فیصل عظیم فیصل
محفلین
حضرت عرش آرام گاہ اسی قلعہ میں ایک لاکھ روپیہ ماہانہ اور چند دیہات کی آمدنی اور محصول پر امراء اور قدیم متعلقین کے ساتھ بسر اوقات فرماتے تھے۔ بادشاہ علم و موسیقی اور شاعری میں کافی دستگاہ رکھتے تھے اور بندوق کے نشانہ میں (بھی) ان کو پوری مہارت حاصل تھی ۔ آپ کے کلام کا ایک مجموعہ ہے، رقص و سرور کی محفل میں اکثر ان کی غزلیں گاتے ہیں اور جب قوال صوفیوں کی مجلس میں ان کے اشعار گاتے ہیں تو عوام پر بھی وجد کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہیں رہتی ۔ بے شک یہ بادشاہ نیک کردار ، روشن ضمیر ، با کرامت ، نورانی صورت اور صوفی منش تھے ۔ہزاروں آدمی ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے تھے۔ وابستگان سلطنت طلوع آفتاب کے بعد ڈیڑھ پہر تک شرف حضوری حاصل کرتے تھے۔ یہ گمان نہ کرنا کہ دربار نے کوئی نیا طرز اختیار کر لیا تھا۔ نہیں نہیں ، بلکہ شاہانِ تیمیوریہ کے طرز پر حسن و خوبی سے منعقد ہوتا تھا ۔ امرائے نامدار ایک سمت ، دبیرانِ خوش نگار ایک جانب ، خرد پرور فلسفی ایک طرف ، نامور شعراء یک جہت، علماء اپنے پایہ اور مرتبہ کے مطابق (فائز المرام ہوتے تھے) فرط کرم کی بناء پر بعض امراء کو فرزندوں کی طرح نوازتے اور ۔اماں۔ کہہ کر خطاب کرتے تھے ۔اور بعض کو شاہانہ مرحمت سے حکم فرماتے کہ عصا کے سہارے کھڑے ہوں اور عرض معروض کریں۔
1843 میں نواب نامدار گورنر جنرل بہادر وزیر ہند مسٹر ایلن برانے دربار میں حاضری کا ارادہ کیا اور انہیں یہ خواہش ہوئی کہ اگر دربار میں بیٹھنے کی اجازت مل جائے تو آداب بندگی بجا لائیں ۔ دوڑ کر وہاں پہنچ جائیں اور لوازم دربار بجا لا کر آداب شاہی ادا کریں اور نذر (غلامانہ) پیش کرنے کے بعد، الٹے پاؤں واپس آ کر کرسی پر زیر تخت کچھ دیر بیٹھیں اور اس امر کو ۔مرتبہ عظیم ۔ سمجھیں ۔ پھر مدح و ثناء کرتے ہوئے داخل دولت ہوں اور احکام سلطانی پر سرتسلیم خم کریں اور نذر بھی پیش کریں ۔۔۔۔ مسدود پاکر ۔۔۔۔ملحوظ رکھ کر ۔۔۔۔اس کے زرو نقد کو ۔۔۔۔۔ انتظام سے لائے اور مداومت کے ساتھ پیش کرتا رہے۔۔۔۔۔ بادشاہ نے اپنے بزرگوں کی آبرو (روایات) کا خیال کرتے ہوئے اس کی اجازت نہ دی اور دربار میں بیٹھنے کے متعلق ان کی گزارش مرغوب خاطر نہ ہوئی۔ فرمایا کہ تیری امداد۔۔ اور اس کا موقع دیئے بغیر کہ دوبارہ اوس سلسلے میں کوئی گزارش یا سفارش کی جائے، فرمان نافذ کیا کہ بارگاہ والا میں ایسی (یعنی بیٹھنے کی) توقع نہ رکھی جائے۔
خلاصہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن رات مسرت میں گزارتے تھے ۔ نہ بادشاہ کو جان کا اندیشہ تھا اور نہ ان کے ہوا خواہوں کو عزت و سامان (کے کھو بیٹھنے ) کا خدشہ تھا ۔ انگریزی حکام اور شاہی امراء میں کمال اتحاد تھا۔ اور یہی اتحادخاص و عام کی کار برآری کا باعث تھا۔ دہلی میں بڑی رونق تھی اور دہلی والوں کی بڑی شان تھی۔ ہر شخص لیاقت و مروت میں نیت خصلت اور تواضع و اخلاق میں نیک سیرت رکھتا تھا۔ گویا وہ ہمہ تن ادب و حیا اور مجسم مہر و وفا ہے۔ ہاں ان کے لطفِ صحبت سے کوئی دل ایسا نہ تھا کہ مسرت و نشاط نہ حاصل کرتا ہو ۔ اس سے زیادہ کیا کہوں اور اس کی داستان کہاں تک گاؤں کہ ۔۔نوخیز ۔۔ آدمیوں کا مجمع ظاہر ہوا اور ان کا ایک گروہ حشرات الارض کی طرح نکل کھڑا ہوا ۔ ان کے اخلاق مختلف تھے، قاعدے علیحدہ تھے ، طریقے مختلف تھے ، روش ناپسندیدہ تھی، علامات جداگانہ تھیں ، ملت نئی اور عقائد نئے تھے۔ قسم قسم کے یہ لوگ تھے، جن کے طور و طریق (بھی) مختلف قسم کے تھے۔ غرض ایسے بے حیا اور شیخی باز جمع ہو گئے جن کی پیشانی پر نہ حیا کا نقش تھااور جن کی فطرت میں وفا کا نام تھا۔ مروت کیسی اور ہمت کہاں کی ! اگر کوئی دردمند انہیں سلام کر لے تو بڑی کراہت سے ہاتھ ہلائیں گے گویا ان کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے۔ اور اگر کوئی غرض مند کچھ عرض کرے تو زبان بریدہ کی طرح جواب نہیں دیں گے ۔ اور اگر دیں گے بھی تو کمینہ پن سے۔ ان میں سے بعض خود بینی کی وجہ سے کسی کو اپنے سے بڑا تسلیم نہیں کرتے اور بعض غرور کے باعث اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے
اے لطیف بس ، اب ابس کر !یہ ماتم سرائی کب تک اور یہ داستان آرائی کہاں تک ! اس داستاں سے تجھ کو کیا فائدہ اور اس پہلی سے تجھ کو کیا نفع؟ بہتر یہی ہے کہ دل کو یاد خدا سے لگا لے اور ادھر ادھر کے خیال سے درگزر کر کیونکہ ارباب خرد اس دنیا کے غم اور شادی سے دل کو آزاد رکھتے ہیں اور روح جو کثیف جسم میں ایک لطیف چیز ہے، تخیلات کی کٹھالی میں نہیں رکھتے اور اصحاب دانش خوب جانتے ہیں کہ انقلاب اس گردش کرنے والے آسمان کی خاصیت ہے۔ اور وضع و اطوار کی تبدیلی اس دنیائے ناپائیدار کے لیئے لازم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے دیدہ حق میں کھولے تو دیکھا کہ اس آسمان کا شیوہ شعبدہ بازی ہے کہ ہر ساعت نئے نئے نقش اور صورتیں بناتا اور بگاڑتا رہتا ہے اور اس کا طریقہ نیرنگ سازی ہے کہ ہر لحظہ کوئی نہ کوئی نیا رنگ لاتا اور لے جاتا ہے۔ جب میں اس کی صورت پر غور کرتا ہوں تو اسے نیست پاتا ہوں اور جب اس کی ہستی کا تصور کرتا ہوں تو اسے بے وجود و معدوم پاتا ہوں ۔ زندگی کو میں نے ایک آن سے زاید نہیں دیکھا اور بقا کو ایک نقش سے زیادہ نہٰیں پایا۔ ان باتوں کے باوجود اس پر تکیہ کرنا ایسا ہے جیسے بلبلے کا ہوا پر گرہ لگانا اور اس سے (کوئی ) امید رکھنا ایسا ہے جیسے پانی پر نقش و نگار بنانا۔ آیا جو میں نے لکھا ہے تم نے نہیں دیکھا اور جو میں نے کہا ہے تم نے نہیں سنا ۔ دیکھو کل کیسے کیسے پیکر تھے ، آج ان کی کیا صورتیں ہوگئیں اور دیکھنا چاہئے کہ آج رات کے پیٹ میں کیا ہے اور صبح کو کیا وجود میں آتا ہے۔
1843 میں نواب نامدار گورنر جنرل بہادر وزیر ہند مسٹر ایلن برانے دربار میں حاضری کا ارادہ کیا اور انہیں یہ خواہش ہوئی کہ اگر دربار میں بیٹھنے کی اجازت مل جائے تو آداب بندگی بجا لائیں ۔ دوڑ کر وہاں پہنچ جائیں اور لوازم دربار بجا لا کر آداب شاہی ادا کریں اور نذر (غلامانہ) پیش کرنے کے بعد، الٹے پاؤں واپس آ کر کرسی پر زیر تخت کچھ دیر بیٹھیں اور اس امر کو ۔مرتبہ عظیم ۔ سمجھیں ۔ پھر مدح و ثناء کرتے ہوئے داخل دولت ہوں اور احکام سلطانی پر سرتسلیم خم کریں اور نذر بھی پیش کریں ۔۔۔۔ مسدود پاکر ۔۔۔۔ملحوظ رکھ کر ۔۔۔۔اس کے زرو نقد کو ۔۔۔۔۔ انتظام سے لائے اور مداومت کے ساتھ پیش کرتا رہے۔۔۔۔۔ بادشاہ نے اپنے بزرگوں کی آبرو (روایات) کا خیال کرتے ہوئے اس کی اجازت نہ دی اور دربار میں بیٹھنے کے متعلق ان کی گزارش مرغوب خاطر نہ ہوئی۔ فرمایا کہ تیری امداد۔۔ اور اس کا موقع دیئے بغیر کہ دوبارہ اوس سلسلے میں کوئی گزارش یا سفارش کی جائے، فرمان نافذ کیا کہ بارگاہ والا میں ایسی (یعنی بیٹھنے کی) توقع نہ رکھی جائے۔
خلاصہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن رات مسرت میں گزارتے تھے ۔ نہ بادشاہ کو جان کا اندیشہ تھا اور نہ ان کے ہوا خواہوں کو عزت و سامان (کے کھو بیٹھنے ) کا خدشہ تھا ۔ انگریزی حکام اور شاہی امراء میں کمال اتحاد تھا۔ اور یہی اتحادخاص و عام کی کار برآری کا باعث تھا۔ دہلی میں بڑی رونق تھی اور دہلی والوں کی بڑی شان تھی۔ ہر شخص لیاقت و مروت میں نیت خصلت اور تواضع و اخلاق میں نیک سیرت رکھتا تھا۔ گویا وہ ہمہ تن ادب و حیا اور مجسم مہر و وفا ہے۔ ہاں ان کے لطفِ صحبت سے کوئی دل ایسا نہ تھا کہ مسرت و نشاط نہ حاصل کرتا ہو ۔ اس سے زیادہ کیا کہوں اور اس کی داستان کہاں تک گاؤں کہ ۔۔نوخیز ۔۔ آدمیوں کا مجمع ظاہر ہوا اور ان کا ایک گروہ حشرات الارض کی طرح نکل کھڑا ہوا ۔ ان کے اخلاق مختلف تھے، قاعدے علیحدہ تھے ، طریقے مختلف تھے ، روش ناپسندیدہ تھی، علامات جداگانہ تھیں ، ملت نئی اور عقائد نئے تھے۔ قسم قسم کے یہ لوگ تھے، جن کے طور و طریق (بھی) مختلف قسم کے تھے۔ غرض ایسے بے حیا اور شیخی باز جمع ہو گئے جن کی پیشانی پر نہ حیا کا نقش تھااور جن کی فطرت میں وفا کا نام تھا۔ مروت کیسی اور ہمت کہاں کی ! اگر کوئی دردمند انہیں سلام کر لے تو بڑی کراہت سے ہاتھ ہلائیں گے گویا ان کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے۔ اور اگر کوئی غرض مند کچھ عرض کرے تو زبان بریدہ کی طرح جواب نہیں دیں گے ۔ اور اگر دیں گے بھی تو کمینہ پن سے۔ ان میں سے بعض خود بینی کی وجہ سے کسی کو اپنے سے بڑا تسلیم نہیں کرتے اور بعض غرور کے باعث اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے
؎ گر بے ہنر بمال کند کبر بر حکیم کونِ خرش شمارا گر گاؤ عنبر است
اس وقت میں جب کہ ادب کی رسم اور مروت کا طریقہ دنیا سے اٹھ گیا ہے اور قحط الرجال کا زمانہ ظاہر ہوا ہے، اگر کوئی دیدہ ور کہیں سے اس ویرانہ میں آجائے اور ان لوگوں سے درگزر کرے اور (حالات کا ) گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد بھی میری باتوں کو جھٹلائے اور مجھ پر یا میری تحریر پر دروغ گوئی کی تہمت لگائے تو میں یہ کہوں گا کہ افسوس ہے تجھ پر اے ناداں ! اور حیف ہے تجھ پر اے ناواقف ! کیا کہنا تیری سمجھ کا ! تجھے نہیں معلوم کہ گفتگو اس عہد کےنامدار اور کامگار حضرات کے بارے میں ہے نہ کہ اس زمانہ والوں کے متعلق ۔ اس وقت جو رنگ تو اس کے خلاف دیکھتا ہے اور وہ طریقہ جو اس کے خلاف تو پاتا ہے، تو اس سے بدگمان نہ ہو اور مجھ پر عتاب نہ کر کیونکہ یہاں دنیا میں اب اس انجمن کا کوئی نشان اور کوئی مقام باقی نہیں رہا ہے۔ ہاں ہاں بعض وہ لوگ جو اس دور کے باقی رہ گئے ہیں اپنی جگہ خاموش ہیں،نہ یہ کہ جاہ عزت کی وجہ سے جوش و خروش میں ہیں ۔ ان لوگوں کی اگر تجھے تلاش ہو اور (ان سے) تیری ملاقات ہوجائے تو میری بات کو باور کر لے گا۔اے لطیف بس ، اب ابس کر !یہ ماتم سرائی کب تک اور یہ داستان آرائی کہاں تک ! اس داستاں سے تجھ کو کیا فائدہ اور اس پہلی سے تجھ کو کیا نفع؟ بہتر یہی ہے کہ دل کو یاد خدا سے لگا لے اور ادھر ادھر کے خیال سے درگزر کر کیونکہ ارباب خرد اس دنیا کے غم اور شادی سے دل کو آزاد رکھتے ہیں اور روح جو کثیف جسم میں ایک لطیف چیز ہے، تخیلات کی کٹھالی میں نہیں رکھتے اور اصحاب دانش خوب جانتے ہیں کہ انقلاب اس گردش کرنے والے آسمان کی خاصیت ہے۔ اور وضع و اطوار کی تبدیلی اس دنیائے ناپائیدار کے لیئے لازم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے دیدہ حق میں کھولے تو دیکھا کہ اس آسمان کا شیوہ شعبدہ بازی ہے کہ ہر ساعت نئے نئے نقش اور صورتیں بناتا اور بگاڑتا رہتا ہے اور اس کا طریقہ نیرنگ سازی ہے کہ ہر لحظہ کوئی نہ کوئی نیا رنگ لاتا اور لے جاتا ہے۔ جب میں اس کی صورت پر غور کرتا ہوں تو اسے نیست پاتا ہوں اور جب اس کی ہستی کا تصور کرتا ہوں تو اسے بے وجود و معدوم پاتا ہوں ۔ زندگی کو میں نے ایک آن سے زاید نہیں دیکھا اور بقا کو ایک نقش سے زیادہ نہٰیں پایا۔ ان باتوں کے باوجود اس پر تکیہ کرنا ایسا ہے جیسے بلبلے کا ہوا پر گرہ لگانا اور اس سے (کوئی ) امید رکھنا ایسا ہے جیسے پانی پر نقش و نگار بنانا۔ آیا جو میں نے لکھا ہے تم نے نہیں دیکھا اور جو میں نے کہا ہے تم نے نہیں سنا ۔ دیکھو کل کیسے کیسے پیکر تھے ، آج ان کی کیا صورتیں ہوگئیں اور دیکھنا چاہئے کہ آج رات کے پیٹ میں کیا ہے اور صبح کو کیا وجود میں آتا ہے۔
؎ ایں عمر کہ بے تاب بہ بینی آں را نقشے است کہ بر آب بہ بینی آں را
دنیا خوابے و زندگانی در وے خوابے است کہ درخواب بہ بینی آں را
دنیا خوابے و زندگانی در وے خوابے است کہ درخواب بہ بینی آں را