روس کا کرکٹ کو کھیل تسلیم کرنے سے انکار

جاسم محمد

محفلین
روس کا کرکٹ کو کھیل تسلیم کرنے سے انکار
202744_5171375_updates.JPG

— فائل فوٹو

کرکٹ کو تقریباً دنیا بھر میں 2 ارب افراد پسند کرتے یا دیکھتے ہیں مگر روس میں کھیلوں کی وزارت نے اسے باضابطہ کھیل تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے آفیشل کھیلوں کے رجسٹر میں درج کرنے سے منع کردیا۔

اس حوالے سے ماسکو کرکٹ اسپورٹس فیڈریشن کےرکن الیگزینڈر سروکن نے دعویٰ کیا ہےکہ یہ انکار کھیلوں کے رجسٹر میں اندراج کے لیے بنائی گئی ایپلیکیشن میں موجود غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔

انہوں نے ایک روسی خبر رساں ادارے ٹی اے ایس ایس کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے کافی پرامید تھے مگر اب ان کی فیڈریشن اگلے سال دوبارہ کرکٹ کو رجسٹر میں درج کرنے کی درخواست کرے گی۔

آفیشل فہرست میں درج نہ ہونے کا مطلب روس میں کرکٹ پر پابندی نہیں ہے تاہم اس انکار کے بعد کرکٹ کو کھیلوں کی وزارت کی جانب سے امداد نہیں مل سکے گی۔

15 جولائی کو ہونے والے اس فیصلے میں تھائی باکسنگ کو بھی روسی وزارت کھیل نے باضابطہ کھیل ماننے سے انکار کیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کرکٹ اپنے قواعد و ضوابط کے لحاظ سے پیچیدہ ترین کھیلوں میں سے ایک ہے۔ مستزاد یہ کہ، ٹیسٹ میچ تو خاصے کی شے ہے۔ :) ہم تو خیر اس نشے میں مبتلا رہے ہیں، اس لیے لبوں سے کلمہء خیر ہی ادا کرنا چاہیں گے۔ :)
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
روس اور امريكہ ہمارے اور آپ کی طرح ’’احمق ‘‘ نہیں ہیں کہ :’ اس کھیل کے پیچھے اپنا سب کچھ ضائع کردیں‘۔ ہم برصغیر کے ’’لوگ‘‘ کرکٹ کے جنوں میں اس قدر لت پت ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ طلبہ درس گاہ میں کرکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،گلی کوچوں میں بچے ، بوڑھے کرکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آجائیں گے۔ حد تو اس وقت ہوتی ہے جب ہندوستان- پاکستان کا میچ ہو تو پھر درس گاہ ، کلاس روم میں ’’ھو‘‘ کا سناٹا رہتا ہے،طلبہ مدارس اور اسکول سے چھٹی کرکے ٹی وی کے آگے چپکے رہتے ہیں ،اللہ بچائے ،حتیٰ کہ مسجدوں کی رونق بھی کم ہونے لگتی ہے ۔ پھر اس جلتے پر پٹرول کا کام ’’آئی پی ایل‘‘ اور ’’پی ایس ایل ‘‘ نے کیا ۔ پتہ نہیں ہم برصغیر کے ’’بدھو‘‘ کدھر جارہے ہیں ،جب کہ ہمیں لوٹ کر یہیں ’’برصغیر‘‘ میں ہی آنا ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پھر اس جلتے پر پٹرول کا کام ’’آئی پی ایل‘‘ اور ’’پی ایس ایل ‘‘ نے کیا ۔ پتہ نہیں ہم برصغیر کے ’’بدھو‘‘ کدھر جارہے ہیں ،جب کہ ہمیں لوٹ کر یہیں ’’برصغیر‘‘ میں ہی آنا ہے ۔
غالبا کرکٹ ہی وہ واحد اکائی ہے جو پورے برصغیر کو ایک پیج پر اکٹھا کر سکتی ہے :)
 

فاخر

محفلین
غالبا کرکٹ ہی وہ واحد اکائی ہے جو پورے برصغیر کو ایک پیج پر اکٹھا کر سکتی ہے :)
جی بالکل ۔ آپ کے ’’نیازی‘‘ صاحب ابھی تو امریکہ گئے ہوئے ہیں جب لوٹ کر گھر آئے تو ادھر بھی بھیج دیں کرکٹ کھیلتے ہیں ۔ :LOL::LOL::LOL:
بالنگ وہ کریں میں ’چھکے‘ لگاؤں گا ۔
 
روس اور امريكہ ہمارے اور آپ کی طرح ’’احمق ‘‘ نہیں ہیں کہ :’ اس کھیل کے پیچھے اپنا سب کچھ ضائع کردیں‘۔ ہم برصغیر کے ’’لوگ‘‘ کرکٹ کے جنوں میں اس قدر لت پت ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ طلبہ درس گاہ میں کرکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،گلی کوچوں میں بچے ، بوڑھے کرکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آجائیں گے۔ حد تو اس وقت ہوتی ہے جب ہندوستان- پاکستان کا میچ ہو تو پھر درس گاہ ، کلاس روم میں ’’ھو‘‘ کا سناٹا رہتا ہے،طلبہ مدارس اور اسکول سے چھٹی کرکے ٹی وی کے آگے چپکے رہتے ہیں ،اللہ بچائے ،حتیٰ کہ مسجدوں کی رونق بھی کم ہونے لگتی ہے ۔ پھر اس جلتے پر پٹرول کا کام ’’آئی پی ایل‘‘ اور ’’پی ایس ایل ‘‘ نے کیا ۔ پتہ نہیں ہم برصغیر کے ’’بدھو‘‘ کدھر جارہے ہیں ،جب کہ ہمیں لوٹ کر یہیں ’’برصغیر‘‘ میں ہی آنا ہے ۔
ہم بے چارے ایک ہی کھیل پر وقت ضائع کرتے ہیں، وہ بے تحاشہ کھیلوں پر وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں۔
 

فاخر

محفلین
وقت ضائع کرتے ہیں،
ضیاع کی حد تک تو ٹھیک ہے ؛لیکن ’ہم اس میں کچھ زیادہ ہی لت پت ہیں‘۔ ستم تو اس دن ہوتا ہے جب ہندوستان-پاکستان کا کرکٹ میچ ہو، کیا واعظ، کیا فقیہ، کیا پیر ،کیا مرید اور کیا شیخ و خلیفہ۔ اس دن ہر ایک شخص ’’کرکٹ‘‘ کے رنگ میں رنگا ہوا کرتا ہے۔ ہنسی تو اس وقت آتی ہے ،جب امام صاحب بعد نماز اپنے چہیتے مصلی سے ’سرگوشی‘ میں کرکٹ اسکور پوچھتا ہے کہ:’ رفعت بھائی کیا اسکور ہورہا ہے ؟‘ اور یہ سنتے ہوئے چھٹ سے رفعت بھائی موبائل نکال کر اسکور دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ صوبہ بہار کے ضلع کشن گنج میں ایک ہندو شخص انڈیا-نیوزی لینڈ سیمی فائنل میچ دیکھ رہا تھا ، دھونی کے آؤٹ ہوتے ہی اس بیچارہ کی سانس بھی ’آؤٹ‘ ہوگئی اور موقعہ پر ہی ’’آنجہانی‘‘ ہوگیا۔
اگر اعتدال پسندی ہو تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ تاہم ،ہم اس ’’مضائقہ‘‘ کی سرحد بہت پہلے عبور کرچکے ہوتے ہیں ۔ جو کہ :’ ہمارے لیے اور ہماری نسلوں کے لئے نقصان دہ ہے‘۔ ہمارے سامنے تو اور بھی کھیل ہے جس سے جسم اور دماغ کو تقویت ملتی ہے ۔GYM کو کسی حد تک مناسب کہہ سکتے ہیں البتہ طبی نقطہ نظر سے یہ بھی نقصان دہ ہے کبڈی ،تیراکی تیر اندازی بھی تو ایک کھیل ہے ،کم از کم ہم اسی کو اپنا لیں تو اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
ضیاع کی حد تک تو ٹھیک ہے ؛لیکن ’ہم اس میں کچھ زیادہ ہی لت پت ہیں‘۔ ستم تو اس دن ہوتا ہے جب ہندوستان-پاکستان کا کرکٹ میچ ہو، کیا واعظ، کیا فقیہ، کیا پیر ،کیا مرید اور کیا شیخ و خلیفہ۔ اس دن ہر ایک شخص ’’کرکٹ‘‘ کے رنگ میں رنگا ہوا کرتا ہے۔ ہنسی تو اس وقت آتی ہے ،جب امام صاحب بعد نماز اپنے چہیتے مصلی سے ’سرگوشی‘ میں کرکٹ اسکور پوچھتا ہے کہ:’ رفعت بھائی کیا اسکور ہورہا ہے ؟‘ اور یہ سنتے ہوئے چھٹ سے رفعت بھائی موبائل نکال کر اسکور دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ صوبہ بہار کے ضلع کشن گنج میں ایک ہندو شخص انڈیا-نیوزی لینڈ سیمی فائنل میچ دیکھ رہا تھا ، دھونی کے آؤٹ ہوتے ہی اس بیچارہ کی سانس بھی ’آؤٹ‘ ہوگئی اور موقعہ پر ہی ’’آنجہانی‘‘ ہوگیا۔
اگر اعتدال پسندی ہو تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ تاہم ،ہم اس ’’مضائقہ‘‘ کی سرحد بہت پہلے عبور کرچکے ہوتے ہیں ۔ جو کہ :’ ہمارے لیے اور ہماری نسلوں کے لئے نقصان دہ ہے‘۔ ہمارے سامنے تو اور بھی کھیل ہے جس سے جسم اور دماغ کو تقویت ملتی ہے ۔GYM کو کسی حد تک مناسب کہہ سکتے ہیں البتہ طبی نقطہ نظر سے یہ بھی نقصان دہ ہے کبڈی ،تیراکی تیر اندازی بھی تو ایک کھیل ہے ،کم از کم ہم اسی کو اپنا لیں تو اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں ہے ۔
یورپ میں فٹبال میچز کے دوران لاتعداد مرتبہ دنگا فساد ہوتا رہا ہے اور ہوتا ہے۔ کھیلوں کے ساتھ کسی کی اس حد تک وابستگی ہو جانا کہ مرنے مارنے پر تل جائے، کھیلوں سے یہ جذباتی لگاؤ کسی بھی قوم کے کسی بھی فرد میں ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ نہ تو کسی ایک کھیل سے منسلک ہے اور نہ ہی کسی ایک علاقے یا قوم سے
 

آصف اثر

معطل
یورپ میں فٹبال میچز کے دوران لاتعداد مرتبہ دنگا فساد ہوتا رہا ہے اور ہوتا ہے۔ کھیلوں کے ساتھ کسی کی اس حد تک وابستگی ہو جانا کہ مرنے مارنے پر تل جائے، کھیلوں سے یہ جذباتی لگاؤ کسی بھی قوم کے کسی بھی فرد میں ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ نہ تو کسی ایک کھیل سے منسلک ہے اور نہ ہی کسی ایک علاقے یا قوم سے
کھیلوں پر پیسہ برباد کرتے ہیں، بے شک۔ لیکن لیکن پیسہ کماتے ہیں آپ کو اور ہمیں برباد کر کرکے۔
ہم بے چارے ایک ہی کھیل پر وقت ضائع کرتے ہیں، وہ بے تحاشہ کھیلوں پر وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں۔
اس طرح کی صورتِ حال میں جب دو یا کئی اقوام کے درمیان کوئی موازنہ ہورہا ہو تو میں ہمیشہ ”نسبت“ یعنی ریشو سے مدد لیتا ہوں۔
مثلا فرانس اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہیں۔
1۔ کھیلوں کے ساتھ وابستگی میں فرض کرتے ہیں دونوں یکساں ہیں۔ یا پاکستانیوں کی وابستگی کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتےہوئے: فاتح - پاکستان

2۔ نظامِ حکومت کی مضبوطی (عوام کی حکمرانی): فاتح - فرانس
3۔ شعوری سطح: فاتح - فرانس
4۔ پاکستان میں خواندگی کے اعداد وشمار نکالیں اور فرانس کے۔ فرانس 99 فیصد، پاکستان بمشکل 45 بھی نہیں۔ فاتح - فرانس
5۔ مطالعے کے رسیا: فاتح - فرانس
6۔ سائنٹفک ریسرچ: فاتح - فرانس
7۔ دفاع کا شعبہ: فاتح - فرانس
8۔ ایک باوقار قوم کی حیثیت سے پہچان: فاتح - فرانس
9۔ معاشی استحکام: فاتح - فرانس
10۔ بیرونی دباؤ سے آزادی: فاتح - فرانس
11۔ من حیث القوم، معاشرتی فیکٹرز: فاتح - فرانس
وعلی ہذا القیاس۔
اب سوچیں پاکستانیوں کی یہ خودکُشیانہ وابستگی کس حد تک منصفانہ ہے۔
 
اس طرح کی صورتِ حال میں جب دو یا کئی اقوام کے درمیان کوئی موازنہ ہورہا ہو تو میں ہمیشہ ”نسبت“ یعنی ریشو سے مدد لیتا ہوں۔
مثلا فرانس اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہیں۔
1۔ کھیلوں کے ساتھ وابستگی میں فرض کرتے ہیں دونوں یکساں ہیں۔ یا پاکستانیوں کی وابستگی کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتےہوئے: فاتح - پاکستان

2۔ نظامِ حکومت کی مضبوطی (عوام کی حکمرانی): فاتح - فرانس
3۔ شعوری سطح: فاتح - فرانس
4۔ پاکستان میں خواندگی کے اعداد وشمار نکالیں اور فرانس کے۔ فرانس 99 فیصد، پاکستان بمشکل 45 بھی نہیں۔ فاتح - فرانس
5۔ مطالعے کے رسیا: فاتح - فرانس
6۔ سائنٹفک ریسرچ: فاتح - فرانس
7۔ دفاع کا شعبہ: فاتح - فرانس
8۔ ایک باوقار قوم کی حیثیت سے پہچان: فاتح - فرانس
9۔ معاشی استحکام: فاتح - فرانس
10۔ بیرونی دباؤ سے آزادی: فاتح - فرانس
11۔ من حیث القوم، معاشرتی فیکٹرز: فاتح - فرانس
وعلی ہذا القیاس۔
اب سوچیں پاکستانیوں کی یہ خودکُشیانہ وابستگی کس حد تک منصفانہ ہے۔
اس کی اصل وجوہات پر توجہ کرنے اور انھیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیل وجہ نہیں باقی میدانوں میں ناکامی کی۔
اور ویسے کھیلوں میں بھی فرانس ہم سے کہیں آگے ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اس کی اصل وجوہات پر توجہ کرنے اور انھیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیل وجہ نہیں باقی میدانوں میں ناکامی کی۔
اور ویسے کھیلوں میں بھی فرانس ہم سے کہیں آگے ہے۔
بالکل۔ کھیل دراصل دیگر شعبوں میں ناکامی کا سبب تب بنتی ہے، جب اسے ہر سنجیدہ ذمہ داری پر فوقیت دی جائے۔ من حیث القوم ہم اسی غلطی کا شکار ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے، اور دیگر احباب نے بھی اس جانب توجہ مبذول کی ہے، کہ یہاں تو اسے ایک جنگ کی شکل سمجھنے کے ساتھ علمی سرگرمیوں سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ چوں کہ یہ اہمیت کرکٹ کے موسم میں ہی دی جاتی ہے لہذا یہ بات درست بھی ہے۔ نماز اور دینی امور تو ایک جانب، اسٹوڈنٹس سے لے کر کاروباری طبقے تک، بچے سے لے کر گھر کے بڑوں تک سب ہی اس دوران ہر قسم کے فرائض سے میچ کے بہانے فارغ ہوجاتے ہیں۔
ایک اور نکتہ جس کی جانب ہمارے پروفیشنل احباب کو غور کرنا چاہیے، وہ یہ حقیقت ہے کہ کم شعور، یا پسماندہ طبقہ باشعور یا کامیاب طبقے کی فطرتاً پیروی کرتا ہے، مثلا بچے جب بڑوں کو چھکے چوکوں، گول کرنے پر چیختے چلاتے یا جذباتی انداز میں دیکھتے ہیں تو ان کے لاشعور میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یا جب دفاتر اور اداروں میں سرکردہ ذمہ داران میچ کے دوران یا بعد میں اس کا تجزیاتی ذکر کرتے ہیں تو ماتحت عملہ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس کو اہمیت دینا شروع کردیتا ہے۔ اس حقیقت اور قومی زوال کو مدنظر رکھ کر ہمیں بہرصورت عوامی سطح پر اس کا قابلِ توجہ ذکر یا ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ بلکہ اس کے مقابلے میں علمی ماحول کو پروان چڑھانا عصرِ حاضر کی ناگزیر مجبوری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل۔ کھیل دراصل دیگر شعبوں میں ناکامی کا سبب تب بنتی ہے، جب اسے ہر سنجیدہ ذمہ داری پر فوقیت دی جائے۔ من حیث القوم ہم اسی غلطی کا شکار ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے، اور دیگر احباب نے بھی اس جانب توجہ مبذول کی ہے، کہ یہاں تو اسے ایک جنگ کی شکل سمجھنے کے ساتھ علمی سرگرمیوں سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ چوں کہ یہ اہمیت کرکٹ کے موسم میں ہی دی جاتی ہے لہذا یہ بات درست بھی ہے۔ نماز اور دینی امور تو ایک جانب، اسٹوڈنٹس سے لے کر کاروباری طبقے تک، بچے سے لے کر گھر کے بڑوں تک سب ہی اس دوران ہر قسم کے فرائض سے میچ کے بہانے فارغ ہوجاتے ہیں۔
ایک اور نکتہ جس کی جانب ہمارے پروفیشنل احباب کو غور کرنا چاہیے، وہ یہ حقیقت ہے کہ کم شعور، یا پسماندہ طبقہ باشعور یا کامیاب طبقے کی فطرتاً پیروی کرتا ہے، مثلا بچے جب بڑوں کو چھکے چوکوں، گول کرنے پر چیختے چلاتے یا جذباتی انداز میں دیکھتے ہیں تو ان کے لاشعور میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یا جب دفاتر اور اداروں میں سرکردہ ذمہ داران میچ کے دوران یا بعد میں اس کا تجزیاتی ذکر کرتے ہیں تو ماتحت عملہ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس کو اہمیت دینا شروع کردیتا ہے۔ اس حقیقت اور قومی زوال کو مدنظر رکھ کر ہمیں بہرصورت عوامی سطح پر اس کا قابلِ توجہ ذکر یا ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ بلکہ اس کے مقابلے میں علمی ماحول کو پروان چڑھانا عصرِ حاضر کی ناگزیر مجبوری ہے۔
کہیں آپ کا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہو گیا۔ آجکل بڑی معقول اور معتدل باتیں کرر ہے ہیں :)
 

جان

محفلین
روس کے تسلیم نہ کرنے سے کرکٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ رہی بات کھیل کا مقابلہ مذہب سے کرنے کی تو ایسا کرنا اس وقت تک مناسب ہرگز نہ ہے جب تک اس میں قران پاک کے احکامات سے انحراف نہ ہے، جہاں تک دیکھنے والوں کی بات ہے تو دیکھنے والے خود ذمہ دار ہیں اس میں کھیل کا اور کھیلنے والوں کا کوئی قصور نہیں۔ :)
 

فاخر

محفلین
اس طرح کی صورتِ حال میں جب دو یا کئی اقوام کے درمیان کوئی موازنہ ہورہا ہو تو میں ہمیشہ ”نسبت“ یعنی ریشو سے مدد لیتا ہوں۔
مثلا فرانس اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہیں۔
1۔ کھیلوں کے ساتھ وابستگی میں فرض کرتے ہیں دونوں یکساں ہیں۔ یا پاکستانیوں کی وابستگی کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتےہوئے: فاتح - پاکستان

2۔ نظامِ حکومت کی مضبوطی (عوام کی حکمرانی): فاتح - فرانس
3۔ شعوری سطح: فاتح - فرانس
4۔ پاکستان میں خواندگی کے اعداد وشمار نکالیں اور فرانس کے۔ فرانس 99 فیصد، پاکستان بمشکل 45 بھی نہیں۔ فاتح - فرانس
5۔ مطالعے کے رسیا: فاتح - فرانس
6۔ سائنٹفک ریسرچ: فاتح - فرانس
7۔ دفاع کا شعبہ: فاتح - فرانس
8۔ ایک باوقار قوم کی حیثیت سے پہچان: فاتح - فرانس
9۔ معاشی استحکام: فاتح - فرانس
10۔ بیرونی دباؤ سے آزادی: فاتح - فرانس
11۔ من حیث القوم، معاشرتی فیکٹرز: فاتح - فرانس
وعلی ہذا القیاس۔
اب سوچیں پاکستانیوں کی یہ خودکُشیانہ وابستگی کس حد تک منصفانہ ہے۔
جى آپ نے درست موازنہ پیش کیا ہے ۔
من حیث القوم دیکھیں ہم آج کہاں ہیں ؟ ہم ایک ایٹمی پاور ہوکر بھی کہاں ہیں ؟ غور کرنے کی بات ہے۔ روس کے بچے مطالعہ کے رسیا ،ہمارے بچے شاہ رخ خان ،سلمان خان اور اجے دیوگن کے دیوانے ۔
روس کے بچے ایجاد و اکتشاف میں دماغی قوت خرچ کرنے والے ہمارے بچے ’’منی بدنام ہوئی ‘‘ اور ’’میرے رشک قمر ‘‘ کے ریمیکس کی دھنوں پر ناچنے اور تھرکنے والے ۔
روس کے بچے جب آپس میں ملتے ہیں تو تعلیمی امور پر بات کرتے ہیں جب کہ ہمارے بچے ’فحاشی‘ اور ’عریانیت‘ پر مبنی امور کا ’’تکرار‘‘ کرتے ہیں ۔
ہمارے بچے ’’نصف نصف شب تک بائکنگ کے عادی ہیں تو روس کے بچے آدھی آدھی بلکہ پوری رات فکرِ کائنات اور سائنسی امور پر تحقیق میں گزارتے ہیں ۔
میں نے خود دیکھا ہے کہ:’ ہمارے مسلم بچے غیروں کی دیکھا دیکھی گھر سے پوری پوری رات غائب رہے ہیں پوچھنے پر گستاخانہ جملے سننے کو ملتے ہیں ۔ آخر کچھ تو وجہ ہے کہ ہم اس اشرف الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہوکر بھی ہر محاذ پر بچھڑے جارہے ہیں، جب کہ ’’اقرأ‘‘ ہی ہمارا سبق تھا ۔ دنیا میں کہیں بھی ہمارے لیے جائے امان نہیں ہے؟ برما کی صورتحال کسی سے مخفی نہیں ہے؟ شام و فلسطین کی صورتحال بھی واضح ہے ۔ ہندوستان میں بھی مسلمان صرف ’’اللہ بھروسے‘‘ ہی ہیں۔ آخر ہم کب بیدار ہوں گے؟
ایک ملک قربانیوں کے عوض ملا تھا وہ ملک بھی غیروں کے ساتھ اپنوں کی رسہ کشی ،مفادپرستی اور بوالہوسی کی نذر ہورہا ہے ۔ تعلیمی معیار ناقص ہوتا جارہا ہے ۔ اقبالؔ کا شاہین بے پر ہوگیا۔کچھ کیجئے ! تدابیر کے ساتھ تدبر وتفکر بھی تو کوئی چیز ہے ۔ اپنی بقا تو لازمی ہے بھائی ؟ ہمارے لیے اب کوئی اور ہادی اور رہبر نہیں آئے گا اپنی منزل خود تلاش کرنا ہوگی ۔
 
Top