اشرف علی بستوی
محفلین
بلیماران سے ایشیا ٹائمز لائیو : رمضان میں پرانی دلی کی گلیوں میں 'نائٹ واک' کا اپنا مزہ ہے
-
بلیماران سے ابوانس کی رپورٹ
پرانی دلی : اونچی اونچی عمارتوں، تیز رفتار میٹرو، جگہ جگہ بنے فلائی اوور، سڑکوں پر دوڑتی سبز اور میرون رنگ کی شاندار بسیں یہ نئی دلی ( لٹینس دلی ) کی آج کی پہچان ہیں ۔ لیکن پرانی دلی (شاہ جہانی دلی ) آج بھی اپنے بسنے کے وقت جیسی ہی ہے ۔ اس دہلی کو جاننے کے لئے آج ہم آپ کو پرانی دہلی کی گلیوں کی نائٹ واک پر لے چلتےہیں ۔
پرانی دلی کے پائے بھی بڑے مشہور ہیں
جن لوگوں نے بھی دلی 6 فلم دیکھی ہوگی ان کی آنکھوں کے سامنے پرانی دہلی کا نام لیتے ہی پورا نہ صحیح پرانی دلی کا کچھ منظر تو آ ہی جاتا ہے اور رمضان المبارک میں تو ان گلیوں کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے ، کیا بچہ ،کیا بوڑھا کیا جوان ،مرد و زن سب پوری رات نائٹ واک پر رہتے ہیں ۔
ہم سبھی نے یہاں سیلفی بھی لی
تنگ گلیاں، دکانوں میں بے ترتیب بھیڑ، رکشے کی گھنٹیاں، گلیوں کے بچوں کا شور، اذان کی آوازیں، آپ کو پرانی دلی کے رنگ میں سرابورکر دیتی ہیں ۔ کچھ ہی دیر میں آپ پر بھی پرانی دلی کا رنگ غالب ہونے لگتا ہے ۔ سفید ٹوپی لگائے چہل قدمی کرتے پر جوش نوجوانوں کے چہرے پر ایک خاص قسم کی خوشی صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔
افطار سے سہری تک نہاری کا معقول انتظام
گزشتہ رات پرانی دلی کی گلیاں ہمیں یہاں کھنچ لائیں ہم بھی پرانی دلی کی نائٹ واک پرنکل پڑے۔ یہاں پہونچ كر بہت سے لوگوں سے ملنے اور یہاں کے رمضانی پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ، یہاں ہر دوکان کی اپنی الگ ہچان اور ایک تاریخ ہے ، کسی چائے خانے کی تاریخ بھی پچاس برس سے کم نہیں ہوگی ہر ایک کا اپنا ذائقہ اورمارکیٹ میں اپنا نمایاں مقام ہے ۔
کھجلا کی سجی دوکان
جامعہ نگر سے ایک گھنٹے کا سفر طے کر کے جب رات دو بجے ہم بلی ماران میں داخل ہوئے تو منظر ہی نہیں بلکہ یہاں کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل تھا ، گراہکوں سے بھر ی جوتے چپل اور فینسی کپڑوں کی سجی دوکانیں قابل دید تھیں ۔ داخل ہوتے ہی بلی ماران میں ہماری ملاقات پرانی دلی کے نو عمر نوجوانوں کے ایک گروپ سے ہوئی۔ سفید کرتا پا جاما پہنے سر پر گول ٹوپی لگائے اور چہرے پر ایسی مسکراہٹ گویا کہیں سے معرکہ سر کرکے آئے ہوں، مل کر دل باغ باغ ہو گیا ۔
نائٹ واک کرتے ہم بچوں کے لیے چشمہ سازی کارخانے میں آپہونچے
بات نوجوانوں سے ہو رہی تھی اس لیے ہمیں پرانی دلی کی نئی نسل کی تعلیمی صورت حال سے واقفیت کی خو اہش ہوئی بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ پرانی دہلی کے زیادہ تر بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں ان میں سے بہت سے بچے پڑھائی سے دور بھاگتے ہیں اس لئے یہاں کا ڈراپ آؤٹ ریشیو بھی سب سے زیادہ ہے ۔ البتہ دور بھاگنے کی وجہ بتانے سے قاصر رہے ۔
پٹری والے ان ہوٹلوں کی بات ہی کچھ اور ہے
ہم نے یہاں کی کچھ قدیم گلیوں کی تاریخ اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہنے لگے دیکھنے میں تو یہاں کی گلیاں عام سی ہی ہیں لیکن ہر گلی کی اپنی کہانی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہاں گلی ڈكوتان یہاں کبھی ڈكیت رہتے تھے جو ہفتہ وصول کرتے تھے ، ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ لوگ برطانوی حکومت کے مخبر تھے ۔ ان میں سے کچھ کے پاس بیل (سانڈ ) ہوتا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سے لوگ منت مانگتے تھے ۔ گلی كوليا ں کی بھی اپنی کہانی ہے ۔ کولی یعنی کپڑے کا کام کرنے والے بنکر ۔ آہستہ آہستہ لوگ بدل گئے، پرانے گھر ٹوٹ گئے لیکن اس گلی کا نام آج تک نہیں بدلا ۔ یہاں پرانی قبروں والا ایک محلہ بھی ہے جو محلہ قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے.۔ اس کی ایک گلی چھتہ موم گران ہے اسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے لیکن یہاں کی کہانی کے مطابق یہاں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ اس گلی کے اوپر شہد کی مکھیوں کی ایک بڑا چھتہ تھا چھتہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے ٹوٹنے کے بعد ہی وہاں مکان بن پائے ۔
صغیر نہاری والے
اب باری تھی سحری کرنے کی پرانی دہلی کی گلیاں نہاری کی خوشبو سے مہکتی رہتی ہیں محمد صغیر نہاری والے کے یہاں لذیذ نلی نہاری اور پائے سے سحر کی گئی ۔ یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صغیر نہاری کا ذائقہ آپ کو دور سے ہی اس گلی میں کھینچ کر لے آتا ہے ۔
نائٹ واک کرتے نوجوان
بتاتے ہیں کہ پرانی دلی کی تنگ گلیوں میں بنی پرانی حویلیوں کے آس پاس کی رونق اور چہل قدمی اکثر اگست تا مارچ کے دوران بڑھ جاتی ہے. اس دوران تمام بالی وڈ اور هالی وڈ اسٹوڈیو اپنی فلموں کی شوٹنگ کے سلسلے میں ان حویلیوں میں ڈیرہ ڈالتے ہیں. ان تنگ گلیوں میں کئی ایسی بھی حویلیاں ہیں جو گزرے کل کی خوبصورتی کو آج برسوں بعد بھی بیان کرتی ہیں.
کچھ خاص ہے چھننامل کی حویلی
1848 میں بنی چاندنی چوک کی چھننامل کی حویلی آج بھی اندر اور باہر سے انتہائی خوبصورت ہے. تقریبا ایک ایکڑ میں بنی اس حویلی کے صحن میں چھوٹا سا باغ ہے. حویلی کے ڈرائنگ روم کا فانوس مغلیہ دورکا ہے. پوری حویلی کو پرانے فرنیچر سے سجایا گیا ہے. اس حویلی کا کریز چاندنی چوک کی سیر کرنے آنے والے ٹورسٹو میں بھی ہے.
پرانی دلی : اونچی اونچی عمارتوں، تیز رفتار میٹرو، جگہ جگہ بنے فلائی اوور، سڑکوں پر دوڑتی سبز اور میرون رنگ کی شاندار بسیں یہ نئی دلی ( لٹینس دلی ) کی آج کی پہچان ہیں ۔ لیکن پرانی دلی (شاہ جہانی دلی ) آج بھی اپنے بسنے کے وقت جیسی ہی ہے ۔ اس دہلی کو جاننے کے لئے آج ہم آپ کو پرانی دہلی کی گلیوں کی نائٹ واک پر لے چلتےہیں ۔

پرانی دلی کے پائے بھی بڑے مشہور ہیں
جن لوگوں نے بھی دلی 6 فلم دیکھی ہوگی ان کی آنکھوں کے سامنے پرانی دہلی کا نام لیتے ہی پورا نہ صحیح پرانی دلی کا کچھ منظر تو آ ہی جاتا ہے اور رمضان المبارک میں تو ان گلیوں کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے ، کیا بچہ ،کیا بوڑھا کیا جوان ،مرد و زن سب پوری رات نائٹ واک پر رہتے ہیں ۔

ہم سبھی نے یہاں سیلفی بھی لی
تنگ گلیاں، دکانوں میں بے ترتیب بھیڑ، رکشے کی گھنٹیاں، گلیوں کے بچوں کا شور، اذان کی آوازیں، آپ کو پرانی دلی کے رنگ میں سرابورکر دیتی ہیں ۔ کچھ ہی دیر میں آپ پر بھی پرانی دلی کا رنگ غالب ہونے لگتا ہے ۔ سفید ٹوپی لگائے چہل قدمی کرتے پر جوش نوجوانوں کے چہرے پر ایک خاص قسم کی خوشی صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔

افطار سے سہری تک نہاری کا معقول انتظام
گزشتہ رات پرانی دلی کی گلیاں ہمیں یہاں کھنچ لائیں ہم بھی پرانی دلی کی نائٹ واک پرنکل پڑے۔ یہاں پہونچ كر بہت سے لوگوں سے ملنے اور یہاں کے رمضانی پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ، یہاں ہر دوکان کی اپنی الگ ہچان اور ایک تاریخ ہے ، کسی چائے خانے کی تاریخ بھی پچاس برس سے کم نہیں ہوگی ہر ایک کا اپنا ذائقہ اورمارکیٹ میں اپنا نمایاں مقام ہے ۔

کھجلا کی سجی دوکان
جامعہ نگر سے ایک گھنٹے کا سفر طے کر کے جب رات دو بجے ہم بلی ماران میں داخل ہوئے تو منظر ہی نہیں بلکہ یہاں کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل تھا ، گراہکوں سے بھر ی جوتے چپل اور فینسی کپڑوں کی سجی دوکانیں قابل دید تھیں ۔ داخل ہوتے ہی بلی ماران میں ہماری ملاقات پرانی دلی کے نو عمر نوجوانوں کے ایک گروپ سے ہوئی۔ سفید کرتا پا جاما پہنے سر پر گول ٹوپی لگائے اور چہرے پر ایسی مسکراہٹ گویا کہیں سے معرکہ سر کرکے آئے ہوں، مل کر دل باغ باغ ہو گیا ۔

نائٹ واک کرتے ہم بچوں کے لیے چشمہ سازی کارخانے میں آپہونچے
بات نوجوانوں سے ہو رہی تھی اس لیے ہمیں پرانی دلی کی نئی نسل کی تعلیمی صورت حال سے واقفیت کی خو اہش ہوئی بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ پرانی دہلی کے زیادہ تر بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں ان میں سے بہت سے بچے پڑھائی سے دور بھاگتے ہیں اس لئے یہاں کا ڈراپ آؤٹ ریشیو بھی سب سے زیادہ ہے ۔ البتہ دور بھاگنے کی وجہ بتانے سے قاصر رہے ۔

پٹری والے ان ہوٹلوں کی بات ہی کچھ اور ہے
ہم نے یہاں کی کچھ قدیم گلیوں کی تاریخ اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہنے لگے دیکھنے میں تو یہاں کی گلیاں عام سی ہی ہیں لیکن ہر گلی کی اپنی کہانی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہاں گلی ڈكوتان یہاں کبھی ڈكیت رہتے تھے جو ہفتہ وصول کرتے تھے ، ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ لوگ برطانوی حکومت کے مخبر تھے ۔ ان میں سے کچھ کے پاس بیل (سانڈ ) ہوتا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سے لوگ منت مانگتے تھے ۔ گلی كوليا ں کی بھی اپنی کہانی ہے ۔ کولی یعنی کپڑے کا کام کرنے والے بنکر ۔ آہستہ آہستہ لوگ بدل گئے، پرانے گھر ٹوٹ گئے لیکن اس گلی کا نام آج تک نہیں بدلا ۔ یہاں پرانی قبروں والا ایک محلہ بھی ہے جو محلہ قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے.۔ اس کی ایک گلی چھتہ موم گران ہے اسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے لیکن یہاں کی کہانی کے مطابق یہاں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ اس گلی کے اوپر شہد کی مکھیوں کی ایک بڑا چھتہ تھا چھتہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے ٹوٹنے کے بعد ہی وہاں مکان بن پائے ۔

صغیر نہاری والے
اب باری تھی سحری کرنے کی پرانی دہلی کی گلیاں نہاری کی خوشبو سے مہکتی رہتی ہیں محمد صغیر نہاری والے کے یہاں لذیذ نلی نہاری اور پائے سے سحر کی گئی ۔ یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صغیر نہاری کا ذائقہ آپ کو دور سے ہی اس گلی میں کھینچ کر لے آتا ہے ۔

نائٹ واک کرتے نوجوان
بتاتے ہیں کہ پرانی دلی کی تنگ گلیوں میں بنی پرانی حویلیوں کے آس پاس کی رونق اور چہل قدمی اکثر اگست تا مارچ کے دوران بڑھ جاتی ہے. اس دوران تمام بالی وڈ اور هالی وڈ اسٹوڈیو اپنی فلموں کی شوٹنگ کے سلسلے میں ان حویلیوں میں ڈیرہ ڈالتے ہیں. ان تنگ گلیوں میں کئی ایسی بھی حویلیاں ہیں جو گزرے کل کی خوبصورتی کو آج برسوں بعد بھی بیان کرتی ہیں.

کچھ خاص ہے چھننامل کی حویلی
1848 میں بنی چاندنی چوک کی چھننامل کی حویلی آج بھی اندر اور باہر سے انتہائی خوبصورت ہے. تقریبا ایک ایکڑ میں بنی اس حویلی کے صحن میں چھوٹا سا باغ ہے. حویلی کے ڈرائنگ روم کا فانوس مغلیہ دورکا ہے. پوری حویلی کو پرانے فرنیچر سے سجایا گیا ہے. اس حویلی کا کریز چاندنی چوک کی سیر کرنے آنے والے ٹورسٹو میں بھی ہے.