رمضان المبارک میں نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال

ضیاء حیدری

محفلین
Zia Hydari


رمضان المبارک میں نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال
رمضان المبارک کے ماہ سعید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کے قیام کوبڑھا دیتےتھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات رمضان پر عمل ہمارے لئے باعث رحمت ونجات ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔
عن انس بن مالک قال: کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اذا دخل رجب قال: اللهم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.
( مسند احمد بن حنبل‘ 1: 259)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے:
کان اذا رای هلال رمضان قال: هلال رشد و خير‘ هلال رشد و خير امنت بالذی خلقک.
(مصنف ابن ابی شيبه‘ 10: 400‘ رقم حديث: 9798.)
( المعجم الاوسط‘ 1: 212‘ رقم حديث: 313)
’’جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔‘‘
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کرتے
ما تستقبلون؟ ماذا يستقبلکم؟ (ثلاث مرات)
(الترغيب والترهيب‘2: 105)
’’تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)۔‘‘
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الله يغفر فی اول ليلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.
(الترغيب والترهيب‘ 2: 105)
’’تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو‘ خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں‘ وہ فرماتے ہیں:
قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر.
(صحيح مسلم‘ 1: 350‘ کتاب الصيام‘ باب فضل السحور‘ رمق حديث : 1098.)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا:
فمن صامه و قامه ايماناً و احتسابا خرج من ذنوبه کيوم ولدته امه
(سنن نسائی‘ 1:308‘ کتاب الصيام‘ رقم حديث: 2208)
’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے‘ جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا۔‘‘
اس ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کے عفو و کرم سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں‘ گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو ا ہو۔ رات کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
نماز تراویح کا سنت مؤکدہ ہونا نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا سے۔ بصورت دیگر موجودہ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے‘ جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دوران ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسب دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیش نظر زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن‘ پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی:
أقراه فی کل سبع.
(مسند احمد بن حنبل ‘ 2:162)
’’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘
رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کی ادائیگی کے بارے میں معمول مبارک یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے‘ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عليکم بقيام الليل فانه داب الصالحين قبلکم
(سنن الترمذی‘2: 194‘ کتاب الدعوات‘ رقم حديث : 3549)
’’تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
فاذا لقيه جبريل عليه السلام کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة.
(صحيح البخاری‘ 1: 255‘ کتاب الصوم‘ رقم حديث:1803)
’’جب جبریل امین آ جاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کر پاتی۔‘‘
رمضان المبارک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے‘ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔ لیکن جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومطلع کر دیا گیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے معمول اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
ان النبی کان يعتکف العشر الآواخر من رمضان حتی توفاه اللّٰه تعالیٰ.
(صحيح البخاری‘ 1: 271‘ کتاب الاعتکاف‘ رقم حديث: 1922)
’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ آخری عشرہ کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔
اس مقدس اور مبارک مہینے کی ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہے، ہمیں اس ماہ مبارک کو نبی ﷺ کی اتباع میں، آپﷺ کے معمولات رمضان کے عین مطابق گذارنا چاہئے، اللہ عزعجل ہم سن کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
Top