روزنامچہ 1857۔ از عبد اللطیف ۔ ترجمہ خلیق احمد نظامی ۔ کتاب 1857 روزنامچے۔معاصر تحریریں ، یاد داشتیں ۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور

حضرت عرش آرام گاہ اسی قلعہ میں ایک لاکھ روپیہ ماہانہ اور چند دیہات کی آمدنی اور محصول پر امراء اور قدیم متعلقین کے ساتھ بسر اوقات فرماتے تھے۔ بادشاہ علم و موسیقی اور شاعری میں کافی دستگاہ رکھتے تھے اور بندوق کے نشانہ میں (بھی) ان کو پوری مہارت حاصل تھی ۔ آپ کے کلام کا ایک مجموعہ ہے، رقص و سرور کی محفل میں اکثر ان کی غزلیں گاتے ہیں اور جب قوال صوفیوں کی مجلس میں ان کے اشعار گاتے ہیں تو عوام پر بھی وجد کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہیں رہتی ۔ بے شک یہ بادشاہ نیک کردار ، روشن ضمیر ، با کرامت ، نورانی صورت اور صوفی منش تھے ۔ہزاروں آدمی ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے تھے۔ وابستگان سلطنت طلوع آفتاب کے بعد ڈیڑھ پہر تک شرف حضوری حاصل کرتے تھے۔ یہ گمان نہ کرنا کہ دربار نے کوئی نیا طرز اختیار کر لیا تھا۔ نہیں نہیں ، بلکہ شاہانِ تیمیوریہ کے طرز پر حسن و خوبی سے منعقد ہوتا تھا ۔ امرائے نامدار ایک سمت ، دبیرانِ خوش نگار ایک جانب ، خرد پرور فلسفی ایک طرف ، نامور شعراء یک جہت، علماء اپنے پایہ اور مرتبہ کے مطابق (فائز المرام ہوتے تھے) فرط کرم کی بناء پر بعض امراء کو فرزندوں کی طرح نوازتے اور ۔اماں۔ کہہ کر خطاب کرتے تھے ۔اور بعض کو شاہانہ مرحمت سے حکم فرماتے کہ عصا کے سہارے کھڑے ہوں اور عرض معروض کریں۔
1843 میں نواب نامدار گورنر جنرل بہادر وزیر ہند مسٹر ایلن برانے دربار میں حاضری کا ارادہ کیا اور انہیں یہ خواہش ہوئی کہ اگر دربار میں بیٹھنے کی اجازت مل جائے تو آداب بندگی بجا لائیں ۔ دوڑ کر وہاں پہنچ جائیں اور لوازم دربار بجا لا کر آداب شاہی ادا کریں اور نذر (غلامانہ) پیش کرنے کے بعد، الٹے پاؤں واپس آ کر کرسی پر زیر تخت کچھ دیر بیٹھیں اور اس امر کو ۔مرتبہ عظیم ۔ سمجھیں ۔ پھر مدح و ثناء کرتے ہوئے داخل دولت ہوں اور احکام سلطانی پر سرتسلیم خم کریں اور نذر بھی پیش کریں ۔۔۔۔ مسدود پاکر ۔۔۔۔ملحوظ رکھ کر ۔۔۔۔اس کے زرو نقد کو ۔۔۔۔۔ انتظام سے لائے اور مداومت کے ساتھ پیش کرتا رہے۔۔۔۔۔ بادشاہ نے اپنے بزرگوں کی آبرو (روایات) کا خیال کرتے ہوئے اس کی اجازت نہ دی اور دربار میں بیٹھنے کے متعلق ان کی گزارش مرغوب خاطر نہ ہوئی۔ فرمایا کہ تیری امداد۔۔ اور اس کا موقع دیئے بغیر کہ دوبارہ اوس سلسلے میں کوئی گزارش یا سفارش کی جائے، فرمان نافذ کیا کہ بارگاہ والا میں ایسی (یعنی بیٹھنے کی) توقع نہ رکھی جائے۔
خلاصہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن رات مسرت میں گزارتے تھے ۔ نہ بادشاہ کو جان کا اندیشہ تھا اور نہ ان کے ہوا خواہوں کو عزت و سامان (کے کھو بیٹھنے ) کا خدشہ تھا ۔ انگریزی حکام اور شاہی امراء میں کمال اتحاد تھا۔ اور یہی اتحادخاص و عام کی کار برآری کا باعث تھا۔ دہلی میں بڑی رونق تھی اور دہلی والوں کی بڑی شان تھی۔ ہر شخص لیاقت و مروت میں نیت خصلت اور تواضع و اخلاق میں نیک سیرت رکھتا تھا۔ گویا وہ ہمہ تن ادب و حیا اور مجسم مہر و وفا ہے۔ ہاں ان کے لطفِ صحبت سے کوئی دل ایسا نہ تھا کہ مسرت و نشاط نہ حاصل کرتا ہو ۔ اس سے زیادہ کیا کہوں اور اس کی داستان کہاں تک گاؤں کہ ۔۔نوخیز ۔۔ آدمیوں کا مجمع ظاہر ہوا اور ان کا ایک گروہ حشرات الارض کی طرح نکل کھڑا ہوا ۔ ان کے اخلاق مختلف تھے، قاعدے علیحدہ تھے ، طریقے مختلف تھے ، روش ناپسندیدہ تھی، علامات جداگانہ تھیں ، ملت نئی اور عقائد نئے تھے۔ قسم قسم کے یہ لوگ تھے، جن کے طور و طریق (بھی) مختلف قسم کے تھے۔ غرض ایسے بے حیا اور شیخی باز جمع ہو گئے جن کی پیشانی پر نہ حیا کا نقش تھااور جن کی فطرت میں وفا کا نام تھا۔ مروت کیسی اور ہمت کہاں کی ! اگر کوئی دردمند انہیں سلام کر لے تو بڑی کراہت سے ہاتھ ہلائیں گے گویا ان کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے۔ اور اگر کوئی غرض مند کچھ عرض کرے تو زبان بریدہ کی طرح جواب نہیں دیں گے ۔ اور اگر دیں گے بھی تو کمینہ پن سے۔ ان میں سے بعض خود بینی کی وجہ سے کسی کو اپنے سے بڑا تسلیم نہیں کرتے اور بعض غرور کے باعث اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے
؎ گر بے ہنر بمال کند کبر بر حکیم کونِ خرش شمارا گر گاؤ عنبر است​
اس وقت میں جب کہ ادب کی رسم اور مروت کا طریقہ دنیا سے اٹھ گیا ہے اور قحط الرجال کا زمانہ ظاہر ہوا ہے، اگر کوئی دیدہ ور کہیں سے اس ویرانہ میں آجائے اور ان لوگوں سے درگزر کرے اور (حالات کا ) گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد بھی میری باتوں کو جھٹلائے اور مجھ پر یا میری تحریر پر دروغ گوئی کی تہمت لگائے تو میں یہ کہوں گا کہ افسوس ہے تجھ پر اے ناداں ! اور حیف ہے تجھ پر اے ناواقف ! کیا کہنا تیری سمجھ کا ! تجھے نہیں معلوم کہ گفتگو اس عہد کےنامدار اور کامگار حضرات کے بارے میں ہے نہ کہ اس زمانہ والوں کے متعلق ۔ اس وقت جو رنگ تو اس کے خلاف دیکھتا ہے اور وہ طریقہ جو اس کے خلاف تو پاتا ہے، تو اس سے بدگمان نہ ہو اور مجھ پر عتاب نہ کر کیونکہ یہاں دنیا میں اب اس انجمن کا کوئی نشان اور کوئی مقام باقی نہیں رہا ہے۔ ہاں ہاں بعض وہ لوگ جو اس دور کے باقی رہ گئے ہیں اپنی جگہ خاموش ہیں،نہ یہ کہ جاہ عزت کی وجہ سے جوش و خروش میں ہیں ۔ ان لوگوں کی اگر تجھے تلاش ہو اور (ان سے) تیری ملاقات ہوجائے تو میری بات کو باور کر لے گا۔
اے لطیف بس ، اب ابس کر !یہ ماتم سرائی کب تک اور یہ داستان آرائی کہاں تک ! اس داستاں سے تجھ کو کیا فائدہ اور اس پہلی سے تجھ کو کیا نفع؟ بہتر یہی ہے کہ دل کو یاد خدا سے لگا لے اور ادھر ادھر کے خیال سے درگزر کر کیونکہ ارباب خرد اس دنیا کے غم اور شادی سے دل کو آزاد رکھتے ہیں اور روح جو کثیف جسم میں ایک لطیف چیز ہے، تخیلات کی کٹھالی میں نہیں رکھتے اور اصحاب دانش خوب جانتے ہیں کہ انقلاب اس گردش کرنے والے آسمان کی خاصیت ہے۔ اور وضع و اطوار کی تبدیلی اس دنیائے ناپائیدار کے لیئے لازم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے دیدہ حق میں کھولے تو دیکھا کہ اس آسمان کا شیوہ شعبدہ بازی ہے کہ ہر ساعت نئے نئے نقش اور صورتیں بناتا اور بگاڑتا رہتا ہے اور اس کا طریقہ نیرنگ سازی ہے کہ ہر لحظہ کوئی نہ کوئی نیا رنگ لاتا اور لے جاتا ہے۔ جب میں اس کی صورت پر غور کرتا ہوں تو اسے نیست پاتا ہوں اور جب اس کی ہستی کا تصور کرتا ہوں تو اسے بے وجود و معدوم پاتا ہوں ۔ زندگی کو میں نے ایک آن سے زاید نہیں دیکھا اور بقا کو ایک نقش سے زیادہ نہٰیں پایا۔ ان باتوں کے باوجود اس پر تکیہ کرنا ایسا ہے جیسے بلبلے کا ہوا پر گرہ لگانا اور اس سے (کوئی ) امید رکھنا ایسا ہے جیسے پانی پر نقش و نگار بنانا۔ آیا جو میں نے لکھا ہے تم نے نہیں دیکھا اور جو میں نے کہا ہے تم نے نہیں سنا ۔ دیکھو کل کیسے کیسے پیکر تھے ، آج ان کی کیا صورتیں ہوگئیں اور دیکھنا چاہئے کہ آج رات کے پیٹ میں کیا ہے اور صبح کو کیا وجود میں آتا ہے۔

؎ ایں عمر کہ بے تاب بہ بینی آں را نقشے است کہ بر آب بہ بینی آں را
دنیا خوابے و زندگانی در وے خوابے است کہ درخواب بہ بینی آں را
 
سبحان اللہ ، لطیف کی پریشان طبیعت کا کیا کہنا کہ کیسے کیسے افکار کی نقش بندی کرتی ہے اور اس کا قلم کیسا آوارہ خرام ہے کہ ہر قسم کی نگارش کی طرف چلتا ہے۔ یہاں سے مقصود اصلی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ پس اب ان لوگوں کی سرگزشت جو میں نے دیکھی اور سنی قدرے بیان کرتا ہوں۔اگرچہ داستان دراز، غمناک اور عبرت اندوز ہے جس کے دہرانے سے میرا دل دونیم ہوا جاتا ہے۔ اور جس کی تحریر سے میرا قلم لہو کے آنسو بہاتا ہے۔ پس مجھے لکھنے کی طاقت اور قوت کہاں ؟ ہاں ! کسی کو حیات خضر ملے تو ان لوگوں کی سوانح حیات مفصلاً لکھے جائیں ۔ لہذا میں نے چاہا کہ خاموشی اختیار کروں اور اس بارہ میں ایک حرف بھی زبان پر نہ لاؤں لیکن بدرجہ مجبوری والد کے ارشاد سے اس کا ایک شمہ کہ قابل تحریر ہے، سپرد قلم کرتا ہوں۔
؎ برنج و راحت دنیا مرنجاں دل ، مشو خرم
کہ آئینِ جہاں گاہے چناں گاہے چنیں باشد​
جب ان کا نصیب خراب ہوا اور منحوس ستارے کی نظر ان کو لگی ، تو یکا یک میرٹھ کی زمینِ شور و شر سے (جو دہلی سے تیس کروہ کے فاصلے پر ہے) ایک تیز آندھی چلی اور اس سے فتنہ و آشوب کا ایک غبار اٹھا۔ اور چشم زدن میں دنیا اور دنیا والوں کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ عجیب غبار تھا کہ سرکار انگریز ی کی ہندوستانی فوج کا کوئی آدمی ایسا نہ رہا تھا ہندوستان کی زمین تاریک پر بغاوت کا ارادہ نہ کیا ہو اور نئے انداز کی ایسی ہوا چلی کہ حکومت انگلشیہ کے لشکر کا کوئی متنفس زیر آسماں ایسا نہ تھا جو مخالفت پر آمادہ نہ ہو گیا ہو۔ اولاً اس کے سپاہی جو میرٹھ میں مقیم تھے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان سب نے کارتوس کے بہانے سے اپنے ۔۔۔ ولی نعمت کے احسان کو فراموش کردیا اور نمک حرامی پر کمر باندھی اور مصمم ارادہ کر کے ظلم و تعدی کا ہاتھ آستین سے نکالا اور قتل و غارت گری کے لئے تیار ہو گئے اور حکام فوج کو ہلاک کیا اور ان کے اہل و عیال کو بھی جہاں تک بس چلا زندہ نہ چھوڑا۔ دو دن تک ۔دوسروں۔ کو قتل و برباد کرتے رہے۔ گھروں میں آگ لگائی اور خبر رسانی کا راستہ بند کر دیا ۔ بعدہ دہلی کا عزم کیا۔
 
16 رمضان 1273ھ بمطابق 11 مئی 1857 یوم دوشنبہ
ایک پہر دن گزرنے کے بعد انگریزی لشکر پر جو شاہ جہاں آباد سے مشرق کی جانب ڈھائی کوس کے فاصلہ پر ہے، گھوڑوں پر سوار ہو کر آ پہنچے اور 38-54 اور 74 نمبر کی فوجوں کی سازش سے جو اس مقام پر متعین تھیں ، بیہودہ ارادہ کیااور انگریز فوجی اور ملکی حکام میں سے جس کو بھی پایا، تہ تیغ کردیا اور پھر شہر کا رخ کیا اور دفتروں میں آگ لگا دی۔ جیل کے دروازے کھول کر قیدیوں کو آزاد کر دیا اور اس دیار کے قرب و جوار کے بدمعاشوں اور دیہاتیوں کی ایک جماعت پر ایسا جنون سوار ہوا کہ اہل لشکر کی ہمراہی میں لوٹ مار کے لئے چل دیئے اور سرراہ لوٹ مار کی اور اس گروہ کے آدمی تیغ و تفنگ لے کر ہر کوچہ اور ہر بازار میں قتل و غارت گری کے لیئے درندوں کی طرح چکر لگاتے تھے۔دوڑتے تھے اور پکڑ پکڑ کر مارتے تھے۔مختصر یہ کہ جسے انگریزی لباس میں پاتے ، تہ تیغ کر دیتے تھے ۔ یہاں تک کہ تمام مذاہب کی تعلیم کے سراسر منافی ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ شہر کے شرفاء ان سیاہ کاروں اور بدذاتوں کے جور و ستم سے پریشان اور مبہوت ہو کر نالہ و فریاد کرنے لگے۔ افسوس کہ وہ بزم تباہ ہو گئی اور اس شہریار کو نظر بد کھا گئی۔ ورنہ اے نادان ! تو سلاطین تیموریہ کے عجائبات دیکھتا اور جان لیتا کہ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔
اب مجھے افسانہ خواں نہ کہنا اور نہ بیہودہ گو سمجھنا۔ میں نہ چیستاں لکھنے والا ہوں ، نہ داستان گو ہوں ۔ مجھے ان باتوں سے کیا سروکار۔ میں تو نیک گفتار اور راست نگار ہوں ۔ سنو! جب کمزوریوں کو دیکھنے والا آسمان ان کی گھات میں لگا تھا تو تنگ نظری کی وجہ سے اسے یہ حسد پیدا ہوا کہ بادشاہ اور شہزادے کے خون کو اپنی غذا بنائے اور خاندان تیموریہ کے نقش حکومت کو صفحہ روزگار سے مٹا کر امراء اور رؤسائے شاہی کو خاک میں ملا دے۔
اسی اثناء میں بڑے افسران یعنی مسٹر کپتان ڈگلس بہادر قلعہ دار اور مسٹر سائمن بہادر ریزیڈنٹ دہلی نے اضطراب اور بے قراری کی حالت میں دربار شاہی میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کیا کہ سرکار انگریزی کی فوج نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا ہے۔اولا انہوں نے میرٹھ میں فتنہ و فساد شروع کیا اور وہاں سے راتوں رات چل کر دہلی کے لشکر پر آٹوٹے اور انہیں اپنے ساتھ لے کر اس شہر میں قیامت برپا کردی ہے ۔اور فتنہ پردازی، خونریزی، آتش زنی اور غارت گری کر رہے ہیں۔ چونکہ آج کل شہر کا نظم و نسق کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لیئے ملازمان والا کو چاہیئے کہ انتظام کے لیئے بیٹھیں اور نالائقوں کی گوشمالی کے لیئے کھڑے ہو جائیں تاکہ فتنہ و فساد کی یہ آگ دب سکے۔
134
 
اس خبر وحشت اثر کو سن کر بادشاہ کا دل غمگین ہوا اور انہیں بہت افسوس ہوا ۔ چونکہ بادشاہوں کا ضمیر روشن اور دل پاک و صاف ہوتا ہے۔ اس لئے زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ گھبراؤ نہیں جو ناروا باتیں وہ انگریزوں کے ساتھ کریں گے ، بہت جلد اس سے زیادہ انگریز ان سے انتقام لے لیں گے۔ اور یہ بھی فرمایا مخلوق کی حفاظت خالق کے ذمہ ہے۔ ہم کو اور ہمارے متعلقین کو اس سے بے تعلقی ہی زیادہ مناسب ہے ۔ البتہ اہل ظاہر کے نزدیک مخلوق کی نگہبانی جو خالق کی ایک نادر امانت ہے، ایسے نازک وقتوں میں ہمارے ذمہ بھی واجب ہے۔ بہر حال شہر پناہ اور قلعہ کے دروازوں اور آنے جانے والوں کے راستہ کو بند کرنے کے لئے اور آستانہ والا میں ریذیڈنٹ اور قلعہ دار کی حفاظت کے واسطے بازدار کو تاکیدی حکم ہوا۔
لیکن جن لوگوں کا خون جوش مار رہا تھا اور جنہیں زمین مرگ پکار رہی تھی وہ دم بدم جگہ بہ جگہ جانے کا عزم و ارادہ کرتے تھے۔ ہرچند روکتے تھے لیکن باز نہیں آتے تھے۔ آخر کار آستانہ سے بالا خانہ کا (جہاں قلعہ دار رہتے تھے) قصد کیا اور اندر سے باہر گئے۔ بس ان کا زینہ پر قدم رکھنا تھا کہ اس دنیا سے چل بسے۔ بدذات اور نا عاقبت اندیش لوگوں کا مجمع وہاں لگا ہوا تھا ۔ چونکہ انہوں نے ہرطرف خون ناحق بہایا تھا اور ہر چھوٹے بڑے سے دست و گریباں ہوئے، اس لئے مسٹر ڈیولی بہادر اور مسٹر ایکلی بہادر و غیرہم نے اضطراب اور پریشانی کی حالت میں انگریزی میگزین میں پناہ لی۔وہاں چونکہ آب و دانہ ان کے پاس نہ تھا اور گرمی کا موسم تھا اور شہر میں فتنہ و فساد کا وہی عالم تھا اس لئے بے سروسامانی سے بہت دل تنگ ہوئے۔ جب تلوار اور گولی چلانے کی طاقت بھی نہ پائی تو چاہا کہ کہیں سرک جائیں ، لیکن ان نا اہلوں کی کج رفتاری کی وجہ سے نکل جانے کا راستہ کہاں تھا۔مجبور ہو کر دوپہر کے بعد خود ان دلاوروں نے دلیری اور شیر مردمی کا حق ادا کردیا۔یعنی اس میگزین میں آگ دے دی ۔بس اس سے ایک ایسی ہیبت ناک آواز پیدا ہوئی جس سے انسان تو کیا گاؤزمین کا بھی پتہ پانی ہو جائے ۔اس سے جو جاں گیر شعلے بھڑک اٹھے انہوں نے اردگرد کے چھوٹے اور بڑے سب کو جلا ڈالا اور آس پاس کے گروہ کو زیر و زبر کر کے خاک کر دیا اور ایک مجمع کو اس جگہ سے مرغ ہوائی کی طرح اڑا کر زمین پر پٹک دیا۔انہوں نے ایسی مردانگی سے کام لیا کہ ان باغیوں کو (میگزین کا) قبضہ دینا تو کیا اپنی جانیں بھی ساتھ لے گئے ۔
اس کے بعد اس بغاوت شعار گروہ نے بادشاہ کے لشکر کو چالاکی کے ساتھ اپنے ساتھ ملا لیا اور تازہ قوت ھاصل کر کے ایوان شاہی میں داخل ہوئے اور بادشاہ کو چاروں طرف سے حلقہ میں لے کر اسے گوسالہ بنا لیا اور بارگاہ جمیعت کو پریشان کیا اور بیہودہ گوئی کا طرز اختیار کیا۔ بیچارے بادشاہ ، شاہ شطرنج کی طرح ضیق میں تھے ۔ مجبورا تحمل سے کام لیا اور تامل کے بعد فرمایا ۔۔ مجھ پیر گوشہ نشین کے ساتھ یہ سب بے بنیاد باتیں آخر کیوں کی جارہی ہیں ؟ اور بلا وجہ یہ شورش کیوں برپاء ہے ؟ ہمارا آفتاب زندگی تو لب بام آچکا ہے۔یہ ہمارا آخری وقت ہے ۔ اب تو مجھ بوڑھے کو ایک خلوت گاہ کافی ہے۔لیکن ان کی بے اعتدالیوں پر امراء کو غصہ آیا اور وہ غصہ میں زیر لب بڑبڑائے اور ان کو زدوکوب کرنے کی غرض سے اٹھے لیکن جب قابو نہ پایا تو غمگین ہوئے اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے ۔مشیت الہی یہ تھی کہ حکومت انگلیشیہ کے ارکان کچھ عرصہ کے لئے اس ملک پر تسلط پانے سے باز رہیں اور کچھ دنوں کے لئے جنگ آزمائی کریں ۔۔۔۔ لیکن یہ حیرت و تعجب کا مقام نہیں کیونکہ وہ نرالی شان والا خدا اگر چاہے تو ایک دم میں ذرہ کو آفتاب اور آفتاب کو ذرہ بنا دے ۔
مختصر یہ کہ نمک حرام ۔ بد انجام لشکر نے میرٹھ اور دہلی میں چاروں طرف لڑائی جھگڑا اور کشت و خون کیا اور چنگیز خان کے آئین خونریزی کو اختیار کیا۔لوگ جوق در جوق آکر قلعی معلیٰ میں پناہ گزیں ہونے پر ناز کرتے تھے ۔ جب لوگ شہر میں داخل ہوتے تو وہ بد نہاد جنگ جو شور و شغب کرتے اور عجب ہنگامہ برپا کرتے تھے ۔

17 رمضان ۔ 12 مئی 1857

صبح کو جب بادشاہ اس طلسمات کو دیکھنے اٹھے تو انہیں بہت پریشانی ہوئی ۔متحیر ہو کر متعلقین کے پاس تشریف فرما ہوئے ۔ جاں نثار متعلقین چارہ جوئی کے لئے اٹھے اور شاہ عالی مرتبت کی بادیہ پیمائی کے خواستگار ہوئے ۔پس جائے پناہ کے متعلق گفتگو ہوئی ۔کسی نے میرٹھ جانے کا مشورہ دیا ، کسی نے دار الامارۃ لاہور کی رائے دی اور کسی نے دار الخلافہ اکبر آباد کہا۔کہ تینوں مقامات مذکورہ جائے پناہ ہیں ۔لیکن عقل نے وہم کیا اور مقدر چارہ گر نہ ہوا۔

18 رمضان ۔ 13 مئی 1857

اشراق کے وقت جب خاطر والا دیوان کی طرف مائل ہوئی ، چند جوہری، بقال اور حلوائی داد خواہی کے لیئے آئے (اور کہا) کہ مفسدان سحرکار اور اوباش و بدمعاش لوگ حیلہ و فریب ، لوٹ مار اور کمینہ پن سے داخل ہوگئے ہیں ۔ اور لوگ نہایت پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ بادشاہ ازراہ نوازش اس کے انتظام کی طرف توجہ فرمائے ۔

19 رمضان - 14 مئی 1857

صبح کے وقت جب بادشاہ کو اصلاح ملکی کا خیال پیدا ہوا فخر الدولہ مرزا امین الدین احمد خاں بہادر اور میاں نظام الدین اور نواب مرزا ضیاء الدین احمد خاں بہادر اور نواب حسن علی خان اور نواب احمد علی خاں اور اعتماد الدولہ میر حامد علی خاں بہادر اور نجم الدولہ مرزا اسد اللہ خاں غالب اور نواب مدہن صاحب اور خان جہاں خاں اور ارادت خاں اور مفتی صدر الدین خاں اور کرم علی خاں ایوان شاہی میں آداب بجا لانے کے لئے حاضر ہوئے اور زمین بوسی سے سرخروئی حاصل کی اور ہر ایک نے ایک ایک خر مہرہ پیش کیا ۔ بادشاہ کے حکم سے ہر روز کے لئے مرتبہ خانہ زادی سے یہ لوگ بہرہ اندوز ہوئے ۔ نواب فخر الدولہ بہادر نے مگس رانی کا بلند درجہ حاصل کیا۔مرزا معین الدین حسن خاں ، عمدۃ الحکماء حکیم احسن اللہ خاں کے ساتھ نیازمندانہ طور پر بارگاہ سلطانی میں حاضر ہوئے اور عمدۃ الحکماء کی سفارش پر اس معمورہ اور بیرونجات کی حفاظت پر متعین کئے گئے اور کچھ فوج شہر کی نگہبانی کے لئے ان کو دی گئی ۔دن ڈھلے پروانہ عطا کرنے کا حکم ہواکہ راست کرداری اور نیک نیتی سے ان شوریدہ سروں کوجو بھڑوں کے چھتہ کی مانند ہیں ، ایسا کچلیں کہ وہ ختم ہو جائیں اور پریشان مخلوق آرام پائے اور طلب رضائے الہی اور حفاظت مخلوق کو دائمی طور پر اپنے لئے فرض عین اور عین فرض جانیں اور ہماری خیر اندیشی میں مشغول ہوں۔
 
آخری تدوین:
20 رمضان ۔ 15 مئی 1857
معین الدین حسن خاں کو تحریری حکم ہوا کہ کمشنر ، قلعہ دار ، جج ، اور کلکٹر کی لاشوں کا پتہ لگا کر اٹھا لائیں ۔ اور غسل دلا کر کفن دے کر ان کے خاص قبرستان میں دفن کر دیں ۔
21 رمضان - 16 مئی 1857
چونکہ بادشاہ آرزدہ خاطر تھے اس لئے مرزا مغل اور مرزا خضر سلطان سے سختی اور زیادہ دل سوزی سے بات کی ۔ دلآویز گفتار یہ تھی :

عزیزو! یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہے۔بد دلی نہ کرو ۔ وہ کام کرو جو مفید ہو اور مخلوق کے آرام اور خالق کی خوشنودی کا سبب ہو ۔ ان شیطانوں میں سے کچھ کو توپ سے اڑاؤ، کچھ کو سولی دو اور اس سارے گمراہ فرقہ کو کچھ قید اور کچھ حراست میں ایسی سزا دو کہ کوئی بوڑھی بھی کسی ظالم کے ہاتھوں پریشانی نہ اٹھائے ۔تاکہ قیامت کے دن شرمندگی نہ ہو ۔ افسوس کہ اس بڑھاپے میں جب کہ ہم اس دار فانی میں دار باقی کے خیال میں اچھا وقت گزارتے تھے ۔اور خوب راحت میں تھے ، ناگاہ اس کشمکش میں مبتلاء ہو گئے اور شرمندہ و منفعل ہوئے ۔ پریشاں لوگ کہ ہمارے پاس چلے آتے ہیں ۔اور بدمعاشوں کی سختی اور مخلوق کی بربادی کا رونا روتے ہیں ۔میرا دل ان سب تکلیفوں سے پھنکا جاتا ہے اور اس معذوری پر میرے ہوش اڑے جاتے ہیں ۔لاریب کہ ہمارے اعمال نے ان فتنہ و فساد کی شکل اختیار کر کے عالم اور اہل عالم کو پریشان و پر آشوب کر دیا ۔ اے معبود میرے ! ہم لوگوں کو دنیا و آخرت کے فتنے سے محفوظ رکھنا،


22-رمضان - 17 مئی 1857
جس وقت بادشاہ مجرائیوں کا سلام لے رہے تھے ، قاضی فیض اللہ کو کوتوال بننے کی ہوس پیدا ہوئی ۔ ان کی خواہش پوری ہوئی ، ان کا حسب نسب معلوم کر کے مرزا مغل کو اشارہ کیا گیا کہ منصب کوتوالی پر انہیں متعین کر دیا جائے ۔

23 رمضان - 18 مئی 1857

بادشاہ کی دل پسند نصیحت شاہزادہ پر بھی اثر کئے بغیر نہ رہی ۔ مرزا مغل وہاں سے نکل کھڑے ہوئے ۔ ان کو خیال پیدا ہوا کہ شہر کا چکر لگائیں تاکہ امن و امان کی صورت پیدا ہو ۔ پس شہر کی طرف چلے گئے اور ہر رہگزر میں گھومے ۔کرم خوئی اختیار کی ، دلجوئی میں کوئی دقیقہ اٹھا کر نہ رکھا، منادی کرنے اور بند دکانوں کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس خجستہ کا پیمان بازار کھولنے کا باعث ہوا ۔ فیض اللہ قاضی کو کوتوالی کے انتظام پر مقرر کیا اور تھانوں کے انتظام کی طرف متوجہ ہوئے ۔اور اصلاح عام اور کمپنیوں اور بدکرداروں کی پوری تہدید میں مصروف ہوئے اور ان کو قید کرکے کوتوالی میں رکھا۔ پس بازار میں کسی قدر دلکشائی اور شہر میں دلکشی کی صورت پیدا ہوئی ۔ جب سکون خاطر ہوا تو اظہار واقعات کے لئے حاضر ہو کر تفصیل بیان کی اور بادشاہ نے انہیں کچھ انعام مرحمت فرمایا ۔
رونق دربار کے وقت لوگوں کا شور فریاد سنائی دیا کہ باغیوں کا ایک گروہ کلیان سنگھ کشن گریہ اور نگر سیٹھ کے مکانوں پر فساد برپا کرتا ہوا پہنچا تاکہ وہ بے بس اور بے کس ہو جائیں۔

24 رمضان - 19 مئی 1857
عمدۃ الحکماء حکیم محمد احسن اللہ خاں کچھ عرض کرنے بارگاہ میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ تمام گروہ بد اطوار لوگوں کا ، خواہ ہندو ہوں یا مسلمان وقت ناوقت ہندو اور مسلمان ، شاہی ملازمین اور اہل دولت کے ساتھ طرح طرح کے حیلے اور بہانے کر کے ہر جگہ اور ہر مقام پر ، جہاں چاہے جھگڑا کرنے لگتا ہے ۔ اس وجہ سے آج کل بے رونقی کی گرم بازاری ہے۔عمدۃ الحکماء اچھے حکیم اور خلیق نیک آدمی تھے ۔ اس سبب سے کہ ان کے بھانجے حکیم ظہیر الدین احمد خان ان کے متبنیٰ تھے ۔ ہم ان کا ذکر (بھی) کیوں نہ کریں کہ وہ پسندیدہ روش اور نیک سیرت آدمی ہیں۔ اور مجھ ہیچمداں کے بزرگ تریں احباب میں سے ہیں ۔یقیناً وہ ایک برے ادیب اور شفیق اور عظیم المرتبت ہستی ہیں ۔

25 رمضان- 20 مئی 1857
بارگاہ مٰیں حافظ ندیم الدولہ محمد داؤد خاں بہادر نے عرض کیا کہ ایک سرکش گروہ نے رام سرن داس ڈپٹی انگریزی کے مکان پر دشمنی کا جھنڈا بلند کیا اور ان کے مال و دولت کو لوٹ لیا اور یہ بھی کہا کہ لشکر آمادہ جوروستم ہے اور زمانہ برسر پیکار ۔ آج ایک گروہ روسیاہ بے سروپا بہانے بنا کر اس فدوی سے متعرض ہوا اور شور و غوغا کیا۔اور روپیہ چھین لینے کا ارادہ کیا۔شاہزادوں کو اس کی اطلاع کی لیکن انہوں نے کچھ توجہ نہ فرمائی ۔نہ اس اطلاع کی طرف کان بھرے نہ انصاف کیا ۔بادشاہ نے شاہزادوں کو بہت سخت سست کہا اور لشکر کے سرداروں کو ڈانٹا اور ان کی حفاظت کے لئے لوگ مقرر کئے ، تاکہ نالائقوں کا علاج ہو سکے۔یہ بھی فرمایا کہ ہمارے مصاحب کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
ندیم الدولہ بہادر سادات علوی سے ہیں ۔علم دوست طبیعت پائی تھی ۔انہیں جب منصب ملا تو سخاوت کا طریقہ اختیار کیا۔اچھے اچھے کام کئے۔ لاچاروں کی چارہ سازی کی اور بے نواؤں کی دستگیری کی ۔کنویں اور مسجدیں بنوائیں ۔پینتیس ہزار روپیہ کے صرف سے قصبہ مہرولی میں حضرت بختیار کاکی قدس سرہ کی درگاہ کے احاطہ میں ایک بڑا تالاب جس کی سوتیں جاری ہیں، بنوایا۔ وہ باؤلی کے نام سے مشہور ہے ۔اور دو ہزار روپیہ صرف کر کے لال ڈگی سے کوچہ استادحامد تک ایک نہر نکالی اور پچاس رہٹ آب تلخ کے نکلوا کر اس کو آب شیریں بنایا اور حوض (مسجد) جامع تک اسے لے گئے ۔اور حوض درگاہ قدم مبارک کے اندر مسجد کے قریب اور ایک مسجد حضرت ترکمان رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کے باہر بنوائی اور ایک مسجد موضع چتر پور میں تعمیر کرائی ۔اس میں شک نہیں کہ ان کے ان کاموں سے لوگوں کو بہت فیض پہنچا۔حافظ ندیم الدولہ بہادر میری والدہ کے عزیزوں میں سے ہیں اور میرا ان سے دامادی کا رشتہ ہے۔

26 رمضان- 21 مئی 1857
میاں محبوب علی خان خواجہ سرا مہتمم و منتظم کو حکم ہوا کہ ظلم و نا انصافی کے انسداد کے لئے جو غم و افساس کا موجب اور لطف الٰہی سے ناامیدی کا باعث ہے ، حتیٰ الامکان جو کچھ کر سکو اپنے ذمہ واجب و لازم سمجھو ۔
139
 
Top