب یہ دیکھ کر گھبرا گیے وہ ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور کہا
" اے شیخ ہمارا رب بڑا رحمان الرحیم و غفور ہے وہ احسان کرنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے اور گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے"
یہ کہہ کر اس نے ہمشہ کے لیے آنکھیں بند کردی اور ہم قبر پر مٹی ڈال کر واپس آگیے
ہم کو اپنے گناہوں کی توبہ دور کی بات ندامت تک کا وقت نھی۔ بلکہ ابھی تو گناہ اعلانیہ اور فخریہ طور پر کیے جاتے ہیں گناہ کرکہ اللہ سے بے وفائی کا ثبوت تو ہم روز دیں رہے ہیں لیکن محبت کا ثبوت بہت کم لوگ دیتے ہیں۔
بحوالا :روٹھے رب کو منا لو
 

یوسف سلطان

محفلین
خوبصورت اور آگہی سے بھرپور اقتباس کی شراکت پہ شکریہ
اللہ پاک ہمیں مرنے سے پہلے سچی ،پکی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔
 
Top