روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم - اظہر ادیب

ترمذی

محفلین
روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم

عمر بھر کوہکنی کر کے صلہ مانگتے ہیں
مفت میں تیری محبت بھی نہیں مانگتے ہم

دشمنِ شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے
اور کوئی تمغۂ جرات بھی نہیں مانگتے ہم

پھر بھی وہ تخت نشیں خوفزدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم

سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں
اور اس کام کی اجرت بھی نہیں مانگتے ہم

کسی دیوار کے سائے میں ٹھہر لینے دے
دھوپ سے اتنی رعایت بھی نہیں مانگتے ہم

ساری دستاروں پہ دھبے ہیں لہو کے اظہر
ایسے کوفے میں تو عزت بھی نہیں مانگتے ہم

"اظہر ادیب" کی کتاب "صدا بانٹنی تو ہے" سے ہے ایک غزل
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ
بلاشبہ بہت خوب شراکت
محترم ترمذی بھائی
بہت کم ایسے کلام ملتے ہیں جو کہ مسلسل مصرعہ در مصرعہ قاری کو اسیر کر لیں ۔
 
Top