روشنی (افسانہ)

خاورچودھری

محفلین
روشنی(
افسانہ

خاورچودھری

کوٹھی کے دالان میں زمردیں گھاس پر شبنمی قطرے ہلکی ہلکی ہوا سے رقص کناں تھے۔وجہی حسبِ معمول ننگے پاوٴں ٹھنڈی گھاس کا لمس اپنے وجود میں اُتاررہاتھا۔ابھی سورج پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا۔مشرق کی طرف سے اُٹھنے والی لالی کوٹھی کے چھت پر پھیلے ہوئے سفید جنگلے کواپنے رنگ میں رنگ رہی تھی۔آم کے بے ثمرپیڑپرسے کووٴں اورچڑیوں کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔چیکوکے درخت کی جھکی ہوئی ٹہنیوں کے کناروں سے اوس قطرہ قطرہ سبزگھاس پر ٹپک رہی تھی۔ہواسے گرجانے والے پیلے پتے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے ۔نومبرکی اس صبح کو خنکی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھامگرموسم گئے برس کی طرح سرد نہیں ہوا تھا۔پچھلے سال توا ن دنوں میں غضب کی سردی پڑی تھی۔وجہی بانسی ساختہ دائروی کرسی کوگھسیٹتے ہوئے باہر لے آیاتھا۔اُس کے ایک ہاتھ میں باجرے کی تھیلی تھی اور دوسرے میں پیتل کی تھالی۔دایاں ہاتھ تھیلی میں ڈال کر اُس نے ایک خاص ادا سے باجرا نکال کر تھالی میں ڈالا،دوسری اور تیسری بار یہی عمل دہرا چکا توتھیلی کو وہیں گھاس پرایک طرف رکھ کراُٹھ کھڑا ہوا۔تھالی ہاتھ میں لیے وہ چیکوکے درخت کی جانب بڑھا۔چیکو کی ٹہنی سے بندھی ہوئی طشتری میں اُس نے باجرہ ڈالااورواپس آکراپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔بیرونی دروازے کے اُوپرسے ہاکر اخبارپھینک کراگلی منزل کی جانب بڑھ چکا تھا۔وجہی کے وجود میں ایک بارپھرحرکت پیدا ہوئی ۔اخباردونوں ہاتھوں میں پھیلاکرتیزی سے کچھ ڈھونڈنے لگا۔اُسے اپنی تصویرنظرآگئی۔گزشتہ روز اُس نے ایک این جی او کے تعاون سے چلنے والے اسکول کو بلیک بورڈز اور ڈیسک فراہم کیے تھے اوردو بہترین طالب علموں کے ایک سال کے اخراجات اوروظیفے کا ذمہ لیاتھا۔دوسرے صفحے پرایک اور رپورٹ کی سُرخی میں اس کا نام موجود تھا۔ اخبار نے چوکٹھے میں اس کے بیان کو چھاپاتھا۔یہ گزشتہ سہ پہرکوٹیکنیکل کالج میں ہونے والی تقریب میں اس کے خطاب کی رپورٹ تھی۔
وجہی نے اخبارایک طرف زمین پرڈالتے ہوئے اپنے دونوں بازووٴں کوایسے پھیلایا جیسے آسمانوں کی وسعت کوسمیٹ رہا ہو۔پھرانتہائی پھرتی سے اپنی نشست سے اُٹھ کر ورزش کے سے انداز میں اپنے بازووٴں کو زور زور سے گھمانے لگے۔چندمنٹ کی اس مشق کے بعدوہ کوٹھی کے اندرچلاگیا۔غیرملکی برتنوں سے آراستہ باورچی خانے میں داخل ہوا۔گیس کے چولھے کودیاسلائی دکھائی اورنل سے کیتلی میں پانی بھرنے کے بعداُسے چولھے پرچڑھادیا۔اعلیٰ قسم کی کافی تیارکرنے کے بعدبڑے پیندے کے پیالے میں ڈالی اورپھرباہردالان میں چلا آیا۔
یہ وجہی کے روز کا معمول تھا۔ٹھیک نو بجے تک وہ تیار ہوکر اپنے دفترچلاجاتا ۔اُس نے یہ کوٹھی شہر کے ایک کونے میں بڑی چاہ سے بنائی تھی مگراسے گھر بننا کبھی نصیب نہ ہوا۔پندرہ سال پہلے اُس کی شادی اُس کی چچازاد کے ساتھ دُھوم دھام سے ہوئی تھی۔والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے سے ہر رسم نبھائی گئی۔دُورنزدیک کے سبھی رشتہ دار اورکاروباری دوست شادی میں شریک ہوئے تھے۔ شادی کو ایک برس بیتا،دو،چار اورپھرپندرہ برس بیت گئے مگروجہی کاآنگن بنجرہی رہا۔صحراوٴں میں برسنے والی بارشیں اپناثبوت مٹاتی رہیں۔ اسی عرصہ میں والد دُنیا سے اُٹھ گئے اور ماں کی بھی تمام امیدیں دَم توڑچکی تھیں۔ڈھکے چھپے لفظوں میں کئی ایک بار ماں نے دوسری شادی کاکہابھی تووجہی نے ہنس کرٹال دیا۔باپ کے مرنے کے بعدساری ذمہ داریاں وجہی کے سرآپڑی تھیں۔ وہ کاروبار میں یوں اُلجھاکہ بیوی کوپڑھی ہوئی کتاب کی طرح شیلف میں رکھ کر بھول گیا،لیکن اتنابھی نہیں کتاب سے گرد جھاڑنے کے لیے کبھی کبھارگھرہوہی آتا۔ وہ شہر کی کوٹھی میں تنہارہتا تھا،بالکل تنہا۔خانساماں کھاناتیارکرکے برف خانے میں رکھ جاتا اور پھر صبح اُس کے دفترجانے سے پہلے آجاتا۔ ایک بے زبان چوکیدار تھا۔مالی اور خاکروب اُس کے چلے جانے کے بعد آتے اوراُس کے آنے سے پہلے ہی پلٹ جاتے۔البتہ ہفتے میں دو ایک مرتبہ کوٹھی میں کوئی تقریب ضرور برپا ہوتی جس میں اُس کے قریب ترین اور معتمد ساتھی شریک ہوتے اور کبھی کبھار کوئی نیا بھی آجاتا۔
لوگوں کا کہناتھا کہ بے اولادی کے سبب اُس کے دل پر بہت اثر ہوا ۔وہ شہر کے اسکولوں اور کالجوں میں خودجاتااوروہاں سے طالب علموں کا انتخاب کر کے اُن کے اخراجات اپنے ذمے لیتا۔اُن اداروں کی ضروریات کا خیال رکھتا۔کبھی ٹھنڈے پانی کی مشین نصب کروا دیتا،کبھی ڈیسک،کبھی کھیلوں کا سامان،کبھی غریب طالب علموں کی یونی فارم۔یہ سلسلہ کم و بیش ہر دوسرے ادارے کواپنے اندر لیے ہوئے تھا۔
بیشترملکی اور غیر ملکی این جی اوزکے سرکردہ افراداُس سے رابطے میں رہتے۔اُس کے مشوروں کوا ہمیت دیتے۔جن منصوبوں کو وہ اولیت دیتا،بلاجھجک وہ لوگ اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے۔شہرکے نام وَرصحافی،سیاست دان،بیوروکریٹ،تاجراوراسات ذہ بھی اُس کے دفترآتے اورتبادلہٴ خیالات کر کے فیض یاب ہوتے۔
سلسلہٴ روز وشب اسی اندازسے آگے بڑھتاجارہاتھا۔کبھی کبھاراُسے مشورہ دیاجاتاکہ وہ اپنے فلاحی کاموں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں تک بڑھائے۔وہ ایسے مشوروں کو توجہ سے سُنتااورپھرکہتا:
”اچھے وقت کا انتظار کیجیے،میں کچھ سوچتا ہوں۔“
اس کے وظیفہ خوار نوجوانوں کواُس کے دفتر میں بلا روک ٹوک آنے کی اجازت تھی۔وہ کسی بھی وقت اپنی ضرورت کے لیے یہاں آسکتے تھے۔کبھی بھی فون کرسکتے تھے،کسی بھی دوسرے نوجوان کو لا سکتے تھے۔دفتر کے ملازمین کوسختی سے ہدایت تھی کہ وہ روشنی بانٹنے کے اس عمل میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس طالب علم کے لیے جووظیفہ مقرر ہے وہ بروقت دیا جائے۔اس اچھے کام میں دیر اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔
اُس روز کالج کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔وہ بہ طورمہمانِ خصوصی مدعوتھا۔اُس نے نئے طلبا کے لیے وظیفوں کا اعلان کرنا تھا اورپُرانے طالب علموں کو انعامات دینا تھے۔وجہی نے اپنے معمولات میں ذرا رد وبدل کرکے اُس تاریخ کے لیے خود کو فارغ کر لیا تھا۔جوں ہی اُس کی گاڑی کالج کے گیٹ سے داخل ہوئی طلبا نے اُس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔دوکم سن طالب علموں نے آگے بڑھ کر اُس کا استقبال کیا اورپھول پیش کیے۔وجہی کے ہاتھ شفقت سے اُن کے سروں تک پہنچ گئے تھے۔اساتذہ نے اُس سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔وہ سفید لٹھے کے لباس میں یوں دِکھ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہو۔اساتذہ اُسے اپنے دائرے میں اسٹیج تک لے گئے۔اسٹیج پر موجود محکمہ تعلیم کے افسران نے اُٹھ کراُسے گلے لگایا اوردرمیانی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کی۔تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔اسٹیج سیکرٹری نے وجیہ اختر کی علم دوستی اورطلبا پروری کے جذبے پر روشنی ڈالی اورکالج پرکیے گئے احسانات کاتذکرہ کیا۔دیگر مقررین نے بھی اُس کے جذبے کو سراہا۔وہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبا کے مسرورچہروں کودیکھ دیکھ کر خوش ہوتارہا۔اسٹیج سیکرٹری نے انتہائی اَدب سے خطاب کے لیے اُس کا نام پکارا۔وہ وقار کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھااوردھیمے اندازسے اپنی گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ یہی کہہ پایا تھا:
” میرے قابلِ فخر بچو!“
کہ ماحول میں شور بلند ہوا۔اساتذہ اسٹیج کی طرف لپکے۔وجہی پرپنڈال میں سے کسی نے کانچ کی بوتل پھینکی تھی۔اُس کے داہنے رُخسار سے لہو کا چشمہ پھوٹ بہاتھا۔لٹھے کی سفید قمیص پر خون نے پھول کھلا دیے تھے۔اُسے چندلمحوں میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔تقریب درہم برہم ہو گئی۔ حملہ آورکا علم نہ ہوسکا۔پرنسپل صاحب خود اُس کے ساتھ ہسپتال گئے اورمرہم پٹی تک وہیں رہے۔پرنسپل نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
” جناب !میں نہیں جانتا ہوں،یہ گھٹیا حرکت کس کی ہے مگر میں احتجاجاً دو روز تک اپنا ادارہ بند رکھوں گااوروالدین کوکالج بلاوٴں گا۔“
وجہی نے نرم لہجے میں کہا
” نہیں پروفیسر صاحب!____آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔میں ٹھیک تو ہوں۔“
” دیکھیے ناں اگربوتل آنکھ سے ٹکراجاتی تو بینائی ضائع ہوسکتی تھی“
” ہاں مگر ہوئی تو نہیں____بس آپ یوں کیجیے کہ یہ بات اخبارات تک نہ جانے پائے۔“
” آپ بے فکر رہیے، ایسا ہی ہوگا۔“
پرنسپل نے کہا اوروجہی کو ہسپتال سے لے آیا۔
اس واقعے نے وجہی کو محتاط کردیا تھا۔اَب اُس سے ملنے والوں کو مکمل آزادی نہیں تھی۔دفترمیں آنے والے طلبا سے کہہ دیا گیا تھا جو بھی بات ہوفون پرکر لیا کریں اوروظیفے کے حصول کے لیے صرف شعبہ حسابات کے سربراہ سے رابطہ کیا جائے۔اس برس اُس نے کسی دوسرے ادارے کی تقریب میں شرکت نہ کی۔
اگلے برس کااپریل اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔کوٹھی کے وسیع صحن کے درمیان فرشی نشست پرتکیے اہتمام سے رکھے ہوئے تھے اور ان سے پشت ٹکائے ہوئے چند افرادپورے انہماک سے مقامی گلوکارکی آواز میں مشہورغزل خواں کی گائی ہوئی غزل
غم سے ہوں بے نیاز پیتاہوں
ہے کچھ ایسا ہی راز پیتا ہوں
لوگ پانی ملا کے پیتے ہیں
میں تو نظریں ملا کے پیتا ہوں​
سن رہے تھے ۔سامعین میں وجہی بھی شامل تھا۔ان تمام کے ہاتھوں میں بغیرسوڈاملے شراب کے گلاس موجود تھے،البتہ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گلاسوں میں ضرور موجود تھے۔گانے کی محفل ختم ہوئی مگرجام کادورچلتا رہا۔رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔کم ظرف لڑکھڑا کر گررہے تھے۔ اسی اثنا میں کوٹھی میں ایک گاڑی داخل ہوئی۔وجہی کے خاص آدمی کے ساتھ ایک اورشخص گاڑی سے اُترا۔اُس نے دونوں کو گھورا۔پھرہاتھ کے اشارے سے اندرجانے کو کہا۔وہ دونوں اندرچلے گئے۔
وجہی نشے میں دُھت لوگوں کو وہیں چھوڑ کراندرچلاآیا۔خاص آدمی نے کہا
” یہ صہیب ہے،اس کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لینے کا آپ نے اعلان کیا تھا۔“
” او______ہاں_____تم جاوٴ “ خاص آدمی باہرنکل جاتا ہے۔وجہی نوجوان کو ہاتھ سے پکڑکر ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔پھرکوٹھی کو روشن کرنے والے تمام قمقمے گل ہوجاتے ہیں۔

ooo​
 

سعود الحسن

محفلین
کیا بات ہے خاور صاحب، ہم نے تو آج پڑھا، گو افسانے کا پورا ماحول انتہائی سادہ ہے لیکن اختتام اتنا ہی غیر معمولی، انتہائی چوکا دینے والا کچھ دیر تو میں آپ کی ہمت پر ساکت رہ گیا تھا۔ شاید سچ اتنا ہی کڑوا ہوتا ہے۔
 
Top