سید عمران

محفلین
کوزہ پشت دنیا کا سفرِ زیست طے ہوا ہی چاہتا ہے۔ قربِ وقتِ اختتام کا سب کو شدت سے احساس ہے۔ اس دنیا نے، مکّار بُڑھیا نے اپنے دامِ اُلفت میں پھنساکر لاکھوں کی مت مار دی، زندگی تباہ کردی، انہیں کہیں کا نہ چھوڑا، دین کا چھوڑا نہ دنیا کا۔
اس تباہ شدہ، شورش زدہ معاشرہ میں بھٹکے ہوئے، پھسلے ہوئے، دور اُفتادہ اور گمراہ لوگوں کو دین و دنیا کی بھلائیاں سمجھانے، انہیں برا بھلا بتانے، سیاہ و سفید دکھانے ایک شخص اُٹھا۔
اور ۔۔۔
اس کا اُٹھنا قیامت ہوگیا۔ ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، لعن طعن کی آندھیاں اُٹھیں اور نفرتوں کے سیلاب چڑھے ۔ مگر وہ ان ہلاکت آفریں اسباب سے بے پروا اپنی منزل کی جانب چلتا رہا، آگے، اور آگے، مزید آگے ۔۔۔بڑھتا ہی رہا۔
لگ رہا تھا دنیا والوں کے طعن و تشنیع، جورو ستم اور مکرو فریب اس کا راستہ روکنے کے لیے اپنی آخری انتہا تک جا پہنچیں گے، اُس انتہاء تک ۔۔۔جہاں تک کبھی کوئی نہیں گیا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ اس کی راہ مارنے کی، راستہ روکنے کی ، اپنے رنگ میں رنگنے کی، اپنے ماحول میں ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس کا مذاق اُڑایا گیا، کانٹوں پر گھسیٹا گیا، مقاطعہ کیا گیا۔ دیرینہ دوست جدا ہوئے، پڑوسی دشمن بن گئے، رشتہ داروں کا خون سفید ہوگیا۔
اس کی زندگی میں ان مردہ دل لوگوں کو اپنی موت نظر آنے لگی۔ بھیڑیوں کا غول اسے ہر قیمت پر اس جہاں سے مٹانے کے لیے اکھٹا ہوگیا، اس کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ لیکن اس کا خون اتنا ارزاں نہ تھا کہ بزدل بھیڑیے اسے چاٹتے۔
زور زبردستی سے اس کی راہ نہ بدلی جاسکی تو اندھیروں کے راہی گھبرا گئے۔ روشنی کے دشمن انوارِ طلوعِ آفتاب کے خوف سے لرزہ براندام ہوئے۔ ظلمت کی سلطنت کے درو بام اندیشۂ عاقبت سے کانپ اُٹھے۔
دھونس، دھاندلی کے بعد ترغیب و تحریص کے حربے آزمائے گئے۔ مال، دولت اور عورت پیش کی۔ مگر وہ جو عزم، جو ارادہ لے کر اُٹھا تھا آخر وقت تک اس پر قائم رہا، ڈٹا رہا۔ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قدغن، کوئی خوف اس کے پائے صلابت و استقامت میں لرزش پیدا نہ کرسکا۔
کیوں کہ ۔۔۔اس کے عزائم، ارادے اور حوصلے کمزور، کچلے ہوئے اور مردہ نہیں تھے، حوصلہ بخش، توانا، حیات آفریں تھے۔ اس کا کام تنہا اپنی ذات کے لیے نہیں تھا، یہ صلائے عام ایک عالم کے مفاد کے لیے تھی۔
پھر ہوا یہ کہ لوگوں کو اس کی نیک نیتی اور اپنے مفاد کا احساس ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ شمردہ افراد اس کے ساتھ ہولیے۔ اس کے غم کے رفیق، تنہائیوں کے ساتھی اور مصائب و آلام کے غم خوار ہوگئے۔ وہ اُس کے ساتھ زمانہ کے شدائد برداشت کرتے۔ وہ ہنستا تو اُن کے دل کی کلی مسکرا اُٹھتی، اُس کی آنکھ میں آنسو آتے تو انہیں عرصۂ زیست تنگ معلوم ہوتا۔
زمانہ ان کی محبت کا شاہد بن گیا۔ اس کی آنکھ نے ایسے منظر کہاں دیکھے تھے۔ اس نے تو ہمیشہ انسانوں کی بے وفائی، دھوکہ دہی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے تماشے دیکھے تھے۔
لیکن اب۔۔۔
رنج و الم، کفر و شرک، ظلم و ستم کا موسمِ خزاں، راحت و نعم، حق و صداقت، رحم اور عدل کی بہار سے بدل گیا۔
گِردوں دھرتی پر بکھرے رنگِ بہار دیکھ کر عالم وجد میں آگیا۔
انسانیت ایسے محبت بھرے پیغام کے لیے ترسی ہوئی تھی۔ انسانانِ عالم اس کے دل موہ لینے والے پیغام پر ایسے گرے جیسے شمع پر پروانے۔ اور وہ۔۔۔
جو تنہا اپنی ذات لے کر چلا تھا، ایک انقلاب لے کے اُٹھا تھا دلوں میں ہلچل مچانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب ایک زمانہ اس کے ساتھ چل رہا ہے، اس کی پیروی کررہا ہے ۔
اب اس کی تنہائی ختم ہوگئی تھی۔۔۔
اس کا مقصد پورا ہوا۔ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچ گیا۔ وہ پیغام جو اس کے پاس خدا کی امانت تھا۔۔۔
اسے جان سے زیادہ پیار کرنے والے ساتھی مل گئے۔۔۔
اور ساتھی بھی کہاں تھے، وہ تو اس کے غلامِ بے دام بن گئے تھے۔۔۔
غلام۔۔۔ جو جنت کے بدلے اپنی جانوں کا سودا کرچکے تھے۔۔۔جو اس کی جنبشِ مژگاں پر اپنے سرتن سے اُتارنے کو تیار تھے۔ جو اس کے پسینہ پر اپنا خون بہاتے۔ جو اپنے جذبۂ جاں نثاری کی بدولت خالقِ کائنات کو بھاگئے۔
غلام ۔۔۔جن کے مقدر میں اس جہاں کی سیادت لکھ دی گئی۔انہوں نے دنیا کی کامرانیاں بھیحاصل کیں اور آخرت کی کامیابیاں بھی۔ ۔۔
اب بھلا ایسے آقا اور ایسے غلام بھی کہیں دیکھنے کو ملیں گے؟؟؟
نہیں، کبھی نہیں ، کبھی بھی نہیں۔۔۔
صلو علیہ و اٰلہ!!!
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت زبردست تحریر۔۔۔۔

دعا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے حقیقی سعادت اور کامیابی کے راستے پر چلنے کے لئے جو تعلیمات دی ہیں، ہم ان پر عمل کر کے فلاح پانے والوں میں شمار ہوں۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
اس کا مقصد پورا ہوا۔ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچ گیا۔ وہ پیغام جو اس کے پاس خدا کی امانت تھا۔۔۔
اسے جان سے زیادہ پیار کرنے والے ساتھی مل گئے۔۔۔
اور ساتھی بھی کہاں تھے، وہ تو اس کے غلامِ بے دام بن گئے تھے۔۔۔
غلام۔۔۔ جو جنت کے بدلے اپنی جانوں کا سودا کرچکے تھے۔۔۔جو اس کی جنبشِ مژگاں پر اپنے سرتن سے اُتارنے کو تیار تھے۔ جو اس کے پسینہ پر اپنا خون بہاتے۔ جو اپنے جذبۂ جاں نثاری کی بدولت خالقِ کائنات کو بھاگئے۔
غلام ۔۔۔جن کے مقدر میں اس جہاں کی سیادت لکھ دی گئی۔انہوں نے دنیا کی کامرانیاں بھیحاصل کیں اور آخرت کی کامیابیاں بھی۔ ۔۔
اب بھلا ایسے آقا اور ایسے غلام بھی کہیں دیکھنے کو مل سکیں گے؟؟؟
نہیں، کبھی نہیں ، کبھی بھی نہیں۔۔۔
صلو علیہ و اٰلہ!!!
ماشاء اللّہ ماشاء اللہ
پروردگار اپنی امان میں رکھے سلامتی عطا
فرمائے آپکو اور آپکے اہل و عیال کو آمیں
مالک کے حضور گڑگڑا کے دعا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے غلاموں کی خاکِ پا میں شمار فرمائے آمین ثم آمین
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک وہ مجھ سے اپنی اولاد اور والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔

ہر جگہ ، ہر موڑ پر ، ہر دور میں
اپنی اُمت کے نگہباں ہیں حضور ﷺ
 
Top