روزے کا مقصد

عاصم ملک

محفلین
روزے کا مقصد:-

قرآن مجید کے مطابق روزے کا مقصد تقوی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالی کے مقررکردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اسے اس بات کا ڈر رہے کہ اگر اس نے ان حدودکو توڑاتواللہ کے سوا اسے سزا سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔روزے سے یہ تقوی اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس احساس کو آدمی کے ذہن میں پوری قوت کے ساتھ بیدار کردیتاہےکہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور ایک دن اسے اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے۔اس کے ساتھ ہی روزہ صبر سکھاتا ہے جو کہ تقوی کے لیے ضروری ہے۔

روزہ اور شریعت اسلامی:-

شریعت کے مطابق روزہ یہ ہے کہ آدمی روزے کی نیت سے محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اوربیویوں کے پاس جانے سے اجتناب کرے۔یہ پابندی فجر سے لے کررات کے شروع ہونے تک ہے، روزے کی راتوں میں کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا بالکل جائز ہے۔
فرض روزوں کے لیے رمضان کا مہینہ خاص کیا گیا ہے، تاہم نفلی روزے جب چاہیں رکھے جاسکتے ہیں، البتہ جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص کرلینے ، پورا سال روزے رکھنے اور عید کے دنوں میں روزہ رکھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔ اسی طرح رمضان کے شروع ہونے سے ایک یا دودن پہلے روزہ رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایااور فرمایا ہے کہ وہ شخص البتہ ایسا کرسکتا ہے جوروزے ہی رکھتاہو۔
بیماری یاسفر کی وجہ سے یاکسی اور مجبوری کے باعث آدمی اگر رمضان کے فرض روزے پورے نہ کرسکے تو لازم ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر اس کی تلافی کرےاور یہ تعداد پوری کردے۔ سحری کے لیے اٹھنا چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے۔ اذان ہوجائے اور برتن ہاتھ میں ہو تو آدمی جو کچھ کھارہا ہو،کھالے۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جنابت کی حالت میں روزہ رکھ سکتے ہیں۔
آدمی بھول کر کچھ کھالے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔فرمایا ہے کہ یہ تو اسے اللہ نے کھلایااور پلایاہے۔
روزے میں مجامعت کے سوابیوی سے ہرطرح اظہار محبت کرسکتے ہیں۔سیدہ عائشہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور مجھے اپنے ساتھ بھی لگاتے تھے۔

روزہ توڑنے کا کفارہ:-

کسی مجبوری کے تحت اگر روزہ توڑاگیا ہے تواس کا کوئی کفارہ نہیں ہے اگرچہ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کسی اور دن اس کی قضا کرلی جائے البتہ جان بوجھ کر روزہ توڑ لیناایک بڑا گناہ ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز آدمی سے سرزد ہوجائے تو بہتر ہے کہ وہ اس کا کفارہ ادا کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک شخص کو وہی کفارہ بتایاجو قرآن مجید نے ظہار کے لیے مقرر کیا ہے- تاہم روایت سے واضح ہے کہ جب اس نے معذوری ظاہر کی تو آپ نے اس پر اصرار نہیں کیا۔ظہار کا کفارہ درج ذیل ہے:
ایک لونڈی یا غلام آزاد کیا جائے۔
وہ میسر نہ ہو تو مسلسل دومہینے کے روزے رکھے جائیں۔
یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔

....Thnx To Website
http://urdu.understanding-islam.org
 
Top