رمضان اور تراویح

بسم الله الرحمن الرحيم
قيام رمضان (تراویح)​
تراویح
تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور عربی میں جمع کا صیغہ دو سے زیادہ کے عدد پر بولا جاتا ہے۔ تراویح کا اطلاق صرف اس نماز پر ہوگا جس میں کم از کم تین ترویحے ہوں۔ ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کو کہتے ہیں۔ آٹھ رکعات میں ایک ترویحہ بنتا ہے بارہ میں دو اور سولہ میں تین۔ تراویح کا اطلاق اس نماز پر صحیح ہوگا جس کی کم از کم رکعات سولہ ہو اس سے کم پر نہیں۔
مأخذ لفظ تراويح
صحيح البخاری میں ہے كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ۔
صحيح مسلم میں ہے بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ۔​
السنن الكبرى للبيهقي باب ما روى في عدد ركعات القيام في شهر رمضان میں عائشہ رضى الله عنها سے روایت ہے کہكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى اربع ركعات في الليل ثم يتروح الحدیث۔رسول الله صلى الله عليہ وسلم رات كو چار ركعت پڑھتے كافى دير تك پھر ترویحہ (آرام) فرماتے الخ۔
اور زيد بن وہب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہكان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يروحنا في رمضان يعنى بين الترويحتين قدر ما يذهب الرجل من المسجد إلى سلع۔ عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنہ رمضان میں ترويحہ اس قدر لمبا كرتے كہ آدمى مسجد سے سلع (ايك جگہ كا نام) تك چلاجاتا ۔
تراویح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے​
تراویح نبى صلى الله عليہ وسلم كى سنت ہے بدعت نہیں (صحيح ابن خزيمة فی الباب)۔
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ بے شك الله تعالى نے رمضان کے روزﮮ فرض کئے ہیں اور میں نے اس كى راتوں كا قيام آپ کے لئے سنت قرار ديا ہے ۔ جس نے رمضان كا قيام ايمان اور احتساب کے ساتھ كيا اس کے پچھلے گناہ معاف كردیئے جاتے ہیں اور وه ايسا ہو جاتا ہے جيسا كہ اس كى ماں نے ابهى جنا ہو (سنن النسائی باب ذِكْرُ اخْتِلَافِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَالنَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ فِيهِ)۔
تراویح كى ترغيب
رسول الله صلى الله عليہ وسلم قيام رمضان كى طرف رغبت دلاتے تھے مگر بالجزم حكم نہ فرماتے تھے (موطأ مالك بَاب التَّرْغِيبِ فِي الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ)۔
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان كا قيام الليل ايمان اور احتساب کے ساتھ كيا اس کے پچھلے گناہ معاف كر دیئے جاتے ہیں (صحيح البخاری بَاب تَطَوُّعُ قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ الْإِيمَانِ)۔
 
رسول الله صلى الله عليہ وسلم كی رمضان میں تراویح​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جتنی کوشش کرتے اتنی دوسرے ایام میں نہ کرتے تھے (صحيح مسلم بَاب الِاجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)۔
جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے اوراپنے اہل کو بھی جگاتے اورتہبند مضبوتی سے کس لیتے (صحيح مسلم بَاب الِاجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)۔
بے شك رسول الله صلى الله عليہ وسلم ايك رات نکلے پس مسجد میں نماز ادا كى اور لوگوں نے آپ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی صبح ہوئى تو انہوں نے لوگوں سے تذكره كيا لوگ جمع ہوگئے اور آپ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے اور لوگوں سے تذكره كيا تيسرى رات مسجد لوگوں سے بهر گئی رسول الله صلى الله عليہ وسلم نکلے ان کے ساتھ نمازپڑھی پھرجب چوتھی رات ہوئى مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بهر گئی الخ۔ (صحيح البخاری: کتاب صلاۃ التراویح: بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)
تراویح بيس ركعت
ابوعيسى رحمۃ الله عليہ (صاحبِ سنن الترمذی) فرماتے ہیں كہ اكثر اہل علم اس پر ہیں كہ تراویح بيس (20) ركعت پڑھی جائیں جو كہ عمر اور على (رضى الله تعالى عنہما) اور دیگر اصحاب النبى رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروى ہے اور یہ بات ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ سب نے بیان کی ہے۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے مکہ شہر میں لوگوں کو 20 رکعات تراویح ہی پڑھتے پایا (سنن الترمذی باب ما جاء في قيام شهر رمضان)۔
موطأ مالك - (ج 1 / ص 342)
1) یزید بن رومان رحمۃ اللہ علیہ درماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعات پڑھا کرتے تھے۔
2) اعرج فرماتے ہیں کہ ہم نے لاگوں کو رمضان میں کفار پر لعنت کرتے پیا اور یہ کہ قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعات میں پڑھتا تھا۔ اگر وہ سورہ بقرہ بارہ رکعات میں پڑھتا تو لوگ کہتے کہ رکعات ہلکی پڑھی ہیں۔
السنن الكبرى للبيهقي کی روایات
3) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے-
4) یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات (تراویح) پڑھتے تھے ۔
5) سويد بن غفلہ نے رمضان میں پانچ ترویحوں کے ساتھ بیس رکعات (تراویح) پڑھائی ۔
6) شتير بن شكل جو کہ على رضى الله عنه کے شاگردوں میں سے تھے، رمضان کے مہینہ میں بیس رکعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر ۔
7) على رضى الله تعالیٰ عنہ نے رمضان میں قاری حضرات کو بلوایا اور ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعات (تراویح) پڑھائے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو وتر پڑھاتے ۔
8) على رضى الله عنہ نے ايك قارى كو حكم ديا لوگوں كو بيس ركعت تراويح پانچ ترويحوں کے ساتھ پڑھانے کا ۔
مصنف ابن أبي شيبة کی روایات
9) شتیر بن شکل رمضان میں بيس ركعت (تراویح) اور وتر پڑھاتے ۔
10) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم کیا کہ ان کو رمضان میں بيس ركعت (تراویح) پڑھائے ۔
11) عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم کیا کہ ان کو رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھائے -
12) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھاتے اور بحمد الملائكة ایک رکعت میں پڑھتے ۔
13) ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں كو رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر -
14) حارث رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو رمضان میں رات کو بيس ركعت (تراویح) پڑھاتے اور وتر تین رکعات اور رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے ۔
15) ابی البختری رحمۃ اللہ علیہ رمضان میں پانچ ترويحات کے ساتھ نماز (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر پڑھتے -
16) عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو (رمضان میں) بيس (رکعات تراویح) اور تین ركعات وتر پڑھتے پایا ۔
17) علی بن ربيعہ رحمۃ اللہ علیہ رمضان میں پانچ ترويحات کے ساتھ نماز (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر -
 
کیا تراویح آٹھ رکعات ہوسکتی ہے؟
آٹھ رکعات پر تراویح کا اطلاق ہی صحیح نہیں کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے جو ہر چار رکعت کے بعد کیا جاتا ہے۔ عربی میں جمع کا صیغہ کم از کم تین پر بولا جاتا ہے۔ لہٰذا تراویح کا اطلاق اس نماز پر ہوگا جس میں کم از کم تین ترویحہ ہوں یعنی کم از کم سولہ رکعات۔
 
Top