فارسی شاعری روئے دلم باز سوئے کربلاست - محمد فضولی بغدادی (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
روئے دلم باز سوئے کربلاست
رغبتِ بیمار بہ دارالشفاست
(میرے دل کا رخ دوبارہ کربلا کی جانب ہے؛ بیمار کو دوبارہ دارالشفا کی رغبت ہے۔)
گردِ رہِ بادیۂ کربلا
مخبرِ مظلومیِ آلِ عباست
(صحرائے کربلا کے راستے کی گرد آلِ عبا کی مظلومی کی خبر دہندہ ہے۔)
زیں سبب از دیدۂ اہلِ نظر
اشک فشانندہ تر از توتیاست
(اسی وجہ سے اہلِ نظر کی نظروں میں کربلا کی مٹی سرمے سے بھی زیادہ اشک آور ہے۔)
ذکرِ لبِ تشنۂ شاہِ شہید
شہدِ شفائے دلِ بیمارِ ماست
(شاہ حُسین کے پیاسے ہونٹوں کا ذکر ہمارے بیمار دل کے لیے شہدِ شفا ہے۔)
آں کہ بہ ہر خستۂ بے دست و پا
نیتِ طوفِ درِ او ہم دواست
(وہ حُسین کہ جس کے دروازے کے طواف کی نیت ہی ہر بے دست و پا بیمار شخص کے لیے دوا ہے۔)
آں کہ پس از واقعۂ کربلا
آرزوئے نصرتِ او ہم غزاست
(وہ حُسین کہ واقعۂ کربلا کے بعد جس کی نصرت کی آرزو کرنا بھی غزوہ/جہاد کے برابر ہے۔)
اشرفِ اشرافِ بنی فاطمہ
سیدِ آلِ علیِ مرتضاست
(وہ حُسین جو اشرافِ ساداتِ بنی فاطمہ اور سیدِ آلِ علیِ مرتضیٰ ہے۔)
پردۂ آرائشِ درگاہِ او
پردہ کشِ چہرۂ جرم و خطاست
(وہ حُسین کہ جس کی درگاہ کا پردۂ آرائش جرم و خطا کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔)
اے بہ رضائے تو قضا و قدر
وے ہمہ کارِ تو بہ تقدیر راست
(اے حُسین کہ قضا و قدر بھی تیری رضا کے موافق ہوتی ہے، اور اے حُسین کہ جس کے سارے کام خدا کی تقدیر کے عین مطابق ہیں۔)
بود دلت را بہ شہادت رضا
نصرتِ دشمن اثرِ آن رضاست
(تیرے دل کو شہادت کی طلب تھی، اور دشمن کو اُسی تیری طلب نے نصرت پہنچائی ہے۔)
ورنہ کجا دشمنِ بدکیش را
تابِ مصافِ خلفِ مصطفاست
(ورنہ تیرے دشمنِ بدنہاد کو کب مصطفیٰ کے نائب کے سامنے صف بند ہونے کی تاب تھی۔)
در ہمۂ مذہبِ حق مجملاً
قاتلِ تو قابلِ لعنِ خداست
(القصہ، تمام مذاہبِ حق میں تیرا قاتل خدا کی لعنت کا مستحق ہے۔)
تجربہ کردیم بسے در جہاں
ہیچ دلے نیست کہ دور از بلاست
(میں نے اس دنیا میں بہت تجربہ کیا لیکن کوئی ایسا دل نہیں مل پایا جو بلا سے محفوظ ہو۔)
بہرِ تو ماتمکدہ اے بیش نیست
خانۂ دل کز غم و رنج و عناست
(ہر وہ خانۂ دل جو غم، رنج اور مشقتوں سے تشکیل پاتا ہے وہ تیرا ماتمکدہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔)
گریاں کناں مردمِ چشمِ ہمہ
بہرِ تو پوشیدہ سیہ در عزاست
(تیرے لیے اور تیری عزاداری میں سب کی آنکھوں کی پُتلیوں نے روتے ہوئے سیہ لباس پہن لیا ہے۔)
مردمِ دیدہ ہمہ ماتم زدہ
دیدۂ مردم ہمہ ماتم سراست
(آنکھوں کی ساری پتلیاں ماتم زدہ ہیں، جبکہ سارے لوگوں کی آنکھیں ماتم سرا ہیں۔)
دوست چہ ساں از تو شود ناامید
حاجتِ دشمن چو بہ لطفت رواست
(جب حاجتِ دشمن بھی تیرے لطف سے پوری ہوتی ہے، تو تیرے دوست کیسے تجھ سے ناامید ہو جائیں؟)
کارِ فضولی بہ تو افتادہ است
چارۂ او کن کہ بسے بے نواست
(فضولی کو تجھ سے کام پڑ گیا ہے؛ اُس کی چارہ سازی کر کہ وہ بہت بے نوا ہے۔)
(محمد فضولی بغدادی)
 
Top