روزمرہ کیا ہے؟

روزمرہ کیا ہے؟

اس سلسلۂ مضامین کا فائدہ دوسروں کو پہنچا، یا نہیں، لیکن سب سے زیادہ فائدے میں ہم رہے۔ ایک تو یہ کہ خود ہماری بھی اصلاح کی جاتی رہی، لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جو اصلی ماہرین لسانیات ہیں انہوں نے زبان و بیان کے حوالے سے مستند کتابیں اور ثقہ قسم کے مضامین کی عکسی نقول بھیجنا شروع کردیں۔ مقصد یہ ہوگا کہ ’’دیکھیے اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا‘‘۔ اگر ایسا ہے تو بھی فائدے میں ہم رہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے لاہور سے محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے عنایت کی۔ شاید اس میں ہاشمیت کا بھی دخل ہو۔ پھر فرائیڈے اسپیشل کے مبصر جناب ملک نواز احمد اعوان نے کچھ کتابیں بھیجیں۔ اعوانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ اس ناتے سے تو وہ بھی ہاشمی ہوئے۔ اور اب لاہور ہی سے نہایت مہربان ادیب و صحافی جناب مسلم سجاد نے، جو مؤقر جریدے عالمی ترجمان القرآن کے نائب مدیر بھی ہیں، ’’روزمرہ و محاورہ زبان‘‘ پر اسیم کاویانی کے قیمتی مضمون کا عکس بھیجا ہے۔ ان اصحاب کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے، اس لیے بھی کہ عنایت کا سلسلہ جاری رہے۔کراچی میں صحافیوں کی ایک تنظیم ’ادارۂ معارفِ اسلامی‘ میں نوجوان صحافیوں کو جمع کرکے اصلاحِ احوال کی اپنے تئیں کوشش کرتی رہتی ہے اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہوگا۔ لیکن ایک ستم یہ کہ اس سلسلۂ مضامین کی وجہ سے ہمیں بھی ماہر لسانیات سمجھ کر بلا لیا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ ایسے اجتماعات میں کوئی ہمیں ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ لیکن ایک نوجوان نے سوال کردیا کہ محاورے اور روزمرہ میں کیا فرق ہے؟سچی بات ہے کہ اس کی وضاحت ہمارے لیے مشکل تھی۔ اُس وقت تو کسی طرح ٹال دیا، لیکن جناب مسلم سجاد نے یہ مشکل حل کردی۔ انہوں نے اسیم کاویانی کا جو مضمون بھیجا ہے اُس میں اس سوال کا جواب ہے:
’’روزمرہ‘‘ بول چال کے اس اسلوب کو کہتے ہیں جو اہلِ زبان روا رکھتے ہیں… اور یہ بول چال عبارت ہوتی ہے صاف، سہل، بے تکلف اور معتدل الفاظ سے، یعنی وہ الفاظ جو اپنی سرشت میں ’حسن نظامی یا دریا بادی‘ ہوں، نہ کہ ’ابوالکلامی‘۔ روزمرہ رواج اور چلن سے وجود میں آتا ہے اور پھر رسم و رواج کی طرح اس پر غالب آنا یا اس سے پہلو بچانا ممکن نہیں ہوتا۔روزمرے اور محاورے میں فرق یہ ہے کہ زبان میں روزمرہ کی مثال حقیقتِ منتظر کی سی ہے، جب کہ محاورہ لباسِ مجاز میں نظر آتا ہے۔ روزمرہ قدم قدم پر ساتھ دیتا رہتا ہے، محاورہ گاہے گاہے۔ محاورہ قواعد زبان کے ساتھ چلا کرتا ہے اور روزمرہ عموماً اپنا قاعدہ خود چلانا پسند کرتا ہے۔ مثلاً: ’ناتحاشا‘ اور ’بے تحاشا‘ دونوں ہی قواعد کی رو سے درست ہیں، لیکن روزمرہ ناتحاشا کی اجازت نہیں دیتا۔ روزمرے کے لحاظ سے ’میٹھا پانی‘ کی ضد ’کھاری پانی‘ ہے نہ کہ ’کھارا پانی‘۔ ’خفیف درد‘ پر روزمرہ ’میٹھا درد‘ کو اور ’ہلکی سردیوں‘ پر گلابی سردیوں‘ کو ترجیح دے گا۔ ارواح، اوقات، سلاطین اور اولاد جیسے لفظ اسمِ جمع سے تعلق رکھتے ہیں، پر روزمرے میں ان کا چلن بطور واحد دیکھا جاسکتا ہے۔ روزمرے ہی کی مدد سے دوسرے لفظوں اور محاوروں کے استعمال کا سلیقہ بنتا ہے۔ جنونؔ منگرولی کا ایک شعر:شوخ ہو جائیں گے کہہ دیتے ہیں اُن کے تیوراول شب ہے، جو وہ شرماتے ہیں شرمانے دومؤلفِ ’نور اللغات‘ کا کہنا ہے کہ روزمرے کے لحاظ سے ’کہہ دیتے ہیں‘ کی جگہ ’کہے دیتے ہیں‘ ہونا چاہیے تھا۔ حالیؔ کا قول ہے کہ کلام میں روزمرے کی مثال اسی طرح کی ہے جیسی کہ انسانی جسم میں تناسبِ اعضا کی۔ بات زبان کے حسن کی ہو یا انسانی حسن کی، تناسب شرطِ اول ہے۔ سوئفٹ نے بھی ’مناسب محل پر مناسب لفظ‘ کو اچھے اسلوب کی علامت مانا ہے۔ زبان میں صوتی، لفظی اور معنوی تناسب ِحسن کی نظیر میں یہ شعر ملاحظہ کیجیے:ہُو کا عالم تھا وہاں، کرتا تھا جنگل بھائیں بھائیںسنسنی اٹھتی تھی سُن سُن کر ہوا کی سائیں سائیںیہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام جس قدر روزمرے سے دور ہوگا اُسی قدر فصاحت سے خالی ہوگا۔ ایک بار ایسی ہی بات چھڑی تو شمس کنول مرحوم نے مسکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ایک فلمی شاعر کے بول ہیں:یوں ہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتےغور کیجیے ’یوں ہی کوئی‘ ’سرراہ‘ اور ’چلتے چلتے‘ میں روزمرہ ہی روزمرہ ہے اور کلام غائب ہے، یا پھر ’لبِ دریا کے کنارے کا ساحل‘ ہوکر رہ گیا ہے!کسی بھی زبان میں روزمرے اور محاورے کے استعمال کی مہارت ایک مدت کی مشق و مزاولت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی زبان میں کامل دسترس کا دعویٰ نہیں کرسکتا، جیسا کہ انگریزوں کے عہد کے ایک گورنر کا قصہ (غالباً) سید احمد دہلوی نے تحریر کیا ہے کہ اسے اردو سیکھنے کا شوق ہوا اور چند برس کی تحصیلِ زبان کے بعد اُسے گمان گزرا کہ وہ اردو زبان میں طاق ہوگیا ہے۔ اسی زعم میں اُس نے دعویٰ کردیا کہ جو شخص بھی چاہے اس کی زبان دانی کا امتحان لے سکتا ہے۔ اہلِ زبان تو ہنس کر چپ ہورہے البتہ ایک دن ایک بانکا، انگریز گورنر کی کوٹھی پر جا پہنچا۔ گورنر نے اس سے پوچھاکہ وہ اس کی زبان دانی کا امتحان کس طرح لینا چاہے گا؟ بانکے نے جواب دیا کہ مجھے تو بس ایک لفظ کے معنی بتا دیں وہی میری تسلی کے لیے کافی ہوگا۔ انگریز نے دل چسپی سے پوچھا: کون سا لفظ! بانکا بولا کہ ’’جھائیں کا‘‘ کے معنیٰ بتا دیں؟ انگریز نے یہ لفظ پڑھا تھا نہ سنا تھا، چکرا گیا۔ لغت پر لغت دیکھنے لگا، آخر ہار مان لی۔ بانکے نے اسے بتایا کہ لکھنؤ کی بول چال میں ’’جھائیں کا‘‘ احمق، بے وقوف، کم عقل کو کہتے ہیں۔ثابت ہوا کہ کسی غیر زبان کے روزمرے اور محاورے اور ان کے استعمال پر قدرت حاصل کرنا بہت کٹھن ہے۔ اسی سلسلے میں مولانا محمد حسین آزاد نے پنڈت دتاتریہ کیفی سے اپنی ایران کی سیر کا حال سناتے ہوئے ایک دل چسپ روایت بیان کی تھی:
’’ایک دن مَیں ایران میں ایک گھر میں مہمان تھا۔ کھانا پک رہا تھا۔ ماں دس بارہ برس کی لڑکی کو چولہے کے پاس چھوڑ کر اندر دالان میں کوئی کام کرنے گئی اور لڑکی سے کہتی گئی کہ دیگچی کا خیال رکھے کہ کھانا جوش کھاکر باہر نہ گر پڑے۔ رفتہ رفتہ آنچ تیز ہوتی گئی، اب میں نے سوچا کہ چاول اُبل کر باہر نکل پڑیں گے۔ دیکھوں تو اس کیفیت کو یہ لڑکی کن الفاظ میں ظاہر کرتی ہے۔ میں اپنی فارسی کی لغات اور زبان دانی کے دفتروں کو اپنے ذہن میں دوہراتا تھا اور اس خیالی کیفیت کے مختلف اظہار گھڑتا تھا کہ شاید یہ کہے گی، یہ کہے گی، کہ وہ وقت آگیا اور میرے تمام خیالی دفتر خیالی پلائو ثابت ہوئے۔ جوں ہی دیگچی کے جوش کھانے سے اس کا ڈھکنا ایک طرف سے ایک آدھ انچ اوپر کو اٹھا، لڑکی چیخی: ’اماں اماں دیگچہ سرکردہ!‘ یہ لفظ گویا میرے کانوں میں الہامی کلمے کی طرح پڑے اور میری آنکھیں کھل گئیں۔‘‘

http://fridayspecial.com.pk/21312
 
Top